اصل آئین کون سا ہے

اصل آئین کون سا ہے

عدالت میں پیش ہونے کے لیے جو سہولت لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کو دی ہے کیا یہی سہولت ایک عام آدمی کو بھی مل سکتی ہے۔ اگر نہیں تو یہ کون سا آئین ہے۔ انتظامیہ کے تقرر و تبادلوں کے اختیارات اگر کسی کے حکم کے مرہون منت ہی ہونے ہیں تو اس آئین کا بھی پتا لگانا چاہئے۔ 80 کی دہائی میں جب نظریاتی سیاست اس ملک میں ہوا کرتی تھی اس دور میں ہم نے طلبہ سیاست میں سرگرم کردار ادا کیا اور وہ بھی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں۔ گولیوں کی بوچھاڑ دیکھی۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل سے آنکھیں نم بھی ہوئیں اور آنسو گیس کے شلوں کو اٹھا کر واپس پولیس کی جانب پھینکنے کا کام بھی کیا اور حوالات کی ہوا بھی کھائی لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی اگر آج تک کوئی چیز سمجھ نہیں آئی تو وہ پاکستان کا آئین ہے۔ گھر والوں نے اس زمانے کے دستور کے مطابق بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کے لیے ہمیں سائنس کا مضمون رکھنے کو کہا لیکن کیا کریں کہ جنرل ضیا اس ملک کی جڑوں میں تو بیٹھے ہی تھے لیکن انہوں نے ہمارے مستقبل کا رخ بھی موڑ دیا۔ ہم ایس ایم سائنس کالج میں پڑھتے تھے اور ساتھ ہی سندھ مدرسۃالاسلام کی عمارت تھی۔ جس کی اہمیت یہ تھی کہ قائد اعظم نے اس میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کی صد سالہ تقریبات میں جنرل ضیا نے آنا تھا اور جنرل صاحب کی اس وقت بھی سکیورٹی اتنی تھی کہ جہاں جانا ہوتا تھا وہاں پر ان کی آمد سے ایک ماہ پہلے ہی سکیورٹی الرٹ ہو جاتی تھی۔ ہمیں کالج کے پرنسپل نے بلا کر بڑے پیار سے کہا کہ میں آپ سب کو ایک ماہ کی چھٹی دیتا ہوں تاکہ آپ سکیورٹی والوں کی نظر میں نہ آ جائیں اور آپ کے ساتھ کوئی ایسی ویسی بات نہ ہو جائے۔ انہوں نے یہ بات کچھ اس طرح مروت سے کہی کہ ہم بھی قائل ہو گئے لیکن جب ایک ماہ بعد کالج میں قدم رکھا تو نام خارج ہو چکا تھا اور ہمیں مجبوری کے عالم میں گریجوایشن آرٹس میں کرنا پڑی جس میں پولیٹیکل سائنس میں ہم نے کوئی درجن بھر ممالک کے آئین پڑھے اور سب کے آئین سمجھ بھی آ گئے لیکن آج تک لاکھ کوشش کے باوجود بھی اگر سمجھ نہیں آ سکا تو وہ اپنے ملک کا آئین ہے۔
90 کی دہائی کی بات رہنے دیں اور بات شروع کرتے ہیں 2008 سے کہ جس کی نوجوان نسل بھی عینی شاہد ہے۔ اصل کتاب آئین میں آرٹیکل248 ٹو میں بڑا واضح لکھا ہوا ہے اور کوئی ابہام نہیں ہے کہ صدر یا کسی گورنر کے خلاف، اس کے عہدے کی معیاد کے دوران کسی عدالت میں کوئی فوجداری مقدمات قائم کیے جائیں گے اور نہ جاری رکھے جائیں گے۔ یہ آئین کی کتاب میں لکھا ہے لیکن افتخار چوہدری نے یوسف رضا گیلانی کو اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری کے خلاف سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا۔ اس میں بھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ اصل آئین کہتا ہے کہ کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو نا اہل قرار دینے کا اختیار سپیکر یا چیئرمین سینٹ کی ایڈوائس پر چیف الیکشن کمیشن کو ہے لیکن سمجھ نہیں آئی کہ وہ کون سا آئین تھا کہ جس کے تحت یوسف رضا گیلانی اور تین بار کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن سے بالا بالا 
اب اعلیٰ عدلیہ سے نا اہل قرار دے کر گھر بھیجنے کا 
رواج پڑ گیا ہے۔ اصل آئین وہ ہے کہ جس میں ایک فریق پر مکمل آئین نافذ کر دیا جاتا ہے اور دوسرے کو دس سماعتوں پر گیارہ مواقع دیئے جائیں اور وہ پھر بھی عدالت میں حاضر نہ ہو اور ماتحت عدالت کو فیصلہ سنانے سے پہلے ہی 22فروری تک فیصلہ نہ سنانے کا پابند کر دیا جائے یا اصل آئین یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ قرار دے کہ بغیر حاضری کے حفاظتی ضمانت نہیں ہو سکتی۔ اصل آئین یہ ہے کہ زرداری صاحب کو سٹریچر پر ڈال کر عدالت میں لاؤ یا عمران خان کب تک ٹھیک ہو رہے ہیں یا خدا کا واسطہ ہے کسی طرح لے آؤ۔ اصل آئین یہ ہے کہ طلال چودھری، نہال ہاشمی اور دانیال چودھری سب پر توہین عدالت لگے اور نہال ہاشمی کو تو جیل بھی جانا پڑے یا اصل آئین یہ ہے کہ اسد عمر ہوں، فواد چودھری یا دیگر وہ بار بار اداروں کے خلاف انتہائی متنازع بیان دیں۔ عدالت جائیں معافی مانگے اور عدالتیں فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں ہر بار معاف بھی کر دیں اور اسد عمر صاحب معافی ملنے کے بعد عدالت سے نکلتے ہی پھر ویسی زبان الیکشن کمیشن کے خلاف بولنا شروع کر دیں۔ اصل آئین یہ ہے کہ ضمانت کے باوجود علی وزیر کو مہینوں پابند سلاسل رکھنے کے بعد رہا کیا جائے یا اصل آئین یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت بار بار ریاستی اداروں کی تذلیل کرتے رہیں اور انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ اصل آئین یہ ہے کہ ملک کے تین مرتبہ کے وزیر اعظم پر تو پابندی ہو یا اصل آئین یہ ہے ایک فرد کی زبان مسلسل آگ اگل کر ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کا باعث بن رہا ہو لیکن پھر بھی اس کو مکمل آزادی ہو۔ اصل آئین یہ ہے کہ گذشتہ 35 برس میں جن پر درجنوں ریفرنس دائر کرنے کے باوجود بھی کرپشن کا کوئی ایک کیس ثابت نہ ہو سکا ہو لیکن وہ کرپٹ اور سیسلین مافیا اورجو توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کیس میں خود تسلیم کرے کہ ہاں میں نے کی ہے وہ صادق اور امین قرار پائے۔ اصل آئین یہ ہے کہ جو بندہ توشہ خانہ کیس میں گھڑی بیچنے کی جو کہانی سنائے اس کی تردید خود دکاندار کرے لیکن اس پر کوئی ایکشن نہیں یا اصل آئین یہ ہے کہ کیلبری فاؤنٹ کو غلط قرار دے کر جیل بھیج کر نا اہل کر دیا جائے۔ اصل آئین یہ ہے کہ تمام شہریوں سے مساوی سلوک کیا جائے یا اصل آئین یہ ہے کہ لاڈلوں کو سر پر بٹھایا جائے اور دیگر کو اس دھرتی کا سپوت ہی نہ سمجھا جائے۔ اصل آئین یہ ہے کہ ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم کو متنازع ترین مقدمہ میں تختہ دار پر لٹکا دیا جائے، یوسف رضا گیلانی اور تین بار کے وزیر اعظم کو انتہائی متنازع انداز میں نا اہل قرار دیا جائے یا اصل آئین یہ ہے کہ عمران خان تو ملک کے مقبول رہنما ہیں۔
فہرست تو بہت طویل ہے لیکن دامن کالم میں اب مزید گنجائش نہیں رہی اور پھر 75برس کی روداد ایک کالم میں تو آ بھی نہیں سکتی۔ گذارش فقط اتنی کرنی تھی کہ آئین ہی وہ دستاویز ہے جو کسی قوم کو متحد رکھتی ہے لہٰذا جو آئین کتاب میں لکھا ہوا ہے اسی آئین کو رہنے دیں آئین کی تشریح کے نام پر ہر منصف اپنی پسند کا نیا آئین لکھنا شروع نہ کر دے ورنہ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن عمران خان اعلیٰ عدلیہ کا جس طرح مذاق اڑا کر اپنی مرضی کا نیا آئین لکھ رہے ہیں اور اس کے باوجود بھی اعلیٰ عدلیہ جس طرح ان کے صدقے واری جا رہی ہے اگر یہی صورت حال جاری رہی تو پھر یاد رکھیں کہ وہ دن دور نہیں جب آئین کی تشریح کے لیے عدالتوں کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ ہر شہری اپنی مرضی کے مطابق آئین کی تشریح خود کرے گا۔