بتانِ وہم و گماں …… لاالہ الااللہ

بتانِ وہم و گماں …… لاالہ الااللہ

ہم پاکستان پر اُمڈے چلے آتے بحرانوں، مہنگائی کے تھپیڑ وں کے نوحے پڑھ رہے تھے کہ ترکیہ، شام کے زلزلے نے لرزا کر رکھ دیا۔ ہر ہر نعمت گراں قدر لگی۔ ہم گرم کمروں میں بیٹھے، وہاں چہار جانب برف میں زلزلے کی آزمائش سے دوچار مسلمانوں کی حالتِ زار دل دہلاتی رہی، اس پر یہ لاچاری مستزاد کہ کماحقہ مدد کے اسباب نہ آسان ہیں نہ فراواں۔ اگرچہ ترکیہ، شام کا ذکر اکٹھا آتا رہا، اس ضمن میں،مگر فطری طور پر توجہات کا مرکز عالمی طور پر ترکیہ رہا۔ زیادہ بھاری نقصان اٹھانے، نیٹو کا رکن ہونے اور مسلم عالمی سیاست میں متحرک ہونے کی بنا پر۔ رہا شام تو وہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ غاصب، ظالم بشار الاسد کی حکومت والے علاقے۔ حافظ الاسد اور بشار 7 فی صداقلیت سے تعلق رکھتے ہوئے نصف صدی سے زیادہ ہوا کہ 93 فی صد مسلم آبادی کو جبر و استبداد کے پنجے میں جکڑ کر خون نچوڑنے کی تاریخ کے حامل ہیں۔ حکومت کیخلاف 2011ء سے اٹھنے والی تحریک میں آدھی آبادی شام چھوڑنے پر مجبور کردی گئی۔ 5 لاکھ مارے گئے۔ 
میزائیلوں، بیرل بموں، کیمیائی حملوں سے بچتے بچاتے یہ مسلم مظلوم آبادی اب ترک سرحد سے قریب شمال مغربی شام میں محصور ہے۔ بے رحم جبر و استداد کی ماری اس آبادی پر پے درپے بشار حکومت، امریکا، روس اور بشار کے تفرقہ انگیز جتھوں نے ظلم کا کون سا پہاڑ نہ توڑا،مگر عزم و استقلال کی ناقابل شکست روح لیے ایمانی بشارتوں کی منتظر یہ آبادی جمی، ڈٹی رہی۔ اس کرہ ارض پر کفر گزشتہ دو دہائیوں سے بیک زبان ان کے خاتمے پر متفق و متحد رہا ہے۔ احادیث کی پیش گوئیوں کی بنا پر دجالی فتنوں کی صیہونی تیاری والا گروہ اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے! مسلمان حکمران قصداً تجاہل عارفانہ برتتے ہیں۔ سو اس وقت زلزلے میں برابر کی آزمائش میں مبتلا اس خطے کو جو پہلے ہی میزائل حملوں سے اجڑا ہوا تھا، فوری مدد اور زیادہ توجہ کی ضرورت تھی۔ یہاں سفید ہیلمٹس نامی رضا کار تنظیم خالی ہاتھوں سے بلڈنگوں کے ملبے سے آبادی کے بچ رہنے والے افراد کو نکالنے کا کام صرف اپنے آہنی عزم کے ساتھ کرتی رہی۔
یہاں 45 لاکھ آبادی (4.5 ملین) محدود ترین وسائل میں گھری دبی مدد کی منتظر ہے۔ یو این کا اعتراف ان کے سب سے بڑے مدد پر مامور افسر مارٹن گرفتھ نے کیا کہ ہم ان علاقوں میں مدد پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ بجا طور پرٹھکرائے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ عالمی مدد ان کیلئے نہیں ہے! (افغانستان کی مانند!) ادلب میں یو این کا جھنڈا مذمت اور مایوسی کے اظہار کیلئے زلزلے سے تباہ شدہ عمارت پر الٹا لٹکایا گیا ہے بطور احتجاج۔ عالمی ادارہئ صحت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے بھی اعتراف کیا کہ بارڈر کے دونوں اطراف میں بہت فرق ہے۔ دنیا کے 70  ممالک ترکیہ امداد بھیج رہے ہیں۔ شام میں پاکستان، متحدہ عرب امارات، الجزائر، عراق، ایران سبھی کی مدد کا رخ شامی مسلمانوں کی قاتل حکومت، بشار الاسد کی جانب ہے۔ حتیٰ کہ زلزلے کے بعد بھی اسدی فوج نے ان مظلوموں پر حملہ کیا۔ غزہ ہی کی طرح یہ محصور مسلم شامی علاقہ ایک جیل کی مانند ہے، جس کا چھوٹا سا واحد راستہ ترکی کی طرف کھلتا ہے۔ مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں بھی متوقع زلزلے کی افواہیں چلتی رہیں۔ ہم اسلام اور اس کی تعلیمات سے آنکھیں موندے سیکولر رویوں کے حامل ہوچکے۔ زلزلے کی پیش گوئی سائنسی آلات کے بس کی چیز نہیں۔ اس کیلئے محکمہ موسمیات، جغرافیہ، ارضیاتی علوم کی نہیں 
آسمانی علوم کی ضرورت زیادہ ہے! زلزلے پر ٹیکٹانک پلیٹوں کے ہلنے جلنے کی کہانیاں چلائی جاتی ہیں۔ بلاشبہ اللہ نے ارض و سماء کو قواعدو ضوابط پر بنایا اور پابند کیا ہے، تاہم کمان تو بنانے والے خالق کے ہاتھ میں ہے۔ پلیٹوں کو نہ امریکا الٹ پلٹ کرسکتا ہے نہ کوئی اور سائنسی شعبدہ باز! بلند و بالا عمارات کا پلک جھپکتے میں زمین بوس ہوجانا سورۃ الکہف میں صعیداً جرزاً کی چشم دید عبرت انگیز تشریح ہے۔ آدم علیہ السلام تا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہانی واضح ہے۔ یہ سر و سامان دنیا سامان امتحان ہے۔ زیب و زینت، یہ بساط عیش اس کی دلفریبیاں امتحان کے سوا کچھ نہیں۔ 
یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند، بتان وہم و گماں لاالہ الااللہ! ’ہمارا حکم بس ایک ہی حکم ہوتا ہے اور وہ پلک جھپکتے علم میں آجاتا ہے!‘ (القمر۔50) ایک منٹ پندرہ سیکنڈ میں فلک بوس عمارات زمین بوس، ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ یہ عبرت کے سوا بھی کچھ ہے! بلاتفریق قریب ترین مشرق وسطیٰ کے شیوخ کو پھول سے بچوں کے آنسو پونچھنے اور حقِ اخوت ادا کرنا تھا، مگر یہاں بھی سیاست ایمان پر سبقت لے گئی اور احادیث کی خاطر ہر بلا اپنی جانوں پر لینے والے بے یارومددگار چھوڑ دیے گئے۔انسان جب سائنس کی خدائی کے نشے میں اُڑا پھر رہا تھا، اللہ نے پے درپے اپنی قدرت کی کارفرمائی کے ذریعے اس کے قدموں تلے کی زمین کھینچ لی۔2004ء میں انڈونیشیا سے اٹھنے والا سونامی 9.3درجے کا زلزلہ لیے بحرہند کو پوری قوت کے ساتھ لیے گردو پیش کے سبھی ممالک پر چڑھ دوڑا۔ بھارت، ملائیشیا سے لے کر تھائی لینڈ تک، آسٹریلیا، آسٹریا، فرانس تک اثرات گئے۔ 14 ممالک میں 227,898 افراد کا قاتل تھا۔ یہ سونامی تاریخ کے ہلاکت خیز ترین آسمانی آفات میں سے ایک۔ اس کے آگے ساری سائنسی ترقی منہ تکتی رہ گئی۔ لاشوں کے انبار لگ گئے۔ سمندری لہریں بلابن کر چڑھ دوڑیں۔
اس کے بعد مسلسل برستے موسمی تھپڑوں (بشمول شمالی امریکا، چین، جاپان،یورپ) کے علاوہ کورونا، کووڈ۔ 19 نے 2023ء تک دنیا بھر میں 6,782,639 انسانوں کو شکار کیا۔ شکاری وائرس کا سائز دیکھئے، (اگرچہ دیکھنا مشکل کتنا ہے اس بے اوقات بلا کا!) اور ساری شاندار طبی ترقی کا غلغلہ ملاخطہ ہو۔ اس نے پوری دنیا پر جو سناٹا طاری کیا، معیشت تباہ کی، قبرستان اور اجتماعی قبریں آباد کیں، وہ چشم کشا ہیں، اور اب لمحہ بھر میں مشرق تا مغرب کئی ملکوں تک زلزلے کی دھمک پہنچی اور ترکیہ، شام کیلئے شدید نقصان کا باعث بنا۔
 ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی!
 اسی دیدہ دل نے افغانستان میں عالمی طاقتوں کی شکست فاش دیکھی۔ اور اب پاکستان کی تقدیر کے سارے فیصلے تنہا من مانی سے کر گزرنے والے پرویز مشرف کی عبرت ناک موت بھی انسان کی بے بسی اور بے وقعتی کا عبرت نامہ ہے۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے! ساری سمیٹی بے حساب دولت! مااغنی عنہ مالہ وماکسب …… اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا اس کے کسی کام نہ آیا۔ (اللہب۔2) پھر نہ آسمان ان پر رویا نہ زمین...... (الدخان۔29) 
قرآن پوری انسانی تاریخ کے سارے ہولناک اور ذی شان نمونے سبھی سامنے لارکھتی ہے، مگر یہ ہماری کتابِ زندگی، نصابی کتاب امتحان زندگی کی، حکمت لازوال اور دانائی کا سرچشمہ ہمارے تعلیمی نصابوں کا حصہ نہیں! ذہنی غلامی نے ہمیں جاہل، اجڈ اَن پڑھ بنادیا۔ ایریل شیرون کوفلسطینیوں کی بددعا لگی، جب وہ بیماری میں جکڑا گیا اور ایک مظلوم فلسطینی نے کہا کہ اب نہ یہ جیئے گا نہ مرے گا۔ اور وہ واقعی تمام تر دنیا کی بہترین طبی سہولیات کے باوجود نہ زندوں میں تھا نہ مردوں میں۔ صابرہ شتیلا فلسطینی کیمپوں میں قتل عام کا ذمہ دار۔ 8 سال تک بیروت کا قصاب نیم مردہ حالت میں رہ کر 2014ء میں مرگیا۔ اسرائیل اپنے ہیرو کو ایک منٹ کی خاموشی کے سوا کچھ نہ دے سکا۔ مشرف کی موت بھی بے شمار تنازعوں کے پس منظر میں بلوچستان، قبائل، لاپتگان کی ہزاروں اذیت دہ داستانیں، کتاب میں برملا اقرار، گوانتامومیں 5 ہزار ڈالر کے عوض مسلمان امریکا کے ہاتھ بیچنے کا۔ کشمیر پس پشت ڈال کر بھارت مودی کوکشمیریوں پر کھلی چھٹی دینے کی ذمہ داری۔ ملک کی نظریاتی جہت، بانیان کی امنگوں آرزؤں کے عین برخلاف ناچنے گانے پینے پلانے کی کھلی چھٹی بلاؤں سے بھردینے کی۔ کہاں تک سنو گے…… غرض قومی سطح پر، اُمت کی سطح پر اسلامیت سے غداری کی طویل چارج شیٹ ہے، مظلوموں کی آہوں نے اس کے ایک ایک خلیئے (Cell) میں ناقابل برداشت اذیت بھردی۔ (واحد ہمراہی اس کا کتا تھا!) پاکستان آج تک اس کے کئے کاہرجانہ دے رہا ہے۔ 
یہ واضح رہے کہ معاشرے کے اہم افراد (جو مناصب کی پہچان بھی رکھتے ہوں، ان کی شناخت واضح کرنا، وہ جو علیٰ الاعلان فسق وفجور کا ارتکاب کرتے ہیں، اس کا تذکرہ غیبت میں شمار نہیں ہوتا۔) مقصود ہجو نہیں۔ ردِفسق اور ذمہ دارانہ حیثیت میں مطلوب کردار کی آگہی دینا ہے۔ دنیا انسان کو صرف 2 گز زمین ہی دیتی ہے، اور خالق و مالک، ارض وسماء کی وسعتوں پر محیط لامنتہا نعمتوں بھری لامنتہا زندگی کا وعدہ کرتا ہے! انتخاب آج کرنا ہے کل نہیں! اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز…… جو موت کی ایک ہچکی کے سوا کچھ نہیں!