پیر کی ضیافت اور شوکت ترین کی وضاحت

پیر کی ضیافت اور شوکت ترین کی وضاحت

ایک پیر صاحب کسی مرید کے ہاں مہمان ہوئے۔ مرید کی بہو جو پیر صاحب کے لیے کھانا پکانے میں مصروف تھی تین سے زائد سالن بن گئے اب پراٹھے پکانے لگی تو پوچھا پیر صاحب آپ کے لیے کتنی روٹیاں (پراٹھے بناؤں)۔ وہ بولے، جتنا مناسب سمجھیں، بس کھانا ہی کھانا ہے۔ اس نے سوچا عام کونسلر کے معیار کا مولوی کھانے پہ آئے تو حشر اٹھا دیتا ہے یہ تو بڑا لیڈر مارکہ پیر ہے، خود ہی پوچھنے لگی، بیس روٹیاں (پراٹھے) بہت ہیں۔ پیر صاحب تلملا اٹھے، آپ نے مجھے ڈنگر (جانور) سمجھ رکھا ہے۔ وہ بیچاری سہم گئی کہ شائد کوئی الزام لگا بیٹھی۔ اس نے کہا آپ سے پوچھا آپ ہی بتا دیں۔ پیر صاحب گویا ہوئے، بس 17/18 پکا دیں بہت رہیں گی۔ سابقہ حکومت پر سابقہ اپوزیشن جب یہ الزام لگاتی ہے کہ 1947 سے لے کر اب تک یعنی سابقہ حکومت کے خاتمے تک پاکستان  نے جتنا قرضہ لیا ہے عمران حکومت نے ساڑھے تین سال میں ہی اس کا 80 فیصد لے لیا ہے تو سابقہ حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی تلملا اٹھتے، اب اگلے روز شوکت ترین مالی امور کے ماہر اور سابقہ حکومت کے غالباً وزیر خزانہ نے ایک پریس کانفرنس میں فرمایا کہ ہم نے 70 سال سے زائد عرصہ کے قرضہ کا ساڑھے تین سال میں 80 فیصد نہیں 76 فیصد لیا ہے تو مجھے وہ پیر یاد آ گئے جو بیس روٹیوں پر اپنے آپ کو ڈنگر اور مویشی کہہ رہے تھے اور تخمینہ لگا کر 17/18 پراٹھوں کے ذریعے اپنے آپ کو انسان ثابت کر رہے تھے۔ گوئٹے کا سٹیج ڈرامہ ہے، جس میں ایک شخص ہے جس کی ایک آنکھ نہیں، ایک ٹانگ نہیں، ایک بازو نہیں، ان پڑھ ہے اس کے پاس صرف پیسہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے دو دو ملازم رکھے ہوئے ہیں، دو دو ٹانگوں میرا استقبال کرتے ہیں، دو دو ہاتھوں والے مجھے سلیوٹ مارتے ہیں۔ لہٰذا میں ادھورا انسان ہی ان پر حاکم اور مسلط ہوں۔ اس کو لاہور سٹیج ڈرامہ والوں نے بھی فلمایا اور وہ مزاحیہ انداز میں لے گئے۔ وہ بندہ جس کی آنکھ نہیں اس کو چودھری کا نام دیا اور وہ آ کر اچھے بھلے لوگوں کو گالیاں دیتا ہے، چور اچکے بدمعاش کہتا ہے اور ان پر الزامات لگاتا ہے۔ تو ایک اداکار کہتا ہے کہ ’’یار قدرت خدا دی ساہنوں آکھدا کون پیا اے‘‘ یعنی خدا کی کرنی ہے کہ ہمیں کہہ کون رہا ہے جو خود مکمل انسان نہیں ہے۔ جب میں شیخ رشید کی معاشی حوالے سے عمران خان کی کسی حوالے سے موجودہ حکومت پر جس کے ابھی دودھ کے دانت نہیں گرے اس پر تنقید کرتے ہیں تو مجھے گوئٹے کا وہ لولا لنگڑا کانا کردار یاد آتا ہے جس کے اپنے پلے کوئی شے نہیں۔ حیرت ہے کہ وہ پورے انسانوں پر تنقید کر رہا ہے۔ سیاسی خبریت کے حوالے 
سے میں خبر کا آدمی نہیں ہوں میں تجزیے کا آدمی ہوں تو آج تجزیہ کیے دیتا ہوں کہ بلاول بھٹو کسی بھی وقت حکومت کو خیرباد کہہ دیں گے اور وہ موجودہ حکومت کو خیر باد کہنے والے پہلے شخص ہوں گے۔ تفصیلات کی اس کالم میں گنجائش نہیں آئندہ کبھی اس پر بات ہو گی۔
یہ بھی کیا عجیب الخلقت مخلوق تھی جو سابقہ حکومت کہلاتی ہے۔ شیخ رشید ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنے گھر خالی کرنے کا قصہ سناتے ہوئے بتا رہے تھے کہ چار ماہ پہلے پتہ چل چکا تھا کہ ہم حکومت سے باہر ہو رہے ہیں۔ ویسے اکتوبر 2020 کو جب پی ڈی ایم بنا، اس کے لائحہ عمل میں عدم اعتماد شاید دوسرے ہی نمبر پر تھا البتہ دھرنے اور استعفوں کے معاملے جو سب سے آخر میں تھے مولانا فضل الرحمن شروع میں ہی چاہتے تھے جس پر بلاول بھٹو جن کے گھر میں پی ڈی ایم کی بنیاد رکھی گئی نے اس سے اختلاف کیا کہ مولانا لائحہ عمل کی ترتیب پر رہیں نتیجتاً پی پی پی پی ڈی ایم کو خیر باد کہہ گئی پھر لوٹ کر تحریک عدم اعتماد کی طرف آنا پڑا جو کہ ایک آئینی طریقہ کار تھا۔ میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری نہیں چاہتے تھے کہ حکومت یا عمران خان اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے فارغ کر دیئے جائیں لیکن حکومت بالخصوص عمران نیازی صاحب کو خود بہت جلدی تھی اور ویسے بھی اگر یہ مزید سال ڈیڑھ سال رہ جاتے تو شاید وطن عزیز کی بقا کو ہی خطرناک حالات کا سامنا ہوتا۔ عمران حکومت کے خاتمے کے بعد بعض فلاسفر کہتے ہیں کہ سیاسی طور پر ان میں دوبارہ جان پڑ گئی ہے ایسا نہیں ہے۔ اقتدار کی جدائی میں پڑنے والے بین اور آہ و بکا کو یہ لوگ مقبولیت میں اضافہ سمجھ رہے ہیں عمران خان اپنے پورے سیاسی کیریئر میں تمام تر اندرونی بیرونی قوتوں کی مدد کے باوجود سب سے زیادہ مقبولیت 2013 میں حاصل کر سکے جب وہ اسمبلی میں تیسرے نمبر پر بھی نہ تھے 2018 تو مانگے تانگے دھونس دھاندلی کا بندوبست تھا۔ مجھے کوئی ایک شخص ایسا نہیں ملا جو حکومت ٹوٹنے سے پہلے عمران کا مخالف تھا اور ٹوٹنے کے بعد حامی ہو گیا ہو جبکہ ایسے سیکڑوں ہیں جو ہزاروں نہیں لاکھوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو عمران خان کی پی ٹی آئی کو چھوڑ گئے اور آنے والے دنوں میں شاید سوشل میڈیا کے باہر یہ پارٹی نظر بھی نہ آئے۔ عمران نیازی نے جسے نیا پاکستان قرار دیا اس میں پرانی روایات، وضع داری، رواداری، حیا، بات پر قائم رہنا، سچ، دلیل، قانون، آئین، انصاف ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔ وطن عزیز کی حالت تو پہلے ہی کچھ کم خراب نہ تھی کرپشن کے خاتمے اور انصاف کے نام پر آنے والے عمرانی اقتدار کے بعد تو عام آدمی بھی اتنا سمجھدار ہو گیا ہے کہ وہ بتا سکتا ہے مقدمہ کی تفتیش کا نتیجہ کیا ہو گا، فلاں جج کی عدالت کا فیصلہ کیا آئے گا؟ فلاں ٹربیونل رکن یا بنچ کا فیصلہ کیا ہو گا؟ کسٹم ٹربیونل، ان لینڈ ریونیو ٹربیونل یا کوئی خصوصی عدالت جس میں اب تو عالیہ اور عظمیٰ کی بھی تفریق نہیں  رہی سب بتا دے گا کہ فیصلہ کیا ہو گا۔ مقدمہ کی نوعیت اور حیثیت کیا ہے؟ اس کو جانے بغیر بتا دے گا کہ یہ تفتیش کا نتیجہ، صاحب قلم کا فیصلہ ہو گا کیونکہ اب معیار قانون، روایت، آئین تو سرے سے نہیں رہا اب مزاج اور میلان، رجحان اور جانبداری ہی معیار ہے بلکہ اگر آپ نام اور چہرے پہ ہاتھ رکھ لیں تو سمجھدار آدمی تحریر سے بھی بتا دے گا تقریر بھی اگر پڑھ کر سنائی جائے تو بتا دے گا کہ یہ کس کی ہے ہم تقسیم در تقسیم لوگ بن چکے ہیں اللہ کریم کرے کہ تعصب کی عینک اتاریں، قانون اور میرٹ کا ساتھ دیتے ہوئے قوم بن سکیں۔ کالم یہاں تک پہنچا تھا کہ موبائل پر جناب علی وارثی کی ٹائم لائن نمودار ہو گئی، اور یہ شاعری دل کو اداس کر گئی:
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

مصنف کے بارے میں