قومی سیاست ایک بار پھر دوراہے پر

قومی سیاست ایک بار پھر دوراہے پر

ہمارے سیاست دانوں نے کبھی کچھ سیکھنے کی جسارت نہیں کی کہ ان میں کوئی سنجیدگی کا عنصر واضح ہو۔ حالیہ دنوں میں ایک بار پھر سے وطنِ عزیز کے سیاسی اکھاڑے میں اکھاڑ پچھاڑ کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ اس بار ایک پہلوان کا مقابلہ بہت سے پہلوانوں سے ہو رہا ہے جو ماضی میں ایک دوسرے کو ہرانے کے لئے الزمات کی بچھاڑ کرتے رہے ہیں، حیرت کی بات ہے کہ جو دہائیاں قبل ایک دوسرے سے ملنے ملانے کے روادار نہیں تھے آج شیر و شکر ہیں اورحد سے زیادہ قرابت داری کے مظاہرے ہو رہے ہیں، دن رات ملاقاتوں کا سلسلہ عروج پر ہے۔ منطق سے باہر بات ہے کہ دہائیاں تک حکومت کرنے والے سال سوا سال کے دورانیے میں کیا ایسی تدبیر کریں گے کہ لوگوں کے مصائب آن واحد میں ختم ہو جائیں لگنا تو پھر بھی ان تمام معاملات کی بہتری کے لئے ایک خاص وقت ہی ہے تو پھر یہ اتنا شور و غوغا کیوں؟ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست دانوں میں جوڑ توڑ کے ماہر چودھری برادران کا کوئی ثانی نہیں لیکن اس بار تو انہوں نے کمال ہی کر دیا۔ حافظہ کمزور ہی سہی لیکن عوام یہ بات کبھی نہیں بھول سکتے جب نواز شریف جلاوطنی کاٹ کر پاکستان آئے تھے تو انہوں نے شیخ رشید اور خاص طور پر چودھری برادران کے حوالے سے بڑا سخت مٔوقف اپنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اور تو کسی کو وہ قبول کر لیں گے لیکن ان کے لئے ان کے پاس کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب کہ سیاست کے حوالے سے عمومی مٔوقف یہی ہوتا ہے کہ اس میں سب کچھ ممکن ہے۔ اس بار چودھری برادران نے اپنی تضحیک کا بدلہ لے لیا۔ ان کے ملنے کی خواہش پر انہیں وقت دے دیا لیکن جس طرح مونس الہٰی نے گزشتہ روز بیان دیا اور وزیرِ اعظم کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا اس میں بڑا سبق ہے۔ ہمارے ہاں انا اور زبان کی کوئی بات نہیں ہے یہاں اپنے مفادات کے حصول کے لئے سب کچھ نظر انداز ہو جاتا ہے۔ میرے اردگرد سب لوگوں کا خیال تھا کہ میاں صاحبان چودھری برادارن سے مدد لینے جائیں گے جب کہ میرا خیال تھا جس طرح کی سیاست آج کل مسلم لیگ (ن) والے کر رہے اس میں اس کی کوئی 
گنجائش ہی نہیں بنتی۔ حالیہ کچھ عرصہ میں میاں صاحب نے بڑا  مزاحمتی انقلابی بیانیہ اپنایا ہے۔ لیکن شہباز شریف کے چودھری برادران کے در پر جانے نے میرے تمام اندازے غلط کر دیئے اور پھر دھتکارے جانے نے میرے اس اندازے کی تائید کی کہ میاں صاحبان یہ بات جانتے ہیں کہ مسلم لیگ (ق) کبھی ان کی باتوں میں نہیں آئے گی۔ بس انہوں نے اسی بات کو مقدم جانا کہ مسلم لیگ (ق) کی نشستیں حکومت کا خاتمہ کر سکتی ہیں۔        
اب اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ عدم اعتماد میں ناکامی کی صورت میں وہ لانگ مارچ سے حکومت کو گھر بھیج دے گی تو یہ تصور بھی خوش فہمی پر مبنی ہے۔ اس ساری صورتحال میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس اپوزیشن سے یہ حکومت جانے والی نہیں اور نہ ہی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے والی ہے۔ اپوزیشن یہ نہیں دیکھتی کہ موجودہ حکومت کے دور میں اس نے عوام کا مقدمہ کب اٹھایا۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی مہم ان جماعتوں کے اپنے سیاسی مفادات کے تناظر میں تھی اور جہاں جس کو اپنا مفاد نظر آیا اس نے سب کو دھکا مار کر جیسے بھی ممکن ہوا حاصل کر لیا۔ جب کہ عوام مہنگائی، بے روزگاری اور مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ذرہ غور کیجئے آج ملک جن بحرانوں کا شکار ہے، آج جس طرح غریب بھوکا مر رہا ہے، آج روزگار، تعلیم، انصاف اور صحت جیسی نعمتیں اس ملک سے ناپید ہوتی جا رہی ہیں اور یہ ملک جس طرح مسائل کی دلدل میں دھنس رہا ہے اس کی ذمہ دار ی ان اپوزیشن جماعتوں کے قائدین پر بھی عائد ہوتی ہے اور انہیں یہ ذمہ داری قبول بھی کرنی چاہئے۔ اپوزیشن جماعتیں عوامی بیانیے سے صرف اس حد تک سنجیدہ دکھائی دیں جہاں ان کا اپنا مفاد تھا۔ پیپلز پارٹی کو میاں نواز شریف کی سیاست سے بھی ہمیشہ گلہ رہتا ہے کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے مل جاتے ہیں اور اپوزیشن اتحاد کو بیچ میں چھوڑ جاتے ہیں۔ اس دفعہ وہی حرکت پیپلز پارٹی نے کر دی۔ اس طرح دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کی ساکھ اس قدر مجروح ہو چکی ہے کہ ان کے اتحادی بھی اب ان پر اعتبار نہیں کرتے ہیں۔ 
میاں نواز شریف اب کی بار بڑی انقلابی باتیں کر رہے ہیں لیکن انہیں چاہئے کہ وہ جمہوریت کے خلاف سازشیں ناکام بنانے کا عہد کرتے ہوئے اس امر پر اتفاق کریں کہ جمہوری نظام کو سبو تاژ نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ ماضی میں کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ سیاسی منظر میں پیدا ہونے والی افراتفری کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں نے اٹھایا۔ اب ایک بار پھر اپوزیشن اس بات پر خوش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان دراڑیں پڑ رہی ہیں تو اس بات پر نہ تو اپوزیشن کو خوش ہونا چاہئے اور نہ ہی اس کی بنیاد پر موجودہ حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ وہ اپنے دورِ اقتدار میں بھی اسی طرح کے گلے شکوے کرتے رہے ہیں۔ اب اگر انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے تو انہیں چاہئے کہ حکومت کا بازو بنیں تا کہ مستقبل میں جب وہ اقتدار میں ہوں تو ان کے لئے صورتحال مختلف ہو۔ 
بہر حال حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ہر ایسے عمل سے گریز کرنا چاہئے جس سے جمہوری نظام کی بے توقیری ہو اور سیاست کے نام غیر آئینی حرکات کی رسم پر چل پڑے۔ پارلیمنٹ کے ذریعے عدم اعتماد کر کے حکومت کو فارغ کرنے کی کوشش تو جمہوری طریقہ ہے اگر اس آپشن میں اپوزیشن کو کامیابی نہیں ملتی تو پھر لانگ مارچ یا کوئی دوسری ایجیٹیشن ملکی مفاد میں نہیں۔ سیاسی تصادم کا کوئی نہ کوئی حل نکالا جانا چاہئے۔ان حالات میں جب کہ پاکستان کی معیشت کئی وجوہ کی بنا پر کمزور ہے اور اسے استحکام کے دورانیہ کی ضرورت ہے، بڑھتی ہوئی کشیدگی اور محاذ آرائی سے ملک کو نقصان ہو گا۔ معیشت اس کا سب سے بڑا شکار ہو گی۔ حکومت عوامی مسائل کے حل کے لئے مذاکرات کا عندیہ دے چکی ہے بہتر یہی ہے حکومت اورا پوزیشن کے درمیان بات چیت کا کوئی فریم ورک بن جائے اور معاملات مذاکرات کے ذریعے حل ہو پائیں۔ ماضی میں بھی پاکستان میں ایسا ہوتا رہا ہے، احتجاجی تحاریک کے نتیجے میں حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات ہوتے رہے ہیں اور ان مذاکرات کے نتیجے میں مسائل کا حل تلاش ہوتا رہا۔ پارلیمانی جمہوری نظام کی بقا آئین کی متعین حدود میں رہ کر چلنے میں ہے۔

مصنف کے بارے میں