حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

Khalid Minhas, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

ایک عرصہ سے میرے دل میں یہ خواہش انگڑائی لے رہی ہے کہ میں براستہ پشاور کابل تک سفر کروں اور پھر وہاں سے کسی بس یا ٹیکسی میں بیٹھ کر سنٹرل ایشیا کی ریاستوں تک سفر کر سکوں۔ کابل میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد ہو سکتا ہے کہ میری یہ خواہش پوری ہو جائے۔ افغانستان امن کا گہوارہ بن جائے تو وطن عزیز بھی شادمانی اورکامرانی سے ہمکنار ہو۔ ضروری نہیں کہ خواب پورے نہ ہوں بہت سے خواب پورے بھی ہو تے ہیں اور میری خواہش ہے کہ میرا یہ خواب بھی پور ا ہو۔
افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ہو گیا سچ مانیں تو خوشی کی لہر پورے ملک میں دوڑ گئی۔ سوشل میڈیا پر خوشی چھپائے سے نہیں چھپ رہی۔ سب جانتے ہیں کہ افغانستان میں امن دراصل پاکستان میں امن ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کا سہارا ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوست تبدیل ہوتے رہتے ہیں مگر ہمسائے تبدیل نہیں ہوتے۔ کابل میں جو بے یقینی ہے وہ سرحد کے اس طرف بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ میں نے جب اپنی کتاب امریکہ اسرائیل اور اسلام لکھی تھی تو اس وقت مجھے دھمکیا ں ملی تھیں میری کتاب کو مارکیٹ سے غائب کر دیا گیا تھا۔ اس کے ایک دو نسخے میرے پاس موجود ہیں اور میرا دل چاہتا ہے کہ ایک بار پھر میں ترمیم اور اضافے کے ساتھ اسے چھاپ دوں۔ امریکہ افغانستان سے نہیں گیا بلکہ ایک عفریت یہا ں سے رخصت ہوا ہے۔ ایک جن تھا جو ہر روز کئی انسانوں کا خون پیتا تھا۔  احمد ندیم قاسمی کاشعر گنگنانے کو جی چاہتا ہے 
خدا کرے میری زمین پر اترے
 وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
کابل کا سقوط جس تیزی اور سرعت سے ہوا ہے اس نے کئی وسوسوں اور قیاس آرائیوں کو جنم دے دیا ہے۔ اتنی جلدی افغانستان کی کیل کانٹے سے لیس فوج نے ایک گولی چلائے بغیر کابل طالبان کے حوالے کر دیا۔ چند گھنٹے پہلے اشرف غنی وہاں سے فرار ہو گئے۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہو سکتا۔ طالبان کی پیش قدمی بہت آہستہ آہستہ تھی اور وہ کابل کے علاوہ باقی علاقوں پر قبضہ کر رہے تھے۔ دوحہ مذاکرات اور معاہدے کے بعد ایک متعین کردہ طریق کار کے تحت انتقال اقتدار کا راستہ نہیں چنا گیا۔ اس وقت کی تمام حکومتی قیادت جہاز میں بیٹھ کر پاکستان اور دوسرے ممالک میں پہنچ چکی ہے اورہمارے وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں ہے۔ کابل کی پل پل تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ سب کچھ قدرتی طور پر ہواہے کہ افغان فورسز نے لڑائی لڑنے کے بجائے 
ساز و سامان سمیت خود کو طالبان کے حوالے کر دیا تو پھر اس خطے کی تقدیر بدل جائے گی اور راوی ہر طرف چین لکھے گا۔ اگر یہ سب کچھ کسی منصوبے کا حصہ ہے اورکسی جگہ سے کنٹرول ہو رہا ہے تو اس کے اثرات اس خطے پر منفی پڑیں گے۔ اس بار طالبان پاکستان کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ ان کی گردنیں پاکستان کے احسانات کے بوجھ سے بھی نہیں جھکی ہوئیں بلکہ انہوں نے لڑ کر اور پھر مذاکرات کے تحت آزادی حاصل کی ہے اس لیے وہ اپنے فیصلے خود کرنے میں آزاد ہیں۔  ویسے تو ان طالبان نے اس وقت بھی ہمارے فیصلے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا جب جنرل بابر کی حفاظت میں وہ افغانستان میں داخل ہوئے تھے اور پیش قدمی کرتے ہوئے انہوں نے کابل اور افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔امریکہ کی جنگ میں ہم کیسے استعمال ہوئے اور ان کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا؟  کس کس کی قیمت ہم نے وصول کی اور کس کو ہم نے معلومات فراہم کر کے ڈرون حملوں میں مروا دیا۔ انہیں یاد ہے سب ذرا ذرا صر ف ہم بھول گئے ہیں۔ جن لوگوں نے یہ سب کچھ کیا تھا وہ تو رخصت ہو لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ خون بہا پاکستان کو ادا کرنا پڑے۔ طالبان نے افغانستان میں عام معافی کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ وہ کسی سے کوئی بدلہ نہیں لیں گے، خواتین کو کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہو گی۔  ایک طالبان رہنما امام بارہ گاہ پہنچ گئے اور انہیں یقین دلایا کہ انہیں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ان کی جان و مال کی حفاظت کی جائے گی۔  اگر یہ سب کچھ ایسا ہی ہے تو کیا موجودہ طالبان نے اپنی نظریاتی اساس کو خیرآباد کہہ کر دنیا کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے یہ تو آنے والے چند روز میں واضح ہو جائے گا۔
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر نے بہت کام کیا ہے اور ان کے اکثر رہنما پاکستان کی جیلو ں میں قید تھے جنہیں بعض ممالک کے کہنے پر رہا کر دیا گیا ان میں ملا برادر بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے مذاکرات کے کئی دور کیے اور بالآخر دنیا کی واحد سپر پاور ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔امریکہ کی خواہش اور کوشش یہی تھی کہ طالبان کے خلاف افغانستان میں مزاحمت جاری رہے اور اس مقصد کے لیے امریکہ نے انہیں کیل کانٹے سے لیس کیا تھا ان کی تنخواہیں امریکی ادا کر رہے تھے مگر افغان یہ جان چکے تھے کہ جن کے لیے وہ لڑتے مرتے رہے ہیں وہ خود یہاں سے جان بچا کر بھاگ رہے ہیں تو ایسے میں وہ طالبان کی مخالفت کیوں کریں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کابل کوتاراج ہونے سے بچا لیا۔ افغان فوج نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور اقتدار طالبان کے حوالے کر دیا۔  سنگلاخ چٹانو ں میں رہنے والے شہری زندگی میں داخل ہو گئے ہیں اب وہ اس شہری زندگی کو چلنے دیتے ہیں یا نہیں اصل میں یہ ایک کڑا امتحان ہے۔ طالبان قیادت نے اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ تین لاکھ افغان فوج جس نے ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں کیا انہیں ساتھ رکھنا ضروری ہے یا ملک کا انتظام و انصرام ان کے تربیت کردہ جنگجو ہی چلائیں گے۔ اتنی بڑی فوج کو پالنا بھی ایک مشکل کام ہو گا۔
طالبان کی قیادت نے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا عندیہ دیا ہے تو امیدکرنا چاہیے کہ بین الاقوامی برادری بھی افغانستان کی تعمیر و ترقی میں آگے بڑھے گی۔طالبان اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اگر وہ اس اعلان پر عمل درآمد کرا لیتے ہیں تو دنیا امن کی طرف بڑھے گی امریکہ اور یورپ کی تشویش بھی ختم ہو جائے گی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ دہشت گرد گروپ اور تنظیمیں جو افغانستان میں پناہ لیتے تھے ان کے ٹھکانے ختم ہوجائیں گے تو سب سکون کا سانس لیں گے لیکن اگر کسی بھی جگہ سے شرا نگیزی کو ہوا دینے کا عمل شروع ہو اتو یہ پاکستان کے لیے انتہائی تشویشناک ہو گا۔ امریکہ تو کابل سے ہزاروں میل دور ہے مگر پشاور کابل سے بہت نزدیک ہے۔ طالبان کو اللہ تعالی نے بڑی کامیابی سے سرفراز کیا ہے تو ان کی ذمہ داریاں بھی دو چند ہو گئی ہیں۔ بیرونی دنیا طالبان کو تین پیمانوں پر تولتی ہے،داڑھی، برقعہ اور موسیقی۔ اسلامی شریعت نافذ کرنے کے اعلانات بھی ہو رہے ہیں اور رواداری کی بات بھی ہو رہی ہے۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی ابھی تک کابل میں ہیں اور عبداللہ عبداللہ نے بھی اپنے ملک کو خیر آباد نہیں کہا۔ لگتا ہے کہ طالبان اس یقین دہانی کے ساتھ آ رہے ہیں تمام قومیتوں اور سیاسی دھڑوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ طالبان کی حکومت میں سارے دھڑے شامل ہو ں گے تو پرامن افغانستان کا خواب پورا ہو سکے گا۔ اس جنگ سے پاکستان نے اربوں ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے ان گنت افراد شہید ہوئے ہیں تو کابل میں یہ صبح طلوع ہوئی ہے۔ہزاروں افراد اب بھی پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں ان کا بار بھی ہم نے اٹھا رکھا ہے۔ طالبان افغان سیاست دانوں کی اس روش کو بھی ختم کرائیں کہ وہ روٹی بھی پاکستان کی کھاتے ہیں اور گالی بھی اسی کو دیتے ہیں۔
اور آخر میں احمد ندیم قاسمی
یہاں جو سبزہ اُگے ہمیشہ سبز رہے
یہاں سے خزاں کو گزرنے کی مجال نہ ہو
خدا کرے میرے ایک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو