گالم گلوچیے وہاتھا پائیے!

 گالم گلوچیے وہاتھا پائیے!

مجھے اِن دنوں خان صاحب کے پجاریوں (قوم یوتھ) کی طرف سے روز یہ طعنے اور گالیاں وغیرہ سننے کو ملتی ہیں کہ آپ نے جب سے سماء نیوز جائن کیاہے اور جب سے اس چینل کے مالک علیم خان پی ٹی آئی سے الگ ہوئے ، جیسے اُن کا رویہ بدلہ، ایسے ہی آپ کا طرز تحریر بھی بدل گیا ہے‘‘…وہ اِسے میری ’’ضمیر فروشی‘‘ کہتے ہیں، کہتے رہیں، مجھے اُس کی کوئی پروا اس لیے نہیں کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور میں نے اپنے اعمال کا حساب ’’قوم یوتھ‘‘ کو نہیں اپنے رب کو دینا ہے، … اصل میں اُن بے چاروں کا بھی کوئی قصور  نہیں، کچھ بے وقوف بے روزگاروں کی روزی روٹی اِس پر لگی ہوئی ہے کہ وہ خان صاحب کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو سرعام ننگی گالیاں دیں، اِس مقصد کے لیے کچھ گروپس پشاور سے بھی اپنے ’’فرائض منصبی‘‘ ادا کررہے ہیں، یہ باقاعدہ ’’پیڈگروپس‘‘ ہیں، اور بے شمار ایسے لوگ ہیں خصوصاً ایسے نوجوان ہیں جن کی پچھلے چاربرسوں میں اور اُس سے پہلے بھی خان صاحب نے تربیت ہی ایسی کی ہے وہ سوائے بداخلاقیوں اور چالاکیوں کے کچھ کرہی نہیں سکتے۔ جس کے پاس جوہوتا ہے وہی وہ دوسروں کو دیتا ہے، خان صاحب کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے صرف گالیاں اور دھمکیاں ہیں، سو ایک ایسا غلیظ ماحول اُنہوں نے قائم کردیا ہے اُن کے پیروکار یا اُن کے پجاری جب تک اپنے کسی مخالف کو کوئی گالی یا دھمکی نہ دیں اُن بے چاروں کو سکون ہی نہیں مِلتا ، وہ اِسی کو ’’تبدیلی‘‘ سمجھتے ہیں اور یہی اُن کی ’’حُب الوطنی‘‘ ہے، …کسی نے بالکل درست فرمایا ’’عمران خان نے تحریک انصاف کو ایک الگ مذہب بنادیا ہے، ایسا مذہب جس میں اُن کے چاہنے والوں کو باور کروایا جاتا ہے اُن کا ’’پیشوا‘‘ جو بھی کہہ رہا ہے، جب بھی کہہ رہا ہے، اُس پر غیر مشروط ایمان لایا جائے۔ بصورت دیگر سوال اُٹھانے والا گمراہ تصور کیا جائے گا …جو اِس ’’مذہب‘‘ میں داخل ہوچکا ہے اُس کی سیاست اُس کی دیانت پر کوئی سوال نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ ہاں جو کوئی اِس ’’مذہب‘‘ کو ترک کرتا ہے وہ غدار، چور، ڈاکو، کرپٹ، مفاد پرست ، اور لوٹا ہوتا ہے، امر باالمعروف کا مطلب اُن کے نزدیک یہ ہے جو ہمارے ساتھ کھڑے ہیں صرف وہی حق پر ہیں جو ہمارے خلاف ہیں وہ تقریباً کافر ہیں غدارہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی رشتہ داری نہ کرے۔ اُن کا مکمل سوشل بائیکاٹ کیا جائے ‘‘… یقین کریں کبھی کبھی خوف محسوس ہوتا ہے یہ ’’جنونی جتھا‘‘ مستقبل میں نجانے کیا کیا گل کھلائے گا ‘‘؟؟خان صاحب کے چارسالہ اقتدار میں، اور اُس سے پہلے جب وہ کنٹینر پر تھے اُن کا ہر قصور ہر جُرم ہر غلطی معاف ہوسکتی ہے، مگر نوجوانوں کو اُنہوں نے بداخلاقی کا جو درس دیا، جس کے نتیجے میں آج وہ اپنے ’’پیشوا‘‘ کی خاطر اپنے بزرگوں تک سے بدتمیزیوں اور بداخلاقیوں کے مظاہرے کرنا قطعی طور پر بُرا عمل نہیں سمجھتے اُن کا یہ قصور شاید ہی قدرت معاف کرے گی۔ پاکستان کو اُنہوں نے ریاست مدینہ کی آڑ میں ’’ریاست بدتمیزی وبداخلاقی‘‘ بنادیا، یہ عمل ہنوز جاری ہے اور پتہ نہیں مزید کیا کیا گل کھلائے گا ؟ بطور وزیراعظم بدزبانی کی جو روایات اُنہوں نے قائم کیں یقین کریں اگلے روز شہبازشریف وزیراعظم بننے کے بعد جس مہذب انداز میں بات کررہے تھے یوں محسوس ہورہا تھا یہ وزیراعظم نہیں اور ہی کوئی بول رہاہے، بولنے اور بکنے میں بڑا فرق ہوتا ہے خان صاحب نے پچھلے بہت عرصے سے اس فرق کو ختم کردیا ہوا ہے، ایک بار ان کی خدمت میں ایک ملاقات میں، میں نے عرض کیا تھا۔ ’’صرف چھ ماہ آپ بطور وزیراعظم کوئی کارکردگی بھی نہ دکھائیں، چھ ماہ تک آپ صرف اپنی زبان ہی پر کنٹرول کرلیں، یعنی صرف بولنا بند کردیں، آدھے سے زیادہ مسائل ملک کے آپ کی صرف اِس ’’مہربانی‘‘ سے حل ہو جائیں گے ‘‘۔ میں چونکہ مراد سعید، فواد چوہدری یا ڈاکٹر شہباز گل نہیں تھا لہٰذا میرے مفت کے اِس مشورے کو اُنہوں نے بالکل ہی رد کردیا، اب موجودہ سیاسی حالات جو پی ٹی آئی نے اقتدار کھونے کے بعد پیداکردیئے ہیں اُن کے مطابق پی ٹی آئی والوں سے کسی معاملے کسی مسئلے پر اختلاف کرنے کا سیدھا سیدھا مطلب عزت سے ہاتھ دھونا ہے، اِس وقت پاگل پن کا عجیب دورہ اُن پر پڑا ہوا ہے، چنانچہ ’’قوم یوتھ‘‘  کا کوئی فرد آپ سے یہ کہے کہ ہاتھی اُڑتا ہے، آپ فوراً اعتراف کرلیں، بلکہ یہ عرض کریں ’’ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے خود اُسے بجلی کی ایک تار پر بیٹھے دیکھا ہے‘‘ …وہ اگر یہ کہیں ’’گدھا انڈا دیتا ہے، آپ فوراً تسلیم کرلیں اور یہ عرض کریں ’’بالکل دیتا ہے، میں نے خود ابھی اُس کی پُونچھل اُٹھا کر اپنے ہاتھوں سے اندر سے انڈہ نکالا ہے‘‘…وہ اگر یہ کہیں اپنے چارسالہ اقتدار میں خان صاحب نے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہادی ہیں، آپ فوراً مان لیں، آپ یہ عرض کریں، ’’میں آج کل دودھ اور شہد اِن ہی نہروں سے لیتا ہوں‘‘ … اگلے روزپی ٹی آئی کے ایک رہنما نے مجھے سے کہا ’’لاہور اسلام آباد موٹروے عمران خان نے بنائی تھی ‘‘ … میں نے فوراً اُن کی اس بات کے آگے سرتسلیم خم کردیا، میں نے عرض کیا، جی بالکل خان صاحب نے 1992ء میں جب اس موٹر وے کا باقاعدہ افتتاح کیا میں اُن کے ساتھ ہی کھڑا تھا … بہرحال آج کل خان صاحب کے بارے میں سچ اُگلنے پر ’’قوم یوتھ‘‘ کی جانب سے جس طوفان بدتمیزی کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے اُس کا ’’فائدہ ‘‘ پی ٹی آئی اور خان صاحب کو یہ ہورہا ہے تھوڑی بہت اس جماعت یا اس کے سربراہ کے لیے قدر یا محبت جو دل میں موجود تھی وہ بھی ختم ہوتی جارہی ہے …مجھے صرف اپنے ضمیر کے مطابق چلنا ہے، میں اپنی سچائی کا جوابدہ صرف اپنے رب کوہوں، لوگ کیا کہیں گے؟ لوگ کیا سوچیں گے ؟میں نے کبھی نہیں سوچا، انسان بے چارہ ساری زندگی یہی سوچتا رہتا ہے میں فلاں کام کروں گا تو لوگ کیا کہیں گے ؟ فلاں کام کروں گا تو لوگ کیا کہیں گے؟۔دوسری عرض آپ پر جب کبھی مشکل وقت آتاہے آپ اپنے اردگرد اپنے آگے پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں لوگ کہیں آپ کو دکھائی نہیں دیتے، سب بھاگ جاتے ہیں، … مجھے افسوس صرف اس بات پر ہے اِن یوتھیوں کو کیا پتہ چوبیس برسوں تک پی ٹی آئی اور خان صاحب کی کتنی بے لوث خدمت ہم نے کی ؟ اس جماعت کو اقتدار تک پہنچانے کے گناہ میں کس حدتک ہم شریک رہے؟ افسوس صد افسوس یہ جماعت اب بداخلاقی کے بدترین مقام پر کھڑی ہے، جہاں اس کے ہاتھوں اس کے کسی مخالف کی عزت محفوظ نہیں، …صرف اتنی وضاحت ضروری ہے کہ سماء نیوز میں نے چار ماہ قبل جائن کیا تھا جبکہ خان صاحب کو آئینہ دکھانے کا عمل چاربرسوں سے جاری ہے۔ (میرا گوگل اور فیس بک کا ریکارڈ گواہ ہے )

مصنف کے بارے میں