جانور، غل غپاڑہ اور انجام

جانور، غل غپاڑہ اور انجام

وزیراعظم خان نے نیوٹرل کو جانور قرار دیا ہے۔ اس سے پہلے یوٹرن کو بہت بڑا اصول قرار دے چکے ہیں جبکہ آئین تقاضا کرتا ہے کہ ایک عام سول جج، مجسٹریٹ، تحصیل دار سے چیف جسٹس اور صدر پاکستان تک غیر جانبدار اور نیوٹرل ہوں۔ سپیکر اسمبلی کی تو اولین خوبی ہی یہ ہے کہ وہ نیوٹرل ہو۔ غرض یہ کہ آئین اپنے تحت آنے والے ہر عہدیدار اور ملازم سے نیوٹرل ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ غیر جانبداری ہی میرٹ کی ضمانت اور مہذب معاشرت کی بنیاد ہوا کرتی ہے، عمران خان ہمیشہ میرٹ اور قانون کی عملداری کا غیر جانبداری سے تقاضا کرتے رہے ہیں۔ گویا قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سٹیک ہولڈرز، نظام چلانے والے نیوٹرل ہوں تاکہ میرٹ کا بول بالا ہو، معاشرت و ریاست کی اساس انصاف ہو، ریاست اور فرد کا معاہدہ جو آج ٹوٹ رہا ہے، مضبوط ہو۔ اگر وزیراعظم نیوٹرل ہونا جانور کی تعریف بتا رہے ہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے حالانکہ وزیراعظم ہونے کے بعد ان کو بھی قوم کے لیے نیوٹرل ہونا چاہئے۔ شاید عمران خان کے فالوورز نے ان کا یہ قول زریں سن لیا ہے اسی لیے وہ معاملات کو نیوٹرل ہو کر غیر جانبداری کے معیار پر نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ قائد نے کہہ دیا ہے کہ نیوٹرل جانور ہوتا ہے اب کیا کیا جائے۔ جناب علیم خان، جہانگیر ترین، افضل چن، امتیاز صفدر وڑائچ، حکومتی اتحادی سب کے سب جانبدار ہو گئے ہیں یا نیوٹرل۔ ایسے اقوال زریں اور سنہری اصول وضع کرنے والے ارسطو2 کی تقریریں اب غل غپاڑہ میں بدل گئی ہیں۔ آصف علی زرداری ایسی بیماری ہے جس نے عمران خان کے ذہن یا دماغ پر حملہ کیا اور مفلوج کر دیا جس وجہ سے ان کا تقریر کرنے کا فن غل غپاڑے میں بدل گیا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ ملک پر اس بات کا عذاب ہو جو میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب جو قبل از بعثت اسلام ان کے ارفع و طیبہ کردار، بے مثال شان کی بدولت صادق اور امین کا لقب دیا گیا جو صرف آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہے مگر ثاقب نثار ڈیم والی سرکار نے عمران خان کو عطا کیا دیا۔ اس پر وہ خوب اترایا اور پھر رب کا عذاب اتر آیا کہ حقیقت اور اصلیت کا 
انکشاف ہوتا چلا گیا۔ تکبر کو زوال آنا شروع ہوا، بے حسی ذلت کی پاتالوں میں اتارنے لگی جس پر مزید غصب ناک ہوئے حالانکہ عمران خان غصہ تو تب کریں کہ ان کو معلوم نہ ہو یہ جیسے آئے ہیں اور کن قوتوں نے ان کو قوم پر مسلط کیا۔ ویسے بھی وقت کی اہمیت اور قدر میں وقت بر وقت رویے، مثبت سوچ، اعلیٰ ظرفی، نظریات و افکار بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ میرے ایک دوست سید علی رضا زیدی کہا کرتے ہیں، وقت کی قدر کرنا سیکھیں۔ جو اخبار صبح بیس روپے کا بکتا ہے وہی اخبار شام کو 20 روپے کلو بھی نہیں بکتا۔ عمران خان نے اپنے اقتدار کے سورج کے سوا نیزے پر ہوتے وقت صرف مخالفین کو تمازت دی اور انتقام لیا۔ بیوروکریسی اور حکومت میں موجود لوگ بربادی اور بگاڑ میں حصّہ بقدرِ جسہ ڈالتے رہے ہیں اب اگر بلاول بھٹو و مریم عوام کو یاد آ رہے ہیں تو غصہ کاہے کا۔ اب تو چل چلاؤ ہے، وزیر اعظم بطور اپوزیشن ایم این اے اور بطور حاکم مخالفین کے نام بگاڑتے رہے۔ الزام تراشی، دشنام طرازی، جھوٹی مقدمہ بازی کے دھیان میں لگے رہے۔ اب ان کے سوال کرنے نہیں جواب دینے کا وقت آیا تو سوال کرنے پر سراپا آگ بن جاتے ہیں۔ ان کا نظریہ اور بیانیہ تو اسی دن ڈھیر ہو گیا تھا جب ’’چپڑاسی اور پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو‘‘ حکومت میں معتبر ٹھہرے، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، اقتصادی پالیسی زمین بوس ہوئی، اب لگے ہیں گریٹ بھٹو بننے
گھر گھر چڑیاں جم دیاں
گھر گھر جمن کاں
ورلیاں مانواں جم دیاں ہنس جنہاں دے ناں
پہلے گریٹ بھٹو صاحب کا نظریہ، مقام، کہانی اور سانحہ جو مرثیہ بن گیا اس کا شعور اور ادراک تو کر لیں، میاں محمد نواز شریف نے بھی بہت خوب ازالہ کیا، عمران خان کا کارنامہ وقت برباد کرنا، تہذیب و تمدن کو فنا کرنا اور جھوٹ کو پروان چڑھانے کے سوا کیا ہے۔ ابھی تو تحریک عدم اعتماد جو خالصتاً آئینی اقدام ہے اس قرارداد کو پیش کیا گیا ہے۔ تبھی تو جانور نیوٹرل کے بجائے جانبدار ہونے لگے اور وہ بھی اپوزیشن کی جانب اور یوں انسان کا رتبہ پانے لگے۔ وزیراعظم کی حالت غیر ہو گئی، گالیاں نکالیں، الزام اور نام بگاڑے نہ جانے اس کیفیت کو کیا کہتے ہیں۔ گویا تقریر کے بجائے غل غپاڑہ کرنے لگے۔ حالانکہ اپوزیشن کو جو حکومت ملے گی وہ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کرنے کے سوا کچھ نہیں جبکہ وزیراعظم کے ترجمانوں، مشیروں اور وزیروں کی باتیں سنیں تو لگتا ہے انہوں نے خان صاحب کی سپاری پکڑ رکھی ہے۔ اس وقت اپوزیشن سے زیادہ وزیراعظم کی صفوں میں ان سے اختلاف کرنے والے ہیں۔ اپوزیشن جس کو نکمی، نالائق، کمزور کے چار سال طعنے دیئے ابھی تو صرف اس نے تحریک عدم اعتماد کا نیلا تھوتھا دیا ہے۔ جس سے وزیراعظم کے منہ سے غصہ کی جھاگ نکل رہی ہے۔ بالآخر خوفناک دردناک اور کبھی نہ دہرائے جانے والے انجام سے دوچار ہونے کو ہیں۔ شعیب بن عزیز کا شعر یاد آ رہا ہے:
جس کو سب دیکھتے ہیں وحشت سے
یہ میری آستین سے نکلا ہے
اب یوٹرن لیں، نیوٹرل کو جانور کہیں یا کچھ اور بس! غصہ نہ کریں کیونکہ مرزا عبدالقادر بیدل کا شعر ہے۔ جس کا ترجمہ ہے:
رہے اوسان قائم یہ نہیں ممکن
وقت رخصت بال و پر پریشان ہو ہی جاتے ہیں
اب مجھے حکمران ٹولے یا عمران خان کے کسی بیان، حرکت، دعوے پر حیرت نہیں ہوتی۔ حیرت ہوتی ہے اس کے فالوورز پر۔ کبھی عمران خان ایم کیو ایم والوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ بڑا حوصلہ ہے ان کا جو الطاف حسین کو سنتے ہیں اور اب پوری قوم ان پر حیران ہے جو عمران خان کو سنتے ہیں۔ عدم اعتماد سے پہلے حکومت دس لاکھ لوگوں کا جلسہ کرنے کے درپے ہے، سب کو یاد ہے گریٹ بھٹو صاحب کے خلاف تحریک میں ان کو مشورہ دیا گیا، ورکرز اور جیالوں نے ضد کی کہ ہم بھی جلسوں جلوس کا اہتمام کرتے ہیں مگر قائد عوام نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ وہ ملک میں خانہ جنگی نہیں چاہتے۔ حکومت اور اپوزیشن کا کردار مختلف ہوتا ہے، برداشت اور قانون و امن قائم رکھنے کی ذمہ داری حکومت پر آتی ہے ہم انارکی کی دہلیز پر ہیں، ہوش سے کام نہ لیا تو ناقابل تلافی نقصان ہو گا، پھنے خانی نہیں آئین کی حکمرانی اور عملداری درکار ہے۔

مصنف کے بارے میں