مہنگائی کی ایسی تیسی

مہنگائی کی ایسی تیسی

سب سے پہلے تو آپ یہ بات سمجھ لیں کہ مہنگائی کم نہیں ہوگی چاہے آپ عمران خان کو لے آئیں یا کسی بھی تیس مار خان کو موقع دے دیں کیونکہ جس کسی نے بھی ملک چلانا ہے اس نے اپنے محلات بیچ کے نہیں چلانا اور نہ ہی اس کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی حکمران نے ملک آپ سے لیے ہوئے ٹیکسوں سے ہی چلانا ہے یا دوسرے ممالک سے قرضے لے کر چلانا ہے۔ ملکی آمدن کا تیسرا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور صورتحال یہ ہے کہ آپ ٹیکس دینے کے لئے تیار نہیں ہیں جب تک آپ سے بالواسطہ طور پر وصول نہ کیا جائے یعنی آپ تاجر ہیں، ڈاکٹر وں یا وکیلوں سمیت کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں آپ خود اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کے مسکراتے ہوئے ٹیکس دینے کی رقم نکالنے کے لئے تیار نہیں تو پھر دوسرا طریقہ یہی ہے کہ حکومت سائیڈ سے اپنا ہاتھ لائے اور آپ کی جیب سے رقم نکال لے۔ اسے ہم ان ڈائریکٹ ٹیکس کہہ سکتے ہیں او ر اسی کی بنیاد پر ہم شور مچاتے ہیں کہ ہم تو ماچس کی ڈبی پر بھی ٹیکس دیتے ہیں۔ اس وقت پروپیگنڈہ یہ ہے کہ اگر عمران خان کو لے آئیں تو وہ مہنگائی کم کر دے گا جیسے اس نے پہلے پٹرول اور بجلی مہنگے کرنے کی بجائے سستے کر دئیے تھے تو بنیادی سوال یہی ہے کہ عمران خان سستا پٹرول اور سستی بجلی کیا بنی گالہ بیچ کر دے گا، نہیں، وہ قومی خزانے سے دے گا جس میں اس وقت نہ ٹیکس آ رہے ہیں اور ہمیں قرض دینے والوں نے بھی جھنڈی دکھا دی ہے اور ابھی ہم اس سستا کرنے کو ہی بھگت رہے ہیں۔

اس وقت غور کرنے والی اصل بات یہ نہیں ہے کہ کون سا حکمران آئے گا تو وہ سستائی لائے گا اور مہنگائی دور بھگائے گا کیونکہ وہ کوئی بھی آجائے اس نے ٹیکس وصول کرنے ہی ہیں۔ اس وقت ہم سب کے غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ہم ذاتی طور پر اس مہنگائی پر قابو کس طرح پا سکتے ہیں اور اپنے لائف سٹائل کو برقرار کس طرح رکھ سکتے ہیں۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی چلی جارہی ہے ایسے ایسے آپ اپنی آمدن کو بڑھانے کے طریقے بھی سوچیں بلکہ صرف سوچیں نہیں ان پر عمل بھی کریں۔ مہنگائی ایک اضافی چیز ہے بنیادی شے آمدن ہے جس سے مہنگائی کا تعین ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کی آمدن بیس ہزار اور کسی دوسرے بندے کی آمدن بیس لاکھ ہے تو ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے ان دونوں کے لئے مہنگائی کے تصورات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک شخص جس کے اکاؤنٹ میں دس کروڑ روپے پڑے ہیں اس کے لئے ایک کروڑ تک پہنچ جانے والی ہونڈا سوک مہنگی نہیں ہے بلکہ خریدنے کے بعد بھی اس کے پاس کروڑوں موجود ہوں گے مگر ایک شخص جس کے پاس ٹوٹل دس لاکھ روپے ہیں اس کے لئے ٹین ڈبے جیسی سوزوکی آلٹو بھی مہنگی ہے جو تیس لاکھ روپوں کی ہوچکی ہے۔ چلیں، آپ مہنگی مہنگی مثالوں پر نہ جائیں، ایک لڑکا جو مہینے کا ڈیڑھ لاکھ کماتا ہے یعنی روزانہ پانچ ہزار روپے تو اگر وہ دوپہر کو پانچ، سا ت سو کا برگر کھا لیتا ہے تو اس کے لئے مہنگا نہیں ہے لیکن اگر ایک لڑکا کماتا ہی اٹھارہ ہزار روپے ہے یعنی روزانہ کے چھ سو تو آپ خود ہی بتائیے کہ وہ وہی برگر افورڈ کر سکتا ہے یعنی قیمت ایک ہے مگر فرق قوت خرید سے پڑ رہا ہے۔

اچھا، مہنگائی سے ایک بڑا مسئلہ یہ پیداہوتا ہے کہ ہم روزمر ہ کے اخراجات تو کھینچ تان کے کر لیتے ہیں مگر جیسے ہی کوئی بڑا خرچہ آتا ہے تو ہماری چیخیں نکل جاتی ہیں اور دوسروں سے مانگنے نکل جاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تنخواہ لیٹ ہوجاتی ہے تو تب بھی یہی صورتحا ل ہوتی ہے کہ مالک مکان سے دودھ والے تک ہر کوئی ذلیل کر رہا ہوتا ہے تو اس کا تو سادہ سا طریقہ ہے کہ آپ جیسے بھی ہو اپنے اخراجات کو اپنی آمدن کے تین چوتھائی تک رکھیں یعنی ہر مہینے کم سے کم بیس پچیس فیصد تک بچت کریں۔ میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ بچت سے کبھی کوئی امیر نہیں ہوتا۔ امیر آپ صرف اور صرف زیادہ کمانے سے ہوتے ہیں مگر اس بچت کا فائدہ یہ ہو گا(چلیں آپ اس کو دس فیصد ہی رکھ لیں،اس سے یہ ہوگا کہ خودانحصاری کی مدت حاصل کرتے کرتے سال لگ جائے گا) کہ چھ سے آٹھ ماہ میں آپ کے پا س ایک اضافی سیلری موجود ہو گی اور اگلے چھ سے آٹھ ماہ میں ایک اور۔ آپ کی تنخواہ لیٹ ہوگی تو آپ کو کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کام کیا کریں جس سے زیادہ آمدن ہو تو اس کا تو سیدھا سادا سے طریقہ ہے کہ ہمیشہ سے مائنڈ گیم کرنے والے زیادہ کماتے ہیں اور رسک لینے والے بھی۔ اب رسک لینے سے مطلب یہ نہیں کہ آپ جوا کھیلنے نکل جائیں کہ اس سے بڑا رسک کیا ہے۔ کمائی کو ہمیشہ قانونی اور حلال رکھیں جس کے اتنے زیادہ فائدے ہوتے ہیں کہ میں اس کالم میں لکھ بھی نہیں سکتا، بہرحال، اگر آپ نے اپنی تعلیم کا وقت ضائع کیا ہے اور ماٹھے سے سٹوڈنٹ رہے ہیں تو یقینی طور پر آپ کو اچھی نوکری بھی نہیں مل سکتی۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ آپ اس کام کا چنا ؤکریں جس میں آپ کا دل لگتا ہو۔ جس میں آپ نو سے پانچ بجے کی کلرکی نہ کریں یعنی کب وقت پورا ہو ااور میں بھاگوں۔ آپ ایسا کام کریں جو آپ کا شوق بھی ہو اور دوسرے آپ میں اس کام کرنے کی اہلیت بھی ہو۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب آپ کا شوق ہوتا ہے تو آپ کے اندر اہلیت اور مہارت بہت جلد آجاتی ہے۔ اس سے اگلا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ اس میں بہترسے بہترین ہوتے چلے جائیں گے جیسے آپ نے کھلاڑیوں کو دیکھا ہے کہ جیسے جیسے پریکٹس کرتے ہیں، زیادہ کھیلتے ہیں تو زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ جب آپ ماہر ہوجائیں گے اور ایسی مہارت ہوگی کہ لوگ بھی تعریف کریں گے تو اس کے بعد چاہے آپ الیکٹریشن ہیں، پلمبر ہیں، موٹر مکینک ہیں یا کچھ بھی ہیں لوگ ایک بار آپ کے پاس آئیں گے تو اس کے بعد بار بار آئیں گے اور ظاہر ہے کہ پیسے بھی اچھے دے کر جائیں گے کیونکہ وہ آپ کے کام سے مطمئن ہوں گے اور اسے اپنے پیسے کا بہترین نعم البدل سمجھ رہے ہوں گے۔ اب میں اپنی تحریر کو وہاں پر لے آیا ہوں کہ جہاں آپ کو مہنگائی سے مقابلہ کرنے کا گر پتا چل جائے گا۔ آپ جب زیادہ کمائیں گے تو وہ شے جو پہلے آپ کے لئے مہنگی ہوتی تھی اب نہیں ہوگی جیسے اگر اب آپ کا تین، چار ہزار روپے پر ہیڈ افطاری کا بل سن کر تراہ نکل جاتا ہوا ور آپ لفافے میں پنجاہ سٹھ روپیوں کے پکوڑے لے کر مطمئن ہوجاتے ہوں مگر پھر ایسا نہیں ہوگا۔

تو دوستو! شہباز شریف اور اسحق ڈار کو اکانومی بہتر کرنے کی کوششوں میں لگے رہنے دو اور عمران خان کو بھی کہ اس کو نیوٹرل واپس لے آئیں مگر تم اپنے کام میں لگ جاؤ۔ ان سب نے اپنی اپنی مہنگائی پر قابو پا لیا ہوا ہے۔ کسی کے والدین نے فیکٹریاں لگا دی تھیں اور کسی نے اپنے ٹیلنٹ کے ذریعے لوگوں سے پیسوں سے اپنی ہیلتھ اور ایجوکیشن کی ایمپائرز کھڑی کر لی ہیں مگر ان میں سے کسی نے تمہیں اپنے کاروباروں اور فارم ہاؤسز کی ایک اینٹ تک نہیں دینی۔ سو کمانا شروع ہوجاؤ اور مہنگائی کی ایسی تیسی کردو۔