سوات میں امن و امان ناگزیر ہے

سوات میں امن و امان ناگزیر ہے

ہماری سیاست زیادہ تر الجھاؤکی سیاست ہے جہاں اصلاح احوال کم او ربگاڑ زیادہ ہے اس کے باوجود جس کا بھی مؤقف سنا جائے ایسے لگتا ہے کہ یہ صحیح کہہ رہا ہے۔ ہماری سیاست کی طرح کچھ نام بھی الجھن کا باعث ہوتے ہیں جن میں سے ایک اعظم خان سواتی کا ہے ان کا سارا کاروبار امریکا میں ہے رہتے اسلام آباد میں ہیں ڈومیسائل مانسہرہ کا ہے مگر نام سواتی ہے۔ غور کریں تو اعظم خان سواتی کا سوات سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا رمضان شوگر ملز کیس والے مشتاق چینی کا چینی کے ساتھ ہے۔ brain teasing کے لیے آج اتنا ہی کافی ہے۔ یہ ساری الجھن سوات میں جاری کشیدہ حالات کی وجہ سے ہے جہاں اس ہفتے سوات کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج ہوا ہے مگر میڈیا میں اس کی وہ کوریج نہیں دیکھی گئی بلکہ اس سے زیادہ اہمیت تو اکیلے اعظم خان سواتی کی ہے جن کی گرفتاری پر ہر طرف شور مچا ہوا ہے گویاایک اکیلے سواتی کا وزن 25 لاکھ سواتیوں سے زیادہ ہے۔ حالانکہ اس کا سوات سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔ 
اس ہفتے ایک سکول وین پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں 33 سالہ وین ڈرائیور حسین احمد جاں بحق ہو گیا اور اس کے ساتھ بیٹھا ایک بچہ زخمی ہوا۔ یہ واقعہ سوات کے علاقے مینگورہ میں پیش آیا اس سے ایک ہفتہ پہلے سوات قومی جرگہ یا امن کمیٹی کے ایک ممبر پر حملہ کیا گیا جو طالبان مخالف سمجھے جاتے تھے۔ اس حملے میں وہ اپنے ساتھ ساتھیوں سمیت جاں بحق ہو گئے یہ ایک بہت ہائی ویلیو کارروائی تھی کیونکہ وہ جس گاڑی میں سفر کر رہے تھے اسے نشانہ بنایا گیا۔ 
2009ء میں جنرل راحیل شریف کے زمانے میں سوات کو آپریشن راہ راست کے ذریعے دہشت گردوں سے خالی کرایا گیا تھا جس کے نتیجے میں 20 ہزار مقامی لوگ بے گھر ہوئے جنہیں IDP کہا جاتا ہے لیکن اس وقت سے لے کر اب تک یہ علاقہ دہشت گردوں سے پاک رہا۔ البتہ سوات2012ء میں عالمی خبروں کا موضوع بنا جب طالبان نے سکول کی ایک طالبہ ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ کیا گولی ان کے سر میں لگی مگر انہیں بچا لیا گیا جس کے بعد ایک نئے باب کا اضافہ ہوا جس میں ملالہ کو عالمی نوبل امن ایوارڈ دیا گیا جس کے ساتھ تقریباً 80 کروڑ مالیت کا کیش انعام بھی ہوتا ہے۔ یہ اتفاق کی بات ہے یا اتفاق کی بات نہیں ہے کہ سوات کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ جب ہو رہا تھا تو ملالہ یوسفزئی ایک امریکی فلاحی ادارے ملالہ فنڈ کی سربراہ کے طور پر صوبہ سندھ میں سیلاب زیدہ علاقوں کا دورہ کر رہی تھی جہاں وہ وزیر اعلیٰ سندھ سے بھی ملیں۔ 
سوات کی حالیہ شورش جولائی میں کابل میں اسلامی امارات آف افغانستان (افغان طالبان حکومت) کے سپانسر کردہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے درمیان جنگ بندی کے خاتمے کے بعد پیدا ہوئی ہے جو سکیورٹی نقطہ نظر سے تشویشناک ہے۔ 31 جولائی کو القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کو ایک امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنایا امریکہ نے ان کی ہلاکت کی 
تصدیق کر دی طالبان نے اس کی تائید نہیں کی۔ 
ان مذاکرات میں TTP کی گارنٹی افغان طالبان نے دی تھی بہت سے باتوں پر اتفاق ہو چکا تھا لیکن کچھ بنیادی رکاوٹیں حائل ہو گئیں جس میں ایک تو یہ تھی کہ TTP کا مطالبہ تھا کہ فاٹا کی پرانی آئینی حیثیت بحال کی جائے۔ TTP کے مطلوب افراد جو افغانستان فراد ہو چکے ہیں انہیں اسلحہ سمیت واپس آنے دیا جائے اور TTP کے جو لوگ جیلوں میں ہیں انہیں رہا کیا جائے جن میں آرمی پبلک سکول پر حملے میں ملوث ملزمان بھی شامل ہیں۔ ان سخت اور رسوا کن شرائط کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی مگر اسی دوران جذبہئ خیر لگالی کے طور پر کچھ لوگ رہا بھی ہوئے اور کچھ افغانستان سے واپس آگئے۔ سوات میں کشیدگی کی نئی لہر میں یہی لوگ ملوث ہیں۔ 
تحریک طالبان کا الزام ہے کہ افغانستان میں چھپے مفرور پاکستانی طالبان کو خفیہ کارروائیوں کے ذریعے ہلاک کیا گیا ہے بلکہ اس معاملے میں افغان حکومت نے احتجاج بھی کیا ہے۔ حالیہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں جب وزیراعظم شہباز شریف نے افغانستان کی سر زمین پاکستان پر دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال ہونے پر احتجاج کیا تو افغان وزیر خارجہ نے الزام لگایا کہ پاکستان نے امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت کے عوض بھاری رقم وصول کی ہے جو کہ قطعی بے بنیاد ہے۔ 
جنگ بندی کے خاتمے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے اور سوات کی حالیہ صورتحال اسی کا نتیجہ ہے۔ 
افسوس کا مقام یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اس واقعہ پر ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہیں وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوات حملے کا ذمہ دار KPK حکومت کی سکیورٹی میں ناکامی کو قرار دیا جبکہ KPK کے حکومتی ترجمان محمد علی سیف نے حکومت پر الزام لگایا اور کہا کہ دہشت گردوں کو روکنا دفاعی اداروں کی ذمہ داری ہے ناکہ KP حکومت کی۔ یاد رہے کہ جب دہشت گرد افغان بارڈر کراس کرتے ہیں تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سوات بارڈر پر واقع نہیں ہے بلکہ کافی اندر ہے۔ دیر کے علاقے سے بارڈر پار کر کے سوات پہنچنے تک ملٹری کی اتنی چیک پوسٹ ہیں کہ وہاں سے اسلحہ سمیت سوات میں داخل ہونا آسان نہیں ہے۔ پھر یہ گروپ وہاں تک کیسے پہنچ گئے ہیں۔ 
ایک اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ واقعہ کی ذمہ داری طالبان نے قبول نہیں کی یہ واقعہ کسی ذاتی رنجش کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ پولیس کے مطابق حملہ آور موٹر سائیکل پرسوار تھے جس پر ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ یہ بھی خیال ہے کہ کچھ چھوٹے گروپ جو طالبان کے ہم خیال ہیں مگر وہ باقاعدہ طالبان کا حصہ نہیں ہیں جس کی وجہ سے طالبان ان کے حملوں کی ذمہ داری نہیں لیتے۔ 
اسلامک امارات آف افغانستان کی برسر اقتدار حکومت پاکستانی طالبان کے ساتھ نرم گوشہ رکھتی ہے وہ داعش کو اپنا اصل دشمن سمجھتے ہیں اور طالبان ایشو کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو پاکستان کی سکیورٹی کے لیے ضروری ہے۔ جب تک افغان حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوں گے ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی پائیدار معاہدے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ 
حالیہ عالمی سفارتی سرگرمیوں کے بعد صورتحال میں مثبت تبدیلی کا امکان موجود ہے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کے بعد افغان امور پر بھی اتفاق رائے ہو جائے گا جس پر بیک چینل کام ہو رہا ہے۔ جب تک افغانستان اور پاکستان کے درمیان اعتماد بحال نہیں ہوتا ٹی ٹی پی سے معاہدہ ممکن نہیں۔ دوطرفہ امن میں امریکی کردار جب تک شامل نہیں ہو گا، یہ بے نتیجہ رہے گا۔ اصل میں افغان حکومت نے بر سر اقتدار آنے کے بعد اپنے اقتدار میں آنے سے قبل کے منشور سے انحراف کرتے ہوئے وہاں عورتوں کی تعلیم کی بندش اور شخصی پابندیاں دوبارہ عائد کی ہیں اس وجہ سے وہ ایک دفعہ پھر عالمی کمیونٹی سے قطع تعلق ہو گئے ہیں۔ افغان طالبان کا یہ خواب کہ امریکہ کے مقابلے میں روس اب افغانستان کی مدد کے لیے آئے گا وہ بھی دم توڑ چکا ہے رو س کے اپنے اتنے مسائل ہیں اور وہ یوکرائن میں اتنا پھنس چکا ہے کہ وہ کسی اور جانب دیکھ بھی نہیں سکتا۔ بالآخر افغانستان کو عالمی برادری سے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ پاکستان سمجھتا تھا کہ اشرف غنی کے بعد دو طرفہ تعلقات بحال ہو جائیں گے مگر حقیقت اس کے برعکس ثابت ہوئی مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک ایسے نہیں چل سکتا۔ ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔

مصنف کے بارے میں