عمران خان کا کھرا سچ…… زندہ باد

عمران خان کا کھرا سچ…… زندہ باد

سیاست میں سیاستدانوں کا کردار ہو یا اقتدار کے کھیل میں کھلاڑیوں کی کارکردگی ایمپائر کی انگلی اٹھتی ہے اور کیوں اٹھتی ہے، ایمپائر کب نیوٹرل ہوتا ہے اور کب وہ خود کھیل میں شامل ہوتا ہے، ایسی تمام باتوں کی ابتدا بارے جاننا ہو تو معروف بیوروکریٹ کی آب بیتی قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ پڑھنا مفید ثابت ہو گا۔ مزید سمجھنا ہو تو م۔ب خالد کی کتاب ایوانِ صدر میں گیارہ سال کا مطالعہ بھی اچھا ثابت ہو سکتا ہے۔ ایمپائر کی سوچ اور اس کے عمل کی حرکیات سمجھنا ہوں تو جنرل ایوب کی فرینڈز ناٹ ماسٹرز دیکھی جا سکتی ہے۔ جنرل مشرف کی آن دی لائن آف فائر بھی اس حوالے سے اچھی کتاب ہے۔ غیرملکی صحافیوں آریانا فلاچی اور ایماڈنکن اور کرسٹینا لیمب کی انٹرویو ود ہسٹری، بریکنگ دی کرفیو اور ویٹنگ فار اللہ (Interview with history, Breaking the Curfew waiting for Allah) کا مطالعہ تاریخ سیاست پاکستان کے طالب علموں اور تجزیہ نگاروں کے لئے کافی اچھا ثابت ہو سکتا ہے اور اگر پاکستان کی تاریخ کا جدید ورژن سمجھنا اور دیکھنا ہو تو عمران خان کا سیاست میں ظہور، عروج اور زوال جان لیں ہماری پوری قومی تاریخ اس میں سمٹی ہوئی نظر آئے گی اور اگر سیاست کو، مروجہ اور جاری سیاست کی مختصر ترین تاریخ سمجھنی ہو تو ان کا حالیہ بیان ”ساڑھے تین سال ذمہ داری میری اور حکمران کوئی اور تھا“ پڑھ لیں اور اگر سمجھ آ جائے تو یہی ہماری قومی سیاسی تاریخ ہے یہی ہمارے زوال کی داستان ہے۔ ناکامی کا بیان ہے، اقرار ہے۔ ان کے اس بیان بارے خوب بحث و مباحثہ ہو رہا ہے، تنقید ہو رہی ہے عمران خان پر طنزوتشنیع کے تیر چلائے جا رہے ہیں اور شایدٹھیک ہی ہو رہا ہو گا لیکن اس بات اور اقرار کا ایک دوسرا مثبت پہلو بھی ہے۔ عمران خان کے بیانات، بیانیے، گفتگوئیں بحیثیت مجموعی اجتماعِ ضدین بلکہ اجتماع افراد پر مشتمل کہلائی جا سکتی ہے ان میں بہت زیادہ ربط و ضبط تلاش کرنا شاید کارِ لاحاصل ہو گا ان کے بارے میں ان کے بیانات اور بیانیوں کے بارے میں حتمی انداز میں کچھ بھی کہنا ذرا مشکل ہوتا ہے وہ کبھی چیف الیکشن کمیشن کے بارے میں، ان کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے لیکن پھر اچانک ان کے خلاف ہو گئے اور خلاف ہی ہوتے چلے گئے کبھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے اور ان کے اعمال و کردار پر مہر تصدیق ثبت کرتے نظر آتے تھے اپنے خون ٹیپ ہونے کے بارے میں ان کی بڑی مثبت رائے تھی لیکن جب ان کی آڈیوز 
لیک ہونے لگیں تو ان کی رائے یکسر تبدیل ہو گئی۔ کبھی جنرل باجوہ کے بارے میں تعریف و توصیف کے پل باندھتے پائے گئے لیکن پھر اس کے الٹ ہو گیا۔ چودھری پرویز الٰہی اور شیخ رشید کے بارے میں ان کے ”تاریخی القابات“ بھی ہمارے سامنے ہیں اور پھر شیخ رشید کو اپنا اتحادی بنانا اور چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا چیف منسٹر جتوانا بھی ہمارے سامنے ہے غرض عمران خان صاحب کے بارے میں کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کا زیرنظر بیان بلکہ انکشاف ایک ایسا سچ ہے جس کی پشت پر ہماری 75/70 سالہ تاریخ کھڑی نظر آئی ہے انہوں نے بغیر لگی لپٹی کے، بغیر الفاظ چبائے، سچ کو حرف بحرف سچ کے طور پر واشگاف الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ یہی ہماری سیاسی تاریخ ہے اور یہی ہماری سیاست کا المیہ ہے۔ یہ قومی المیہ بھی ہے۔ سول سرونٹ ملک غلام محمد ہو یا میجر جنرل سکندر مرزا، وہ 1956 تک اور پھر 1958 میں جنرل ایوب خان کے مارشل لا تک یہی کھیل کھیلتے رہے۔ سامنے سیاستدان تھے کرسی پر سیاستدان نظر آتے تھے لیکن ان کی حیثیت کٹھ پتلیوں جیسی تھی جنہیں کوئی اور نادیدہ قوت ہلاتی تھی اب یہ نادیدہ قوت طشت از بام ہو چکی ہے پھر جنرل ایوب خان کے مارشل لا سے ایک ایسا راستہ کھلا جو ابھی تک بند نہیں کیا جا سکا ہے ہم نے اسی کشمکش میں کہ حق حکمرانی کس کا ہے، کون مقتدر ہے، اقتدارِ اعلیٰ کس کے پاس ہے، ہم نے مشرقی پاکستان کھو دیا۔ تاریخ جدید میں شاید یہ پہلا اور انوکھا واقعہ ہو گا کہ اکثریتی گروہ (بنگالیوں) نے اقلیت (مغربی پاکستان) سے علیحدگی حاصل کرنے کے لئے تحریک چلائی مسلح جدوجہد کی اور اس طرح تحریک پاکستان میں ہراول کا کردار ادا کرنے والے بنگالی ہم سے لڑ کر علیحدہ ہو گئے۔ پھر جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے طویل مارشل لائی ادوار اور اس کے بعد 2008، 2013 اور 2018 میں قائم کی جانے والی حکومتیں جس طرح چلتی رہیں جس طرح عوامی رائے کی بے قدری کی گئی۔ مسلح گروہوں کی آبیاری کی گئی۔ الیکٹ ایبلز کے ذریعے سیاست میں مداخلت کے رجحانات نے فروغ پایا۔ عدلیہ جس طرح اس کھیل میں کھلاڑی بنا دی گئی ثاقب نثار کی حرکات کس قدر شرمناک تھیں اور ان کے باعث عدلیہ کی جس طرح بے توقیری ہوئی۔ ٹی ایل پی کا کردار اور اس طرح کچھ عرصہ پہلے تک الطاف حسین اور اس کی ایم کیو ایم کا کردار ہمارے سامنے آیا وہ ہماری قومی تاریخ کا شرمناک باب ہے آج ہم اقوام عالم میں ایک بھکاری قوم کے طور پر جانے پہچانے جا رہے ہیں ہمارا نام اور مقام سری لنکا اور افغانستان جیسے پسماندہ اور ناخواندہ ممالک کے ساتھ لیا جاتا ہے کورونا نے ہماری معاشی کمر توڑی اور رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کر دی ہے ہم معاشی طور پر اتنا پیچھے چلے گئے ہیں کہ اس کی بحالی مستقبل قریب میں ممکن نظر نہیں آ رہی ہے ہم بین الاقوامی منگتے بن چکے ہیں اور ہمیں اس بات پر ذرا سی بھی شرمندگی نہیں ہے ہم اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ہمارے لئے اقوام عالم سے امداد کی اپیل کر دی ہے۔ انجلینا جولی کا دورہ بھی ہمیں خوش کرتا ہے کہ وہ بھی ہمارے لئے بھیک مانگے گی کیا شرمناک انداز فکر ہے۔ دوسری طرف اقتدار کی جنگ ہے جو بڑی شدت اور حدت کے ساتھ لڑی جا رہی ہے۔ عمران خان بڑی یکسوئی کے ساتھ جنگ کی آگ بھڑکا اور دہکا رہے ہیں۔ ان کا حالیہ بیان/ زیربحث بیان تُرپ کا پتہ ہے اور یہ ایک ایسا سچ ہے جس سے کسی طور بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے جس صفائی اور ستھرائی کے ساتھ یہ سچ بولا ہے اس جرأتِ رندانہ کے لئے عمران خان مبارکباد کے مستحق ہیں۔ عمران خان زندہ باد۔

مصنف کے بارے میں