آئیے ! دکھ کے مارے لوگوں کا مداوا کریں

آئیے ! دکھ کے مارے لوگوں کا مداوا کریں

پاکستان میں جس طرح مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ، ویسے ہی عام آدمی کی زندگی بھی عذاب کی مانند ہوتی جا رہی ہے ۔ عام آدمی اپنی ایک دن کی روٹی کو پورا کر نے کے لئے شدید ترین اذیت سے گذر رہا ہے اور ان حالات میں بچوں کی پڑھائی، گھر کا کرایہ اور بیمار ہونے کی صورت میں علاج، ایک خوفناک خواب بنتا جا رہا ہے ۔کسی گھر میں دل، گردوں ، کینسر یا جگر کا مریض ہے تو اس کی ادویات کا ماہانہ خرچہ کم از کم دس ہزار روپے بنتا ہے ۔ ان حالات میں جہاں روٹی مشکل ہوتی جا رہی ہے آسمان سے باتیں کرتی، روز بروز مہنگی ہوتی ادویات کا پورا کرنا ، نا ممکن ہو تا جا رہا ہے ۔ لوگ اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں میں مرتے دیکھنے پر مجبور ہیں ۔ 
ایسے میں ضرورت ہے کہ معاشرے کے وہ سر مایہ دار لوگ آگے بڑھیں، جن پر اللہ کا خاص کرم ہے اور جن کے مال میں اللہ نے غریب و محتاجوں کا حصہ رکھا ہے ، وہ سفید پوش خاندانوں کے بچوں کی پڑھائی کے اخراجات اپنے ذمے لیں تاکہ کسی کا اپنے بچے کو انجینئر اور ڈاکٹر بنانے کا خواب ادھورا نہ رہ جائے ۔ ایسی صورتحال میں لوگوں کو آسان اور بہترین طبی سہولیات دینے کے لئے پرائیویٹ ہسپتال بھی اپنی حیثیت کے مطابق حصہ لیں ۔ جہاں سو بیڈز ہیں وہاں دس بیڈز سفید پوش خاندانوں کے لئے مختص کر دئیے جائیں جہاں ان کا علاج سو فیصد مفت کیا جا سکے ۔ یقین جانئے!!! خدا پھر جس کے نتیجے میں آپ کو اس قدر نوازے گا کہ آپ کا وہم وگمان نہیں ہوگا۔ اگرآپ نے اللہ کے فضل کا ثبوت دیکھنا ہے تو لاہور کی نہر پر واقع کینال بنک میں مختاراں رفیق ہسپتال کا چکر لگالیں ۔ لاہور کے کاروباری دوستوں کے ایک گروپ کی جانب سے 
ایک کمرے میں شروع کی جانے والی چھوٹی سی ڈسپنسری سے چھ منزلہ ہسپتال تک کی داستان، میرے لئے بہت بڑی موٹیویشن ہے۔یہ ہسپتا ل شہر لاہور کے اس بد نصیب علاقے میں واقع ہے جہاں میلوں دور بھی کوئی سر کاری ہسپتال موجود نہیں او ر یوں روزانہ سیکڑوں مریض اپنے علاج کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔ چھوٹی سے بیماری سے لیکر گردوں کے اسٹیٹ آف دی آرٹ ڈائلیسز یونٹ تک ، دور حاضر کی تمام سہولیات سے مزین بہترین آپریشن تھیٹرز اور اس میں موجودمشینری، انسانیت سے محبت رکھنے والا طبی عملہ، ہیومن ریسوس کے مروجہ اصولوں کے عین مطابق ہسپتال کے انتظامات کو بہترین طریقے سے چلانے والی مینجمنٹ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز ، مجھے یہ سب دیکھ کر از حد خوشی ہوئی کہ دکھ کے مارے لوگوں کو آسانیاں تقسیم کرنے میں یہ پیش پیش ہیں۔ 
قارئین کرام ! مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہاں مہنگا ترین علاج ، بالکل مفت کیا جارہا ہے ۔ امیر ہو یا غریب، اگر وہ استطاعت نہیں رکھ سکتا تو علاج، ادویات اور ٹیسٹوںتک کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور بڑے احسن انداز میں علاج و معالجہ کیا جا رہا ہے ۔ گردوں کی بیماری میں مبتلا مریضوں کو مہنگا ترین علاج بھی مفت فراہم کیا جا رہا ہے اور اس کے لئے ایک الگ فلور پر دور جدید کی ڈائلیسزمشینیں صبح و شام مریضوں کا ڈائیلسزکرنے میں مصروف ہیں ۔ گردوں کے امراض کے مریضوں کو ہردوسرے دن سے لیکر ہفتے میں تین دن تک بھی ڈائلیس کرانے کی ضرورت پڑتی ہے جس کے لئے ایک ڈائلیسز پر پانچ سے سات ہزار روپے کا خرچ آتا ہے لیکن یہاں وہی ڈائلیسز بالکل مفت اور اس میں استعمال ہونے والے انجکشن سے لیکر بیگز تک تمام اشیا ء امپورٹڈ ز ہیں۔ عام مریضوں اور ہیپاٹائٹس کے مریضوں کے لئے الگ الگ وارڈز ہیں اور انفکشن فری بنا نے میں علیحدہ سے عملہ مستعد رہتا ہے ۔ 
قارئین کرام ! جس طرح گذشتہ ادوار میں کہا جا تھا کہ ٹی۔بی اور غربت آپس میں بہنیں ہیں ، دور حاضر میں غربت اور ڈائیلسز میں بہت قریبی تعلق ہوتا جا رہا ہے ۔ گردوں کے امراض میں مبتلا ہزاروں مریض صرف اس وجہ سے مرجاتے ہیں کہ ان کے پاس ڈائیلسز کرانے کے پیسے نہیں ہوتے ، سرکاری ہسپتالوں میں مہینوں کا وقت دیا جاتا ہے اور اگر باری آبھی جائے تو شدید انفکشن سے مریض جان کی بازی ہار جاتا ہے ۔ ایسے صورتحال میں مختاراں رفیق ہسپتال جیسے ادارے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ میں ارباب اختیار سے بھی گزارش کروں گا کہ ایسے اداروںکی سرپرستی کریں اور انہیں کامیابی کے ساتھ چلانے والے اہل خیر کے دست و بازو بنیں ۔ جنہیں قدرت نے بے تحاشا دولت سے نوازا ہے وہ بھی ان مشکل ترین حالات میں آگے بڑھیں اور ان لوگوں کے دست و بازو بنیں جو اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے اپنی فریاد نہیں رکھتے ، جو کئی کئی دن فاقوں سے رہ لیتے ہیں لیکن کسی کو اپنا بھوکا پیٹ ظاہر نہیں کرتے، جو مر نے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا موت سمجھتے ہیں ۔ 
اگر آپ خود سے خدمت خلق کے اتنے وسیع نیٹ ورک نہیں چلا سکتے تو مختاراں رفیق ہسپتال جیسے اداروں کے ساتھ مل جائیں جو لوگوں میں آسانیاں تقسیم کر نے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں ۔ ان مشکل ترین حالات میں پھر دیر کس بات کی؟ آئیے آج سے ہی دکھ کے مارے لوگوں کا مداوا کر نا شروع کر دیں ۔ 

مصنف کے بارے میں