نگلہ، فیاضی، بخل اور فطرت کا تعلق

نگلہ، فیاضی، بخل اور فطرت کا تعلق

پنجابی زبان دنیائے ادب کا بہت بڑا سرمایہ ہے مگر بدنصیبی کہ ہم اپنی ماں بولی میں موجود ادب سے استفادہ نہیں کرتے۔ روسی زبان کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ محاورے پنجابی زبان میں ہیں۔ برصغیر دراصل براعظم ہے، یہاں اردو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد 20 کروڑ سے زیادہ نہیں جبکہ پنجابی بولنے اور سمجھنے والے 50 کروڑ سے تجاوز کرتے ہیں۔
پنجابی ادب جیسی لوک حکمت کسی اور ادب میں موجود نہیں، وارث شاہ، بھلے شاہ، بابا فرید مٹھن شریف والے، میاں محمد بخش کھڑی شریف والے، سلطان باہو اور بابا فرید اس دھرتی کا ایسا انسائیکلوپیڈیا یعنی ادب، ثقافت، تحریروں، معاشرت کا نچوڑ ہیں جس کا کوئی جواب نہیں۔ بہرحال آتے ہیں چند واقعات کی طرف جو ایک پنجابی صحافی دیوان سنگھ نے لکھے۔ یہ کہاوت میں نے اپنے بھائی معظم علی بٹ (سابق چیئرمین جیل روڈ لاہور) کے گوجرانوالہ میں پہلوانی کے استاد حافظ عزیز اللہ مسٹر ایشیا کے والد صاحب سے سنی، دیوان سنگھ نگلہ اور بد عہد کے عنوان سے لکھتے ہیں۔
ایک دلچسپ کہاوت ہے کہ ایک عورت ایک مرد سے شادی کرنا چاہتی تھی، مگر مرد اس کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ عورت کو مسلسل ٹالتا رہا، اور اس شخص نے ٹالتے ہوئے عورت سے بار بار کہا کہ وہ کسی دوسرے شخص سے شادی کر لے۔ مگر عورت اپنے ارادے پر قائم رہی اور آخر جب نہ مانی تو ان دونوں کے درمیان کچھ یوں بات چیت ہوئی:۔
مرد: میں بد چلن ہوں، ایک بدچلن شخص سے شادی مت کرو۔
عورت: مجھے کوئی اعتراض نہیں، میں پھر بھی تم سے شادی کروں گی۔
مرد: میں قمار باز ہوں۔
عورت: مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
مرد: میں شرابی ہوں۔
عورت: میں تمہارے شراب پینے کو بھی معاف کر دوں گی۔ 
مرد: میں چور ہوں۔
عورت: کوئی حرج نہیں۔
مرد: میں ڈاکو ہوں۔
عورت: مجھے قبول ہے۔
مرد: میں نگلہ (بد عہد) ہوں۔
عورت: میں تم سے شادی نہ کروں گی۔ کیونکہ ایک نگلہ (بد عہد) ایک بدقماش، چور، قمار باز، شرابی اور ڈاکو سے بھی بُرا ہے۔ کیونکہ نگلہ کی زبان کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا، دوسروں سب کا کیا جا سکتا ہے۔
اگر غور کیا جائے، تو اس کہاوت کے مطابق فی الحقیقت ایک نگلہ (بد عہد) ایک بدمعاش، بدچلن، قمار باز، شرابی، چور اور ڈاکو سے بھی بُرا ہے۔ اگر وہ بد عہد نہیں ہیں اور اپنی زبان کے پابند ہیں۔ چناچہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کی اکثریت اپنی زبان کی پابند ہو تی ہے اور جب یہ کوئی عہد کریں تو اپنے وعدے سے منحرف نہیں ہوتے۔
مذہبی اعتبار سے بھی زبان اور وعدہ کی پابندی کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ چنانچہ ہندی زبان کے مشہور شاعر تلسی کا قول ہے:۔ رگھو کل ریت یہی چلی آئی۔۔ پران جائیں پر بچن نہ جائی ، یعنی سری رام چندر جی کے خاندان کا یہ دستور اور شعار رہا ہے کہ زندگی چلی جائے تو کوئی حرج نہیں، مگر زبان سے کیا ہوا عہد ضرور پورا ہونا چاہیے۔
دوسری جگہ فیاضی اور فطرت کے تعلق کے حوالے سے یا بخل کے متعلق لکھتے ہیں۔
فیاضی اور فطرت کا تعلق
انسان کے فیاض یا کفایت شعار ہونے کا تعلق اس کی فطرت سے ہے اور اس کی فطرت کا اندازہ اس کے بچپن کے زمانہ سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کا تعلق روپیہ کے کم یا زیادہ ہونے سے قطعی نہیں۔ یعنی ایک غریب اور مفلس شخص بھی فیاض ہو سکتا ہے اور ایک کروڑ پتی کا بھی کفایت شعار اور کنجوس ہونا ممکن ہے، جو ایک پیسہ صرف نہ کرتا ہو۔
موجودہ مہاراجہ پٹیالہ کے بچپن کا زمانہ تھا کہ آپ ایک پارسی اتالیق کرنل مستری کی تحویل میں تھے۔ یہ کرنل مستری دن رات مہاراجہ (جو ان دنوں ولی عہد تھے) کی نگرانی کرتے۔ ایک روز کرنل مستری ان مہاراجہ کو کرکٹ کھلا رہے تھے تو دیکھا گیا کہ کرکٹ کے سامان میں ایک گیند پڑی ہے، جو پھٹ چکی ہے۔ کرنل مستری نے جب یہ گیند دیکھی تو آپ نے ملازم کو حکم دیا کہ گیند کو پھینک دیا جائے اور اس کی جگہ نئی گیند رکھی جائے۔ یہ مہاراجہ قریب ہی کھڑے تھے اور ان کی عمر بارہ تیرہ برس تھی۔ آپ نے کرنل مستری سے کہا۔ ’’کرنل صاحب اس گیند کو پھینکئے نہیں، موچی سے سلوا لیجئے، یہ کئی روز اور کام دے گی‘‘۔
کرنل مستری نے نوجوان ولی عہد کے منہ سے جب یہ الفاظ سنے، تو وہ بہت حیران ہوئے۔ کیونکہ ایک فیاض شخص کے منہ سے ان الفاظ کا نکلنا ان کی توقع کے خلاف تھا۔ اس ولی عہد کے والد یعنی مرحوم مہاراجہ پٹیالہ کو کرنل مستری نے جب ولی عہد کا یہ واقعہ سنایا، تو مرحوم مہاراجہ کو بہت صدمہ ہوا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ یہ برخوردار فطرتاً فیاض نہیں اور کسی ریاست کے حکمران کے لیے فیاض نہ ہونا ایک بہت بڑی کمزوری ہے، جو اس کے لیے مہنگی ثابت ہوا کرتی ہے۔ کیونکہ مرحوم مہاراجہ پٹیالہ جیسا فیاض شخص والیان ریاست کے حلقہ میں پیدا ہی نہ ہوا تھا۔ جس نے اپنی زندگی میں کروڑوں روپیہ صرف کیا۔ مرحوم کے ستاروں کا ہی اثر تھا کہ جب تک آپ زندہ رہے، خزانہ میں روپیہ کی کبھی کمی نہ ہوئی اور موجودہ مہاراجہ کے ستاروں کے اثرات سمجھئے کہ آپ فطرتاً بے حد کفایت شعار ہیں اور کسی دوسرے کا کیا سوال، آپ کے بھائی، بہنیں اور قریبی عزیز بھی آپ کی کفایت شعاریوں سے نالاں ہیں۔
گریٹ ذوالفقار علی بھٹو انتخابات جیت چکے تھے، ابھی اقتدار میں نہیں آئے تھے۔ کسی علاقہ میں گئے، لوگوں کے ہجوم میں سے اکثریت آٹو گراف لینے آ گئی۔ گریٹ بھٹو نے اپنی جیب میں دیکھا تو قلم نہیں تھا۔ تب فونٹین سیاہی والے قلم (پین) ہوا کرتے تھے۔ قریب ہی بیٹھے ایم این اے کو دیکھا جس کے پاس قلم تھا۔ اس کی الیکشن لڑنے کی فیس بھی گریٹ بھٹو کی ہدایت پر پارٹی نے جمع کرائی تھی۔ اس نے قلم دیتے وقت اس کا کور Cap اپنے پاس رکھا۔ قلم کا کور اتار کر دینے کا پروٹوکول یہ ہے کہ پھر اسے دوسری طرف لگا کر دیتے ہیں تاکہ لکھتے وقت گرپ (پکڑ) صحیح طرح آ سکے اور لکھنے میں دقت نہ ہو۔ اس نے کور اپنے پاس رکھا۔ گریٹ بھٹو نے آٹو گراف دے کر قلم اسے واپس کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد جب حکومت سازی کی تو وہ ایم این اے بھی گروپ بنا کر وزارت کے امیدوار کے طور پر آ گیا۔ گریٹ بھٹو نے کہا کہ یہ وہی ہے جس کی فیس پارٹی نے جمع کرائی جو اپنے قائد کو قلم نہیں دے سکتا وہ عوام کو کیا دے گا۔ میں ایسے شخص کو کسی محکمہ اور حلقہ کے عوام پر مسلط نہیں کر سکتا۔ ہر فیصلہ سیاق و سباق اور معاشرت میں ہوتا ہے لہٰذا جب معاشرے میں نگلے، بد عہد، بخیل حکمران آ جائیں تو عوام کی اس سے بڑی بد نصیبی نہیں۔ دور کی بات نہیں، گوجرانوالہ جی ٹی روڈ کا پل جو دراصل گوجرانوالہ کی ثقافت پر سے گزار دیا گیا۔ محض ایک دکان گوجرانوالہ بروسٹ گرانے کے لیے پرانا پل توڑا گیا، نیا پل بنایا گیا جس کے نیچے اب تمام تجاوزات اور غیر قانونی دکانیں ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ اس وقت کے کرتا دھرتا نے ان دکانداروں کو خرید کی گئی دکانوں کا عوضانہ دینے سے انکار کیا اور دیوار بن گیا۔ وہ تو اس کو معلوم نہیں تھا، میاں نوازشریف کی میاں محمد شہباز شریف کو ہدایت تھی کہ جب تک محمد اعظم بٹ گوجرانوالہ بروسٹ کے مالک اور تاجر نہ مانیں، پل نہ بنایا جائے۔ وہ ایم این اے تو ایک کوڑی دینے کو تیار نہیں تھا۔ موجودہ حکمران بھی اپنے بخل، چھوٹے پن، کم ظرفی اور مخالف دشمنی کی وجہ سے ناکام ہوئے۔ آئندہ اللہ کریم وطن عزیز کے ہر خطہ کو بخیل، حاسد، گھٹیا اور ظالم نمائندوں سے محفوظ رکھے۔

مصنف کے بارے میں