سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ، اب کیا ہوگا؟

سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ، اب کیا ہوگا؟

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 25 مئی کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیے جانے اور اسمبلی کی تحلیل سے متعلق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ پر سوموٹو نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں صدر مملکت، جسٹس (ر) ثاقب نثار کے صادق اور امین وزیر اعظم، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وفاقی وزیر قانون کو آئین شکنی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ متفقہ فیصلہ میں امریکی سازش سے متعلق سابق وزیر اعظم کے بیانیے کو بھی مسترد کر دیا گیا۔ ایک فاضل جج نے اپنے اضافی (اختلافی نہیں) نوٹ میں آئین شکنی کے مرتکب مذکورہ بالا افراد کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی بھی سفارش کی ہے۔ اس اضافی نوٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور دیگر کیخلاف آئین شکنی پر آرٹیکل 6 کے تحت ریفرنس دائر کرنے کا جواز مہیا کر دیا ہے۔ آئین میں آئین شکنی یا آئین سے بغاوت پر سخت ترین سزا تجویز کی گئی ہے جو سزائے موت یا عمر قید ہو سکتی ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت صدر پرویز مشرف کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا سزا سنائی گئی۔ مگر سزا نواز شریف کو بھگتنا پڑی۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو موجودہ حکومت نے تاریخ ساز اور انصاف کی روشن مثال قرار دیا ہے جبکہ سابق حکومت کے وزیر قانون فواد چودھری نے اسے بند کمروں کا فیصلہ قرار دیتے ہوئے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے تفصیلی فیصلہ آنے پر اتحادی حکومت کی صفوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ پی ٹی آئی نے کسی ذہنی تبدیلی اور غور و خوض کے بغیر ’’شام غریباں‘‘ منائی حتیٰ کہ عمران خان نے بھرے جلسے میں اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ججوں نے امریکی سازش والے سائفر کو پڑھے بغیر فیصلہ سنا دیا۔ پی ٹی آئی لیڈروں کی تنقید نئی بات نہیں حق میں فیصلہ آئے تو سارے جج پاک پوتر حمایت میں قصیدے مخالف آ جائے تو ججز کو سزائیں دلوانے کی باتیں اپنے دور میں قومی اسمبلی کو قانون سازی کے بجائے آرڈیننسوں سے چلانے اپوزیشن کو چوروں، ڈاکوئوں کا جتھہ قرار دے کر پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے اور ایوان میں گالیوں اور مخرب اخلاق نعروں کی روایت قائم کرنے والوں کو اقتدار سے محرومی کے بعد ہی پارلیمنٹ کی یاد آئی فواد چودھری نے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی موہوم امیدوں کے سہارے منہ بھر کے کہہ دیا کہ پارلیمنٹ اس فیصلہ کو کالعدم کر دے گی۔ وقت پیری شباب کی باتیں ایسے ہیں جیسے خواب کی باتیں۔ کپتان سمیت ان کے پانچ پیارے اس فیصلے کے باوجود ماننے کو تیار نہیں کہ ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا ماہتاب ڈھل گیا اور وہ اندھیروں میں خوفزدہ ہو کر ٹاک ٹوئیاں مار رہے ہیں لیکن بقول شخصے کیا کریں خود ہی چراغوں کو بجھا بیٹھے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کپتان کے خلاف مقدمات کی سیریز آنے والی ہے جن میں آئین شکنی، بغاوت، توشہ خانہ اور دیگرمتعدد مقدمات شامل ہوں گے۔ صدر مملکت کو فی الحال اخلاقی طور پر مستعفیٰ ہونے کے مشورے دیے جا رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ کپتان اپنے اس آخری مورچے سے پسپائی برداشت نہیں کریںگے جس کے بعد صدر کے مواخذے کی تحریک پیش کی جا سکتی ہے کپتان کی جانب سے اپنے ہر جلسے میں 
اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانے اس پر دباؤ ڈالنے کی روش اور فواد چودھری کی اسٹیبلشمنٹ کے منہ کو خون لگا ہوا ہے جیسی خطرناک باتوں کے بعد شنید ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی بے ساکھیوں سے محروم ان لیڈروں کے خلاف حکومتی اقدامات پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ چنانچہ آرٹیکل 6 کے تحت ریفرنس دائر کرنے پر مشاورت جاری ہے فیصلہ وفاقی کابینہ کرے گی وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے اس اعلان نے کپتان کو پریشان کر دیا ہے کہ 17 جولائی کے بعد انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے جن پہ تکیہ تھا ان سے رابطے ٹوٹ چکے شیخ رشید بھی کئی روز سے ٹیلیفون کی گھنٹی نہ بجنے پر اداس ہیں لیکن حسب سابق تاریخیں دینے سے باز نہیں آتے۔ گزشتہ دنوں اپنے من پسند صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 15 اگست تک اہم فیصلے ہوں گے۔آئندہ 45 دن اہم ہیں۔ پوری قوم کو پتا چل جائے گا ایسی پھلجھڑیاں وہ گزشتہ چار پانچ سال سے چھوڑ رہے ہیں کپتان کے کان میں بھی اس کی بھنک پڑ گئی چنانچہ اپنے ملتان کے انتخابی جلسے میں انہوں نے بھی کہہ دیا کہ آئندہ تین ماہ میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ یہ الگ بات کہ تین ماہ بعد بھی ان کی دودھ میں پانی ملانے کی کوششیں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران وہ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے سلسلہ میں جلسوں سے خطاب میں مصروف تھے جس میں انہوں نے چوروں، ڈاکوئوں کے نام لے لے کر انہیں برے القابات سے نوازا، بھرپور پھینٹی لگانے کی دھمکی دی کسی مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کا بار بار ذکر کیا۔ 2018ء کے انتخابات میں مسٹر ایکس نے کراچی میں اور مسٹر وائی نے ملتان میں بڑا سہارا دیا تھا اب رابطہ کیا تو جواب ملا کہ یہ 2018ء نہیں 2022ء ہے اپنے برتے پہ انتخابات لڑیں۔ جواب کورا بلکہ کرارا ملا تو کپتان نے کہنا شروع کر دیا کہ لاہور اور ملتان میں دھاندلی ہو گی۔ جب جسے چاہیے بُرا کہیے اس سے آسان کوئی بات نہیں۔ جھوٹی سچی اڑانے میں کیا حرج ہے کوئی زبان پکڑنے والا نہیں۔ کس دھڑلے سے کہہ دیا کہ نواز زرداری نے ملک پر 30 سال حکومت کی حالانکہ دونوں نے نو نو سال یعنی 18 سال اقتدار کے مزے چکھے۔ لوٹوں لوٹوں کی بھی رٹ لگائے رہے جبکہ عرفان اللہ نیازی ن لیگ سے ٹوٹ کر پی ٹی آئی میں آیا تو اس کی حمایت میں جلسہ کرنے پہنچ گئے۔ پھینٹی لگانے پر یاد آیا کہ انہوں نے اپنے دیوانوں اور پروانوں کو حکم دیا ہے کہ جو بھی وزیر مشیر سامنے آئے چور چور کے نعرے لگاؤ اس پر فوری عملدرآمد ہوا وفاقی وزیروں میں انتہائی سنجیدہ اور مرنجان مرنج وزیر احسن اقبال بھیرہ ریسٹ ہوم میں رکے اور میکڈونلڈ سے کچھ لینے گئے تو ایک یوتھی فیملی کی خاتون اور اس کے ساتھیوں نے چور چور کے نعرے لگائے کیا فرق پڑا دوسرے ہی دن ان کے گھر جا کر معافی مانگنا پڑی۔ رجحان غلط ہے سیاست اور اقتدار دائمی نہیں کبھی نہ کبھی ہر ایک کو اپنے حصہ کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے خواجہ آصف نے بڑے افسوس سے کہا کہ عمران خان خونی رشتوں کو نہیں پہچانتے سیاسی رشتوں کو کیا پہچانیں گے پنجاب کے ضمنی انتخابات کی وجہ سے کئی معاملات زیر التوا تھے ضمنی انتخاب ہو گئے آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا گیا وزیر اعظم شہباز شریف نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کر کے عوام کو پہلا ریلیف دیا حمزہ شہباز پنجاب کے عوام کو بجلی بلوں میں جو ریلیف دینا چاہتے تھے پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن سے رابطہ کر کے اسے رکوا دیا پتا نہیں عوام دشمنی تھی یا الیکشن اسٹنٹ تاہم 70 لاکھ خاندان اس ریلیف سے محروم رہ گئے حکومت مستحکم ہو رہی ہے اتحادی ساتھ رہے تو آئندہ سال تک قائم رہے گی قائم رہی تو بہت کچھ ہو سکتا ہے 3 ماہ یا 45 دن گزر جائیں گے لیکن وہ نہیں ہو گا جو پنڈی والے شیخ رشید سوچے بیٹھے ہیں وفاقی کابینہ میں آرٹیکل 6 کے تحت سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہو نہ ہو دیگر مقدمات میں کپتان اور اس کے ساتھیوں کو گھیرا جائے گا۔ قانون اپنا راستہ بنائے گا۔ فارن فنڈنگ کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ آ گیا تو سمجھئے کہانی ختم، پھر کسی اور نام سے آ جائیں گے یہ لوگ لیکن غبارے سے ہوا نکل چکی ہو گی اور آئندہ عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا خواب بکھر چکا ہو گا بھول جائیں کہ کوئی مسٹر ایکس یا مسٹر وائی 2023ء کے انتخابات میں سہارا دے گا۔ حکومت معاشی بحران ختم کرنے یا کم کرنے میں کامیاب ہو گئی تو سیاسی بحران خود بخود ختم ہو جائے گا اور 2018ء میں سونامی لانے والے ساحل پر کھڑے کف افسوس مل رہے ہوں گے سیانے ابھی سے کہنے لگے ہیں کہ پی ٹی آئی کو 50 سے زیادہ نشستیں نہیں ملیں گی اس وقت کپتان کا بیانیہ کیا ہو گا جب ہو گا تب دیکھا جائے گا۔