امریکا خود بڑا دہشتگرد ہے

امریکا خود بڑا دہشتگرد ہے

اگر آپ نے اس ملک میں سیاست دان بننا ہے تو آپ کو چوری،بے ایمانی، ڈاکہ زنی، راہزنی، جھوٹ، کرپشن، رسہ گیری، قبضہ گیری، اغوا برائے تاوان،منشیات فروشی میں وسیع تجربہ ہونا چاہیے۔ اس کے بعد آپ کو امریکہ کی غلامی میں ہر وہ حربہ آنا چاہیے جو امریکہ چاہے گا۔جنابِ اس سلسلے میں آپ دو مثالیں ملاحظہ فرمائیے اور حالاتِ حاضرہ پر غور فرمائیے۔
کرنل صاحب نے یونٹ کی وزٹ کے دوران صوبیدار میجر صاحب کو لے کر میس کا وزٹ کیا اور پوچھاکہ ”آج میس میں کیا پکا ہے صوبیدار میجر صاحب بولے“۔سر آج کریلے پکے ہیں ”کرنل صاحب“ بولے واہ آج بہت اچھی سبزی پکی ہے ”مجھے بہت پسند ہے“صوبیدار میجر صاحب کہنے لگے ”سر مجھے بھی بہت پسند  ہے جس دن یہ سبزی پکے میں صرف کریلے ہی کھاتا ہوں ساتھ روٹی نہیں کھاتا“کرنل صاحب گھر گئے تو وہاں بھی کریلے پکے تھے الغرض کرنل صاحب کو دو دن لگاتار کریلے کھانا پڑے تو چڑ گئے۔اگلے وزٹ پر جب کرنل صاحب میس گئے تو پوچھا کیا پکایا ہے تو صوبیدار میجر صاحب جوش سے بولے سر کریلے پکے ہیں۔کرنل صاحب کو غصہ آگیا کہنے لگے یہ واہیات سبزی آج پھر پکائی ہوئی ہے۔ صوبیدار میجر صاحب بولے ”سر اللہ سمجھائے ان میس والوں کو مجھے ذرا بھی اچھی نہیں لگتی ”کرنل صاحب حیران ہوکر بولے“صاحب اس دن تو آپ کہہ رہے تھے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں ”صوبیدار میجر نے کس کر سلیوٹ کیا اور بولے“سر ہم نے نوکری آپ کے ساتھ کرنی ہے کریلوں کے ساتھ نہیں۔۔
رفیق ڈوگر صاحب کالم نگار دوست ہیں۔ عرصہ دراز سے مختلف اخبارات میں کالم داغتے ہیں اور ماشاء اللہ اچھا لکھتے ہیں۔وہ اپنی کتاب”دید شنید“میں لکھتے ہیں ”ایک مراثی ایک، ملازم نواز انگریز افسر کے دربار میں نوکری کے لئے حاضر ہواتمہارا نام؟ ملازم نواز نے پوچھا ”نور علی“ ملازمت پسند نے جواب دیا۔باپ کا نام؟دادا قائم علی قوم؟میر زادے مذہب؟جو گاؤں کے چودھری صاحب کا ہے میراثی نے جواب دیا۔انگریز جوہر شناس تھا۔ میر زادے کو نوکری مل گئی۔ سال چھ ماہ کے بعد اس افسر کو واپس جانا پڑا۔ جاتی دفعہ اس نے نئے افسر کے پاس میر زادے کی صلاحیتوں کی بہت تعریف کی۔دوسرے روز اس نے میرزادے کو بلایا اور پھر سے انٹرویو لینا شروع کیا۔
تمہارا نام؟ ”ابن سرکار“ میراثی نے جواب دیا۔
باپ کا نام؟موتیاں والی سرکار
قوم؟میراثی نے ہاتھ باندھتے ہوئے جواب دیا ”کوئی نہیں“
افسر نے حیران ہو کر پوچھا، یہ کیا بات ہوئی؟
”بندہ پرور“سرکار کی کوئی قوم نہیں ہوتی کبھی وہ کسی قوم سے ہوتی ہے اور کبھی کسی سے اس لئے ابنِ سرکار کی بھی کوئی مستقل قوم نہیں ہو سکتی ”میراثی نے جواب دیا“تو پھر قوم کے خانے میں کیا لکھوں؟ افسر نے پوچھا
قوم کے خانے میں نسل لکھ لیں حضور ”میراثی نے ہاتھ باندھ کر جواب دیا۔
کیا نسل لکھوں؟”سرکاری نسل“ میراثی نے ایک بار پھر ہاتھ باندھ دئیے اور افسر نے خانہ پری شروع کر دی۔مذہب؟”ہم سرکار کی امت ہیں“ میراثی نے جواب دیا۔
کہتے ہیں اس میرزادے نے بڑی طویل  ملازمتی عمر پائی اور جب وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہا تو حکومت نے اسے جاگیر عطا کر دی۔قارئین ہم نے امریکہ کے ساتھ رہنا ہے اور نوکری بھی امریکہ کی کرنی ہے۔امریکہ اگر ہمیں کہے رات ہے تو ہمیں رات کہنا پڑے گی۔ہماری کیا جرأت کہ ہم کہہ دیں گے کہ دن ہے۔ہماری کیا مجال کہ جوبائیڈن کو اس کی بات کا جواب دے سکیں۔ہم میں تو اتنی جرأت نہیں کہ ہم امریکہ صرف اتنا کہہ دیں کہ تو بذات خود یعنی ”امریکہ“ دنیا بھر کا دہشت گرد ملک ہے۔کہاں کہاں امریکہ نے اپنے خطرناک ہتھیار استعمال نہیں کیے۔جاپان کے شہر ”ناگاساکی“ سے لیکر  عراق اور کشمیر تک اس کی مداخلت رہی ہے حتی کہ نائن الیون کے واقعہ میں امریکہ خود شامل تھا اور نائن الیون کا حادثہ امریکہ کا خود ساختہ واقعہ ہے۔ہماری حکومتیں تو”سرکار“ کی حکومتیں ہیں ہمیں نسل در نسل ان کا غلام کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور خودجاگیریں سمیٹنے پر لگی ہیں۔ان عقل کے اندھوں کو اتنا نظر نہیں آتا کہ امریکہ خود بہت بڑا دہشت گرد ہے۔

مصنف کے بارے میں