تحریک بدکلامی …

تحریک بدکلامی …

ملک میں اس وقت کئی تحریکیں چل رہی ہیں اپوزیشن تحریک عدم اعتمادکی کامیابی کے لیے سرگرم ہے ،حکومت کے اتحادی مستقبل کے حوالے سے معاملات طے کرنے کی تحریک پر ہیں، پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کااعلان کیاہے ،حکومت مختلف شہروں میں جلسے منعقدکررہی ہے پاکستان تحریک انصاف نے 27مارچ کواسلام آبادمیں دس لاکھ افرادجمع کرنے کابھی اعلان کیا ہے لیکن ان سب تحریکوں میں ایک تحریک ایسی بھی ہے کہ جس کوسب سے زیادہ پزیرائی مل رہی ہے ۔
جی ہاں ،وزیراعظم عمران خان کی تحریک بدکلامی ،بدزبانی اوربداعمالی اپنے عروج پرہے انہوں نے آج سے چندسال قبل بدکلامی کاجوسفرشروع کیاتھا وہ سفرنہایت اہم موڑمیں داخل ہوچکاہے ۔
مالیاتی کرپشن کے خلاف جہادکانعرہ دراصل ایک فریب ثابت ہواہے،موجودہ دورِ حکومت میں کرپشن ہی نہیں کرپشن کے طریقہ کار بھی بدل گئے ہیں نچلی سطح پر مہنگائی نے کرپشن کو بڑھاوا دیاہے ، اعلیٰ سطح پر میگا کرپشن نے ملک کو عالمی درجہ بندی میں 140 ویں نمبر پر گرا دیاہے  مالیاتی کرپشن رہی اپنی جگہ پی ٹی آئی کویہ اعزازبھی حاصل ہوگیاہے اس نے پورے ملک میں بدکلامی ،بدتہذیبی ،ناشائستگی اوربداخلاقی کے ایک نئے کلچرکومتعارف کروادیاہے اورپوری ایک نسل گمراہ کیاہے ۔ آج کل ہر کوئی یہ گلہ کرتا پایا جاتا ہے کہ معاشرتی اقدار تبدیل ہورہی ہیں،یعنی تنزلی کی جانب مائل ہیں۔ بدزبانی ایک وبا کی صورت میں پھیل رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے پیروکار بدزبانی کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ جس طرح سے بدزبان سیاسی شخصیات کو ان کے چاہنے والوں میں پذیرائی ملتی ہے اسی طرح سے بدزبان اینکروں کو بھی ریٹنگ کی صورت میں اپنی دکانیں مزید چمکانے کا موقع ملتا ہے۔ مانا کہ میڈیا کی ترقی 
خصوصا الیکٹرانک میڈیا کی آمد اور وسعت کے بعد طوفان بدتمیزی سکہ رائج الوقت ہو چکا، مگرموجودہ حکومتی سرپرستی میں سوشل میڈیا پر جو طوفانی بدتمیزی برپاہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔
حکومت کی بدکلامی کے جواب میں اپوزیشن جماعتیں بھی اپنے بیانات میں شدت لارہی ہیں اگردوسری طرف سے بھی یہ سلسلہ مزیددرازہواتوپھرملک میں کسی کابھی جینامشکل ہوجائے گا یہ لڑائی گلی محلوں تک پھیل جائے گی جس کو روکنا مشکل اور ناممکن ہو جائے گا لہذا عمران خان کوبدکلامی، بدزبانی، گالی گلوچ اور کردار کشی کا سلسلہ بند کرنا ہو گا جس سے ملک میں خانہ جنگی کا سماں پیدا ہورہا ہے جو کسی بین الاقوامی ایجنڈا کا حصہ معلوم ہوتاہے تاکہ پاکستانی ایٹمی طاقت کی حامل قوم کو تقسیم در تقسیم کیا جائے ۔
اپوزیشن کایہ بیانیہ درست ثابت ہورہاہے کہ عمران خان کی بدکلامی، بدزبانی، بداعمالی اور بدانتظامی سے پاکستان تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑا ہے جس میں ان کی تاریخی ناکامیوں، نااہلیوں اور نالائقیوں کا بہت بڑا عنصرشامل ہے جس کو چھپانے کے لئے مخالفین پر وہ رکیک حملے کررہے ہیں اوراس گیم میں وہ اپنے سرپرستوں اورآقائوں کوبھی نہیں بخش رہے ہیں ان کی بدزبانی کے جملے سوشل میڈیاکے ذریعے زبان زدعام ہو رہے ہیں جس سے ملک بدحال اور بے حال ہو چکا ہے جس کے اردگرد حالات بدل کر خوفناک شکل اختیار کر چکے ہیں۔
 عوام کو توپہلے دن سے یہ احساس ہو چکا تھا کہ جن رنگین اور پرکشش وعدوں اور خوابوں کے رتھ پر سوار ہو کر موجودہ حکومت نے اقتدار کی منزل حاصل کی ہے وہ تمام وعدے اور خواب عملی تعبیر سے محروم رہ گئے ہیں بلکہ ملک و قوم کئی سنگین مسائل سے دو چار ہیں۔سیاست میں پاکستان تحریک انصاف کے آنے کے بعد سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ ہمارے سیاست دان اب بلاخوف و خطر اپنے بیانات میں انتہائی نامناسب زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔ ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنا، طنز کرنا ایک معمول کا مشغلہ بن گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لیڈران دن بھر مشق کرتے رہتے ہیں کہ آج شام ٹی وی پروگرام  یاجلسے میں کون کون سے موثر الفاظ استعمال کریں گے۔ خدا جانے یہ نئی نسل کو کیا سکھا رہے ہیں،
پاکستان مسائل سے گھرا ہا ملک ہے ۔ اور اس کے رہنما ان تمام مسائل کو حل کرنے کے دعوے دار ہیں لیکن وہ مسائل حل کرنے سے پہلے اپنی تیز زبانوں سے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ جوں جوں تحریک عدم اعتماد کا وقت قریب آرہا ہے، کردار کشی کی یہ کوششیں بھی تیز ہوتی جارہی ہیں۔ سیاست دان یہ سارے تجربے ماضی میں بھی کرچکے ہیں۔ ماضی میں بھی کردار کشی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کرنے یا الزام لگانے کا طریقہ اپنایا جاتا رہا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں قومی سیاست میں کوئی بہتری پیدا ہونے کی بجائے سیاسی لیڈروں پر بھروسہ اور اعتبار متاثر ہا اور جمہوری عمل خطرات کا شکار ہا۔ اس کے باوجود ملک کے سیاست دان ماضی سے سبق سیکھنے اور اختلاف رائے کے لئے مہذب طریقہ اختیار کرنے کی بجائے اب بھی گام گلوچ اور الزام تراشی کو ہی لوگوں کو متاثر کرنے کا آسان ترین طریقہ سمجھتے ہیں۔
ہرسیاستدان کی طرح عمران خان بھی یہ چاہتے ہیں کہ اس کا اقتدار ہمیشہ قائم رہے اور اس کے لیے وہ کوئی بھی قیمت دے سکتا ہے، کسی حد تک بھی گر سکتا ہے اور کوئی بھی تذلیل برداشت کر سکتا ہے۔عمران خان کے تندوتیزبیانات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جو ادعا، نظریہ، ہدف یا نعرہ لے کر وہ اقتدار میں آیا تھا وہ قطعی بے معنی ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد واحد ہدف اور مقصد صرف اقتدار رہ جاتا ہے۔اوراس سے ہرقیمت وہ چمٹارہناچاہتاہے چاہے اس کے لیے کتناہی گندڈالاجائے ۔؟

مصنف کے بارے میں