شہباز کرے پرواز

 شہباز کرے پرواز

سیاست ، شادی اور نوکری تینوں انتہائی برداشت کے ادارے ہیں۔ عدم برداشت ان کے خاتمے کا باعث جنگل کے آزاد انسان پر کتنی کاٹھیاں ڈالی گئیں تو وہ ایک سماجی زندگی کے لئے تیار ہوا ایک وعدے اور گواہی نبھانے کے لئے دس دس بچے پالنے پہاڑ کاٹنے چل پڑا ہاتھ میں پھاوڑا اور کلہاڑی حالانکہ اس کا ایک افکار اس کو اس تمام مشقت سے بھی بچا سکتا ہے اور غیرت کے نام پر سر پر پڑی دستار کے وعدوں بھرے کس بل سے بھی ۔ 
نوکری کر کے تو ہم نے بھی دیکھا کس طرح اپنے سامنے اپنے خلاف سخت موقف سننا پڑتا ہے پھر بھی ایک ساتھ نہ صرف میٹنگیں کرتے ہیں اکٹھے کھانے کھاتے ہیں عدالتوں میں ایک دوسرے کا سامنا کرتے ہیں دیگر افسران کی طرح مجھے بھی بے پناہ عدالتی ثمن آتے تھے تھیٹر و دیگر مخالفانہ درخواستوں چپقلشوں کے باعث بہت مرتبہ لوگ دوستوں سے لڑانے کے لئے بھی خود ہی خط لکھ دیتے تھے یونان میں لیٹرز کی تو انتہا دیکھی۔ 
سیاست کا مقام برداشت کے حوالے سے اس لئے زیادہ ہے کہ وہ صلح کریں تو ہم مصلحت کہتے ہیں مصالحت کریں تو ڈیل اور پرامن ڈیل کر ہی لیں تو لوٹا کریسی جبکہ شادی کے ادارے اور عدلیہ کی مصالحتی کونسل میں انتہا سے زیادہ موقع دیا جاتا ہے کہ اتحاد کر لیں اور اگر ایسا ہو جائے تو بہت قابل داد سمجھا جاتا ہے ابتداء میں برصغیر کی سیاست میں بھی ملکی مفاد میں معاہدے اور اتحاد کو اچھا سمجھا گیا۔ عوام کو اپنی خوشحالی ، وطنیت ، کشمیر اور بھارت سے جنگ کے علاوہ پانچواں کوئی موضوع نہیں ہوتا تھا۔
مزدور طبقے کو تو قناعت اور دینداری نے مطمئن کر رکھا تھا حتیٰ کہ غریب اپنی غربت پر مان کرتے تھے امیروں سے جلنے کا چلن نہیں تھا امیر بھی جدی پشتی والے تھے چھچھورے نہیں گاڑیاں انہیں کے پاس تھیں جو ان کو سچ مچ افورڈ کر سکتے تھے یہ نہیں کہ راستے میں پٹرول ختم ہے یا پرزے کھڑک رہے ہیں اس تفریق کے دیگر مسائل یقینا ہوں گے مگر جو مسائل برابری کے مسئلے، سوشلزم اور شعور و آگاہی نے دیئے ہیں ان کا شمار نہیں۔ شعور کا تحفہ بھٹو صاحب نے دیا اور عوام کو تربیت بغیر مل مالکان کی ٹائیاں کھینچ لینے پیٹ سے دولت نکال لینے رشوت خور کو سڑک پر کھینچنے کے حوصلے دیئے دور کیوں جائیں ان کی تقریرین سن سن کر دل کرتا تھا اپنے ہی امیر رشتے داروں کو سیدھا کر دیں تب کمیونزم دم توڑ رہاتھا اس کی جگہ آہستہ آہستہ اسلامی سوشلزم (بھٹو صاحب کی اختراع) کا نعرہ لگا حالانکہ دونوں مختلف چیزیں تھیں مگر وقتی سیاست نے انتہا پسندی کا رستہ دکھایا جتنے پرسکون میں نے مذہبی لوگ اپنے بچپن میں دیکھے ہیں پھر کبھی نہیں سارے کے سارے سیاست میں چلے گئے اب حالات یہ ہیں کہ حکومت کسی ایک مکتبہ فکر کی چل ہی نہیں سکتی یہاں فکری محاذ پر بھی ’’ونڈی‘‘ ضرور پڑے گی ہمیشہ لسانی بنیادوں پر کراچی میں صوبائی بنیادوں پر تو ہے ہی مذہبی و فرقہ جاتی الگ کوئی ایک نظریہ موجود صورتحال میں مسلط ہونا ناممکن ہے۔ 
ایسے میں مہنگائی کمر توڑ قسم کی رکی ہوئی آمدنی روپے کی گرتی ہوئی قدر ڈالر کی اٹھان (اس کی بھی وجوہات پر بیسیوں کالم عالم خیال میں ہیں) انتظامی بدحالی اس حد تک کہ حکمرانوں کو یہ نہ پتہ ہو کہ پنجاب کی محض 9 ڈویژن ہیں اور گوجرانوالہ کو چھوڑ کر باقی تمام کے 4 ،4 اضلاع ہیں صرف گوجرانوالہ کے 9 ضلع ہیں تھروپراپر چینل اگر روزانہ کاغذ ضائع کر کے دو چار حکم نامے ہی عوامی فلاح میں ارسال کر دیئے جاتے تو حکومت کا ایک روپیہ خرچ ہوئے بغیر نرخناموں کی لسٹیں دکانوں پر آویزاں ہو جاتیں۔ دفتروں کی حاضری درست ہو جاتی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر اٹھ جاتے سائلین رل نہ جاتے کہ دو چھٹیوں سمیت جمعہ ہی کے دن سے تمام عملہ سر پر ٹوپی رکھ کر گیارہ بجے سے ہی کام سے انکار کرنا شروع کر دیتا ہے ہفتے سے تین دن نکل جاتے تھے حالانکہ یہ نوٹیفکیشن کسی وقت میں بجلی بچانے کے لئے کیا گیا تھا بعد ازاں کاہل لوگوں نے مستقل بنا لیا۔ 
میاں شہباز شریف کی رفتار سے کون واقف نہیں انہوں نے جس طرح پہلے سرکاری ملازمین کی دوڑیں لگوائی تھیں۔ ملک کی مشینری کو دوبارہ سے پہیے لگا دیئے ہیں مگر اس مرتبہ انہیں انتہائی زنگ آلود کھڑ کھڑ کرتی عدم توجہ کا شکار بیمار اور پراپیگنڈہ شدہ حکومتی مشینری ملی ہے۔ مگر آفرین ہے اس ورک ہالک ، شخص پر جس نے نہ دن دیکھا نہ رات نہ بارش نہ طوفان صحت تو خیر وہ اپنی قربان کر ہی چکے ہیں ’’اس جان کی پروا کون کرے‘‘ جو انہوں نے پہلی تقریر قومی اسمبلی میں کی وہ اپنی ذات پر کئے جانے والے کسی بھی طنز کے نشتر کا جواب دیئے بغیر ملک کے ہر شعبے کے حوالے سے تھی جس اتحادی اور دیگر مسائل ذات کے ساتھ وہ حلف اٹھا رہے تھے کوئی عام آدمی اتنے منفی پراپیگنڈے دس طرح کی اندرونی و بیرونی سازشوں میں اٹھ ہی نہیں سکتا۔ اتنے پریشر میں کام کرنا ان کی عادت ہے ان کی ذات اور خانگی زندگی پر بھی کیچڑ اچھالا جا رہا ہو مذاق اڑائے جا رہے ہوں مگر شہباز کی پرواز کو کون روک سکتا ہے اقبال یقینا ایسے ہی لوگوں کے لئے کہہ گئے تھے۔ 
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر‘‘ 
لوگ کتنا ہی پراپیگنڈہ کر لیں سازشیں دس گنا بڑھ جائیں مگر وہ شہباز شریف کی پرواز کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتیں۔ Wel come back sir آپ نے پنجاب میں کام کیا اس کی نظیر نہیں ملتی اب کے پورے ملک کی خاطر اپنے پر اٹھنے والی ہر انگلی اور توہین آمیز جملوں کا ایک ہی جواب تھا (اور وہ بھی خدا کی طرف سے انتہائی متکبر کو) اور تکبر کا جواب وہ اچکن تھی جسے پہن کر آپ نے ملک و قوم کا حلف لیا وہ حلف لیتے نہ آپ کی زبان لڑ کھڑائی نہ نیت آپ نے صبر سے کام لیا اسی لئے خدا نے متکبر ترین لوگ کو وہ منظر دکھایا جب آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 23 ویں وزیر اعظم کا حلف اٹھا رہے تھے یہی جواب تھا تمام نفرت ، بغض انتقام اور تذلیل کا اور یہ جواب صرف خدا کی قدرت ہی دے سکتی ہے۔

مصنف کے بارے میں