کرپشن کو عزت دو!

 کرپشن کو عزت دو!

وزیراعظم شہباز شریف اور اُن کے صاحبزادے حمزہ شہبازکو اگلے روز منی لانڈرنگ کیسز میں بری کردیا گیا، یہ کیسز پچھلے کئی برسوں سے عدالتوں میں زیرسماعت تھے، یہ چونکہ بڑی کرپشن کے کیسز تھے لہٰذا قوی امکان تھا اِن کیسز میں وہ بری ہوجائیں گے، بری ہونے والوں کا مؤقف یہ ہے ”یہ کیسز سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے“……شکرہے ختم بھی سیاسی  بنیادوں پر کئے گئے ہیں، عدالتی بنیادوں پر ختم ہوتے اُن کے نتائج کچھ اور نکلتے، پاکستان میں سیاسی بنیادوں پر بنائے جانے والے کیسز کی باقاعدہ ایک تاریخ ہے۔ یہاں تو کسی ”معجزے“ کے تحت کسی جج یاجرنیل پر بھی کرپشن کا کوئی کیس بنا وہ  بھی یہی کہے گا یہ کیس اُس پر ”سیاسی بنیادوں“ پر بنایا گیا ہے، ……سیاسی بنیادوں پر بنائے جانے والے کیسز پر اگلے  روز ہماری ادیبہ کشور ناہید نے بہت خوبصورت کالم لکھا ہے، مجھ سے اگر کوئی یہ پوچھے شریف برادران نے اپنے ادوار اقتدار میں کرپشن کی ہے؟ میں نے اِس حوالے سے اُن کی کیا صفائی دینی ہے، خود شریف برادران خود پر لگے ہوئے الزامات کی ایسی صفائی نہیں دے سکے جِن پر لوگ آنکھیں بند کرکے یقین کرکے منہ بند کرلیں، البتہ یہ درست ہے اُنہیں جب بھی اقتدار سے نکالا گیا اُس کی وجہ اُن کی کرپشن نہیں تھی، اصلی قوتوں کے سامنے اُن کا سراُٹھانا تھا، ……ہمارے ہاں سرجھکا کر کوئی کرپشن کرے کِسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا، اُنہیں روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ مگر جیسے ہی اصلی قوتوں سے کِسی معاملے میں کوئی اختلاف کرے یا اُن کے سامنے سراُٹھائے اُن کی اپنی کرپشن کے علاوہ اُن پر وہ کرپشن بھی ڈال دی جاتی ہے جو اُنہوں نے نہیں کی ہوتی۔ ایک بار میری موجودگی میں اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ یا حالیہ لاڈلے آصف علی زرداری ایک نجی محفل میں بڑے مزے لے لے کر بتارہے تھے”انہوں نے اپنے اقتدار کی مدت صرف اِس لیے مکمل کی کہ اُنہوں نے اصلی کرپشن گاہ کی جانب آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا، ”وہ بتارہے تھے“ اپنے دور کے ”حاجی صاحب“ کے ساتھ جب بھی اُن کی ملاقات ہوتی سلام دعا کے بعد سب سے پہلا سوال وہ اُن سے یہ کرتے ”اور سنائیں سر بھائیوں کا کاروبار خیر سے ٹھیک جارہا ہے؟“……شکر ہے شریف برادران کو بھی اب عقل آگئی ہے،ہوش ٹھکانے آنے کے بعد تھوڑی بہت عقل آہی جاتی ہے، اُمید ہے اِس بار اِس عقل کا دورانیہ اتنا مختصر نہیں ہوگا جتنا ماضی میں ہوتا رہاہے، جتنی اذیت اُنہوں نے برداشت کرلی ہے اُمید ہے ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگانے سے بھی مستقل طورپر وہ پرہیز کریں گے، اور پوری کوشش کریں گے آئندہ یہ نعرہ لگانے کی نوبت ہی نہ آئے، ہوسکے تو اب کرپشن سے بھی مستقل طورپر وہ  توبہ کرلیں۔ جتنا مال وزر جائز ناجائز طریقوں سے اُنہوں نے کما لیا یا بنالیا ہے اُن کی آئندہ سات نسلوں کے لیے وہ کافی ہوگا، بلکہ اُن کی آئندہ سات نسلیں آئندہ اگر فارغ بھی بیٹھی رہیں اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، یہ درست ہے چورچوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں جاتامگر جس قدر مال وزر اُن کے پاس اب موجود ہے ہیرا پھیری کی بھی اب شاید ضرورت محسوس نہ ہو، البتہ ”سیاسی ہیرا پھیریاں“ خان صاحب کا مقابلہ کرنے کے لیے چلتی رہنی چاہئیں۔ بڑے لوگوں کی معمولی سے معمولی ہیرا پھیری بھی اربوں کھربوں کی ہوتی ہے، اِس وقت ملک کی جو معاشی حالت ہے اُس میں اربوں کھربوں کی ہیرا پھیری چونکہ اب ممکن ہی نہیں رہی، چنانچہ اب چھوٹے موٹے ”داؤ“ یا ”دیہاڑیاں“ہی لگائی جاسکتی ہیں، اور چھوٹے موٹے  ”داؤ“ یا ”دیہاڑیاں“ شریف برادران کی ”توہین“ یا اُن کی شان کے خلاف ہیں، یہ صرف ہمارے خان صاحب پر ہی جچتی یا سجتی ہیں کہ توشہ خانہ سے چھوٹی موٹی چیزیں نکال کر بیچ دیں، یا اپنے عزیز واقارب، ارکان اسمبلی اور یاروں دوستوں کو اجازت دے دیں وہ تقرریوں و تبادلوں میں تھوڑا بہت مال بنالیں، فیصل آباد کے ایک اعلیٰ افسر نے ڈیڑھ دو برس قبل مجھے بتایا ”پی ٹی آئی کے ایک رُکن قومی اسمبلی کا بھائی خاکروبوں کی بھرتی کی ”فیس“ وصول کرتا ہے۔ میں نے اُس افسر سے کہا ”ملک معاشی طورپر تباہی کے جس دہانے پر کھڑا ہے اب اسی طرح کی”چھوٹی موٹی دیہاڑیاں“ ہی لگائی جاسکتی ہیں …… ایک ”پٹواری“گنڈیریاں چوپ چوپ کر چھلکے سڑک پر پھینک رہا تھا، ایک ”یوتھیا“ وہ چھلکے اُٹھا اُٹھا کر چوپ رہا تھا۔ ”پٹواری“ نے ”یوتھیے“ سے کہا ”تم کتنے کمینے ہو چھلکے اُٹھا اُٹھا کر چوس رہے ہو“۔……”یوتھیا“ بولا ”مجھ سے بڑے کمینے تم ہو جواِن چھلکوں میں ذرا سا رس بھی نہیں چھوڑرہے“…… تو دیگر سیاسی جماعتوں نے اِس ملک کے مال وزر یا وسائل کو باپ دادا کی گنڈیریاں سمجھ کر اتنا چوپا ہے اُس میں اتنا سا رس بھی نہیں چھوڑا بے چاری پی ٹی آئی کے حصے کچھ آجاتا، سو اُن بے چاروں نے فارن فنڈنگ، توشہ خانے، تقرریوں تبادلوں یا کچھ ٹھیکوں وغیرہ سے ”چھوٹی موٹی دہاڑیاں“ اگر لگالی ہیں اُمید ہے اُن پر کرپشن کے کیسز بنے بھی تو ہماری عدالتیں اُنہیں ”کرپشن کا چونگا“ سمجھ کر نظرانداز کردیں  گے، ویسے بھی ہماری عدالتیں اگر کرپشن وغیرہ پر سزائیں دینے لگیں اُن کی اپنی ”ساکھ“ متاثر ہوتی ہے۔ اگر ملک کے باقی ادارے اپنی شہرت یا ساکھ متاثر نہیں ہونے دے رہے تو عدلیہ کیوں ہونے دے؟۔ ہماری عدلیہ کا ایمان اِس بات پر بڑا مضبوط ہے اگر اللہ انسانوں کی بڑی بڑی غلطیاں معاف کردیتا ہے تو ہم اپنا اختیار بے اختیار کیوں ناں استعمال کریں،……البتہ ہمارے پی ٹی آئی کے کچھ دوستوں کی اِس حوالے سے تشویش بڑی جائز ہے کہ اُنہوں نے چھوٹی موٹی کرپشن کی ہیں تو ممکن ہے اُنہیں معافی نہ مِل سکے کیونکہ معافی لینے کے لیے کرپشن کا بڑا ہونا ضروری ہے، پاکستان کا مطلب ہی اب بدل گیا ہے، ”پاکستان کا مطلب کیا؟ رقماں ساہڈے ہتھ پھڑا……جیڑا مرضی کام کرا“ ……اربوں کھربوں کی کرپشن کے مال سے چند لاکھ یا چند کروڑ دے کر کوئی چھوٹ جائے یا ”باعزت بری“ ہوجائے، یہ کوئی گھاٹے کا سودا ہے؟…… پوری دنیا میں کرپشن ہوتی ہے، پاکستان کا ”اعزاز“ یہ ہے یہاں ”کرپشن کا کاروبار“ ہوتا ہے۔ بس یہی ایک کاروبار ہے جو کبھی خسارے میں نہیں رہا!!  

مصنف کے بارے میں