پاکستان اور برازیل ،نئے امکانات

پاکستان اور برازیل ،نئے امکانات

مروکو میں پاکستان کے سفیر حامد اصغر خان ا ن دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں اور یہاں پر مختلف لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ یہ ساری سرگرمیاں پاکستان کے لوگوں کو افریقہ کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے ہو رہی ہیں۔ ان کی کاوشوں سے حکومت پاکستان engagement with africa کر رہی ہے اور اس کے اچھے نتائج بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے کچھ سرمایہ کاروں نے افریقہ میں جوائنٹ وینچر شروع کیے ہیں اور آنے والے دنو ںمیںیہ امید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان کی افریقی ممالک کو برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ افریقہ سے زرمبادلہ کمانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہاں زیادہ سے زیادہ سامان بھیجا جائے۔ پاکستانیوں کو ان مارکیٹوں کو دیکھنا چاہیے جہاں ان کا مقابلہ قدرے کم ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ کالم میں نے برازیل کا ذکر کیا تھا اور برازیل کے سفیر سے اپنی ملاقات کا حال بھی اپ سے بیان کیا تھا۔ خوشی کی خبر یہ ہے کہ وہاں سے بھی اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ وہاں پر پاکستان کی کمیونٹی بہت کم ہے لگ بھگ ایک ہزار اور روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے ذریعے وہاں سے بھی تین ملین ڈالر کے قریب زرمبادلہ آیا ہے۔ اگر لاطینی امریکہ سے ساتھ بھی ہم اپنے رابطے مضبوط کریں تو وہاں پر اپنی برآمدات کے لیے مارکیٹ پیدا کی جا سکتی ہے۔
برازیل میں پاکستان کا سفارتخانہ بھی کافی سرگرمیاں کر رہا ہے اور وہاں کے سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف راغب کرنے کے لیے مختلف ویب نار کر رہا ہے ۔ برازیل میں کھجور کا استعمال بہت ہے اور پاکستان کے سفارتخانے نے پاکستانی کھجور کو وہاں متعارف کرانے کے لیے خصوصی تقریب منعقد کی۔ کووڈ کی وجہ سے پاکستان اور برازیل کا تجارتی توازن خراب ہوا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی تجارت 770ملین ڈالر ہو چکی ہے مگر اس میں فائدہ برازیل کو ہوا ہے۔ اسکی بڑی وجہ شایدیہ ہے کہ کاٹن کی فصل خراب ہونے کی وجہ سے پاکستان کو کاٹن برازیل سے امپورٹ کرنا پڑی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ہم بھی کاٹن کاشت کرنے والے ملک ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم برازیل سے کاٹن کا بیج اور اس کی کوالٹی کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی لینے سے گریز کر رہے ہیں۔ ہمار ی کاٹن ہر سال امریکی سنڈی کا شکار ہو جاتی ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ پاکستان کو اپنی فوڈ سکیورٹی کے لیے برازیل سے اپنے تعاون کو مزید مضبوط بنانا ہو گا اور یہ اس لیے بھی ممکن ہے کہ بین الاقوامی سطح پر دونوں ملک دوستانہ انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں میں ایک دوسرے سے تعاون کی پالیسی پر پہلے ہی دونوں ملک کاربند ہیں۔
برازیل کی ترقی نے دنیا کو حیران کر دیا ہے ۔ آج اس کا شمار دنیا کی بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے اور ا س کی وجہ مضبوط جمہوریت اور مستحکم معاشی نظام ہے۔ برازیل بھی پاکستان کی طرح ابتلا کے دور سے گزرا ہے اور اس کی معیشت بیٹھ گئی تھی لیکن بعد میں انہوں نے گر سیکھا کہ کیسے ملک کو مضبوط کرنا ہے ۔ اس کووڈ کے دور میں بھی برازیل نے اپنی معیشت کو سہارا دیئے رکھا ہے۔ دنیا بھر کی طرح اس کا سروس اور انڈسٹریل سیکٹر بہت متاثر ہوا ہے لیکن مضبوط زراعت اور لائیو سٹاک کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ سب جانتے ہیں کہ کووڈ نے برازیل کا بھی برا حال کیا تھا۔ برازیل ایک بار پھر مشکل دور سے باہر نکل رہا ہے ۔
 پاکستان بھی اگر جمہوری تسلسل برقرار رکھے اور ہماری معاشی پالیسیاں مستحکم رہیں تو آگے بڑھنے کے بہت سے امکانات موجود ہیں۔ میرے لیے خوشی کی بات یہ تھی کہ برازیل کے لوگ بھی پاکستان کے سفارتخانے میں کام کرنے والے لوگوں کی تعریف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے ۔ برازیل کے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں ۔ فٹ بال کے عالمی کپ نے پاکستان کو برازیل میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ برازیل کے لوگ فٹ بال کے دیوانے ہیں اور فٹ بال کے ساتھ پاکستان کا نام جڑا ہوا ہے۔ برازیل میں فٹ بال کی مارکیٹ پر پاکستان کواپنے تسلط کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اورچین سمیت دوسرے ممالک بھی اس میں پاکستان کامقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور بہت سے سیکٹر ہیں جن میں کام کیا جا سکتا ہے۔ تجارت اور برآمدات کے فروغ کے لیے پاکستان کے برازیل میں سفیر احمد حسین دایو اور کمرشل قونصلر وقاص عالم کافی متحرک ہیں ۔ کووڈ کے دوران بھی انہوں نے بہت سے ایم او یو پر دستخط کرائے ہیں اور دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان کے سفیر احمد حسین دایو نے مجھے برازیل کے حوالے سے تفصیلی بریف کیا اور کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ جس طرح پاکستان اور برازیل کے درمیان سیاسی تعلقات مضبو ط ہیں اس طرح دوسرے شعبوں میں بھی ایک دوسرے سے تعاون کو بڑھایا جائے لیکن اس کے لیے حکومتی سطح پر اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ 1948ء کے بعد سے اب تک صر ف ایک بار اعلیٰ سطح کا دورہ ہوا ہے اور وہ پرویزمشرف تھے جو برازیل آئے تھے سفارتی اور وزارتی سطح پر دورے ہوتے ہیں ۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں لاطینی امریکہ کے ساتھ مزید تعلقات مضبوط کرنے کی طرف قدم بڑھایا جائے گا۔ انہوںنے بتایا کہ انہوں نے برازیل کے سرمایہ کاروں کے ساتھ کئی سیشنز کیے ہیں جس میں انہیں پاکستان کی خطے میں اہمیت سے آگاہ کیا ہے۔ چین برازیل کا بڑا تجارتی پارٹنر ہے تو برازیل کے سرمایہ کار سی پیک سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان چین کے ساتھ کنیکیٹویٹی میں مدد دے سکتا ہے ۔ احمد حسین دایو نے بتایا کہ میں نے پاکستان کو ایک دوکان سے تشبیہ دی ہے اور کہا ہے کہ یہ دوکان ایک ایسی لوکیشن پر موجود ہے جہاںآس پاس بہت گاہک موجود ہیں۔ ایک طرف چین ہے دوسری طرف افغانستان اور تیسری طرف مشرق وسطیٰ۔ بھارت بھی ایک بڑی منڈی ہے اور پاکستان سے وہا ں تک رسائی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی کے مصداق وہ پرجوش اندا ز میں بتا رہے تھے کہ برازیل چونکہ دنیا بھر کو خوراک اور لائیو سٹاک مہیا کرتا ہے اورہم انہیں پاکستان لانے میں کامیاب ہو گئے تو دونوں ممالک کے لیے یہ ون ون پوزیشن ہو گی۔ خاص طور پر لائیو سٹاک کے شعبے میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔  برازیل حلال انڈسٹریز پر توجہ دے رہا ہے اور اس کی برآمدات کا ایک بڑا حصہ عرب ممالک کو جاتا ہے  اگر ہم ان کے ساتھ مل کر پاکستان میں پراسیسنگ یونٹ لگاتے ہیں تو اس کا فائدہ دونوں ملکوں کو ہو گا۔ پاکستان جس  جگہ پر ہے وہاں سے آسانی سے حلال گوشت عر ب ممالک تک پہنچ جائے گا۔ ہم صرف عرب ممالک کو ہی فوکس نہیں کر رہے ہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ بہت سے دوسرے اسلامی ممالک بھی برازیل کے لیے ایک بڑی منڈی بن سکتے ہیں۔ایران ، افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے مسلمان ممالک حلال فوڈ اورگوشت کی بڑی مارکیٹ ہوںگے۔
انہو ں نے بتایا کہ برازیل جس تیزی سے ترقی کر رہا ہے اتنی ہی تیزی سے ان کا آئی ٹی سیکٹر بھی آگے بڑھ رہا ہے اور یہ وہ شعبہ ہے جس میں پاکستان برازیل کوہنر مند افرادی قوت دینے کی پوزیشن میں ہے ۔ برازیل کو اس سیکٹر میں ماہرین کی اب بھی ضرورت ہے اور  ہمارے ہاں یہ افرادی قوت موجود ہے ۔ہم ان کی آئی ٹی کی کمپنیو ں کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔ برازیل نے پاکستان سے مسالحہ جات اور باسمتی چاول سمیت دوسری خورنی اشیاء کو فروخت کرنے کی اجازت دی ہے امید ہے اس میں بھی تجارت آگے بڑھے گی۔ انہو ںنے کہا کہ وہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ برازیل بہت دور ہے ۔ اگر یہ رکاوٹ ہوتی تو ہم امریکہ اور کینیڈا کی طرف کیوں متوجہ ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ برازیل پہلے ایک بڑی معیشت کے طور پر نہیں ابھرا تھا لیکن بعد میں ان کی معاشی ترقی نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ دنیا برازیل کی طرف رخ کر رہی ہے تو پاکستانیوں کو بھی اس مارکیٹ کی طرف آنا چاہیے ۔ جو لوگ بھی اس مارکیٹ میں آنا چاہتے ہیں وہ اور ان کی سفارتخانے میں موجود ٹیم ان کی مد د کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ زبان ایک بڑی رکاوٹ ہے کہ برازیل میں لوگ پرتگالی زبان بولتے اور سمجھتے ہیں لیکن وہ بھی انگریزی کی طرف آ رہے ہیں۔ اس کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے کاروبار ی افراد کو ہم ہر طرح کی مدد دینے کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان جس معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے اس میں ایک ایک ڈالر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو مضبوط بنانے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ جس طرح افریقہ پر توجہ دی جارہی ہے ویسی ہی توجہ لاطینی امریکہ کی طرف بھی دی جائے۔ اپنے زرعی ماہرین کو برازیل روانہ کریں ، زراعت میں تحقیق کے لیے ان کی مدد حاصل کریں اور لائیو سٹاک کی بہتری کے لیے جو اقدامات انہو ںنے اٹھائے ہیں اس ماڈل کو سمجھیں تو تقدیر کو بدلا جا سکتا ہے۔ ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ افغان جنگ نے صرف افغانستان کا بیڑا غرق نہیں کیا بلکہ ہماری بھی ایک نسل کو نگل لیا ہے۔ جہا ں پر گولی چلتی ہے وہاں سے سرمایہ بھاگ جاتا ہے اور جہاں پر انفراسٹرکچر نہیں ہوتا وہاں سرمایہ کاری سے گریز کیا جاتا ہے۔ برازیل میں پاکستان کے سفیر احمد حسین دایو وہاں کے سرمایہ کارو ں کو یقین دلا رہے ہیں کہ پاکستان نے انفراسٹرکچر میں 70بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے آئیے اور اس سے فائدہ اٹھائیے، حکومت کو بھی اس پیغام کو لے کر بین الاقوامی برادری کے پاس جانا ہو گا کہ پاکستان ایک نیا سٹارٹ لینے کی پوری تیاری کر چکاہے۔  انقلاب کہیں سے لانے کی ضرورت نہیں ہے اگر ہم اپنے رویوں کو بہتر کر لیں اور سنجیدگی سے آگے بڑھنے کی ٹھان لیں تو انقلاب ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ فیصلہ ہم نے کرناہے کہ ہم تعلیم و ترقی کے انقلاب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں یا خونی انقلاب کی طرف۔