لاپتہ بلوچ افرادکیس:اب  کوئی اغوا ہوا تو  مقدمہ آئی جی اور سیکرٹری داخلہ  کیخلاف ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ

لاپتہ بلوچ افرادکیس:اب  کوئی اغوا ہوا تو  مقدمہ آئی جی اور سیکرٹری داخلہ  کیخلاف ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد: لاپتہ بلوچ افرادکیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے نگران وزیراعظم، نگران وزیر دفاع اور داخلہ کو ایک بار پھر آئندہ 28 فروری کو سماعت پر طلب کر لیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم، وزیر دفاع، سیکرٹری دفاع، وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ اگر کام نہیں کرسکتے تو عہدے چھوڑ دیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی  نے بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواست پر سماعت  کی۔ سیکرٹری داخلہ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ نگران وزیراعظم کہاں ہے ؟ جس پر  اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نگران وزیراعظم اس وقت کراچی میں ہیں۔ عدالت نے مزید استفسار کیا کہ نگران وزیروں کو بلایا تھا وہ کہاں ہیں؟ ۔  اٹارنی جنرل نے عدالت کے استفسار پر جواب دیا کہ نگران وزیر دفاع اور وزارت داخلہ بھی مصروف ہیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع کہاں ہیں ؟ 

سیکرٹری داخلہآفتاب درانی آج  کی سماعت  میں عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ سیکرٹری دفاع کیوں پیش نہیں ہوئے؟ اس کیس کی آج 24 ویں سماعت ہورہی ہیں، 2022 کی درخواست دائر ہے اور اس پر کمیشن بنایا گیا تھا، ہمیں دو سال لگے اپنے ہی شہریوں کو بازیاب کرنے میں جن کے خلاف کوئی کریمنل کیس بھی نہیں دہشت گردی تو چھوڑیں، ان کے خلاف تو منشیات، قتل، چوری سمیت کوئی کیس رجسٹرڈ نہیں ہے۔ یا پھر یہ لوگ خود بھاگ گئے یا کسی تیسرے نے انہیں اغوا کرلیا، اس صورت میں پھر ریاستی اداروں کی ناکامی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اسلام آباد ایف 6 میں سے بغیر ایف آئی آر ایک شہری کو اٹھا لے گئے، تین حکومتیں لاپتہ بلوچ اسٹوڈنٹس کی بازیابی کا کچھ نہیں کرسکیں، ابھی نگراں حکومت ہے، اس سے پہلے 16 ماہ کی حکومت تھی، اس سے پچھلی حکومت بھی مسنگ پرسنز کے ایشو پر کچھ نہ کرسکی۔

عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ  گزشتہ دو سالوں میں عدالت کے سامنے ان گمشدہ افراد سے متعلق کوئی دستاویزات یا معلومات شئیر نہیں کئیے، سپریم کورٹ میں آپ نے بیان حلفی دی کہ آج کے بعد کوئی بندہ لاپتہ نہیں ہوگا، اسلام آباد کے ایف سکس سے ایک بندہ بغیر ایف آئی آر کے لاپتہ ہے، وزیراعظم کو بلانے کا مقصد یہ تھا کہ ریاست کے وزیر اعظم اپنے کام میں ناکام کیوں ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ وزیراعظم، وزیر دفاع، سیکرٹری دفاع، وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ اگر کام نہیں کرسکتے تو عہدے چھوڑ دیں۔  جبری گمشدگیوں کے حوالے سر اداروں کے خلاف ہمارے پاس چارج ہیں۔


جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری دفاع، سیکریٹری داخلہ، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی سرکاری ملازم ہیں۔ یہ سب افسران جوابدہ ہیں کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ تینوں اداروں کے سربراہوں کی کمیٹی بنا کر ان سے رپورٹ مانگ لیتے ہیں۔ہم کیوں وزیراعظم کو بلائیں؟ جن پر الزام ہے انہی ادارے کے لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنا دیتے ہیں۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ نئی حکومت آئے گی، انہیں پالیسی بنانے کا وقت دے دیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وہ کیا کہیں گے کہ کیا جبری گمشدگیاں ہونی چاہئیں؟ کچھ اداروں کو جو استثنیٰ ملا ہوا ہے وہ نہیں ملنا چاہیے، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ایم پی او آرڈرز کا غلط استعمال کرتے رہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اب عدالتی فیصلے کے بعد وہ توہین عدالت کیس کا سامنا کر رہے ہیں، یونیفارم کی عزت کو بحال کرانے کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ آئی جی کو بتا دیں اسلام آباد میں کوئی اغوا ہوا تو ایف آئی آر ان کے خلاف ہوگی، ساری دنیا دیکھ رہی ہے، یہاں تمام ممالک کے سفارتخانے ہیں، وہ دیکھ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے دارالحکومت میں رہتے ہیں؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وزیراعظم ہوتے تو دیکھتے کہ یہاں کس طرح کام ہو رہے ہیں۔

عدالت میں شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرے گھر پر رات دو بجےچھاپا مارا گیا ، چھاپا مارنے والوں نے ماسک پہن رکھے تھے۔

اس پر جسٹس کیانی نے کہا کہ یہ ایم این اے اور وکیل ہیں، ان کے ساتھ اسلام آباد میں یہ ہو رہا ہے، یہ لکی مروت نہیں، اسلام آباد کی بات کر رہے ہیں۔ اگر یہاں ایک رکن اسمبلی کےساتھ ایسا ہو رہا ہے تو بلوچستان میں عام لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا؟ 

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آئین کی بات کریں تو اب سب ہنستے ہیں، کوئی سیاسی حکومت ہو یا نئی حکومت آنے والی ہو، جواب کمیٹی نے دینا ہے، ہم آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے ڈی جیز پر مشتمل کمیٹی بنا دیتے ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت بطور اٹارنی جنرل آپ تینوں ڈی جیز کو بریف کریں، جو تین رکنی کمیٹی بنارہا ہوں وہ مستقبل میں بھی جوابدہ ہونگے۔

بعد ازاں عدالت نے  نگران وزیراعظم کو  28فروری کودوبارہ طلبکر لیا اور ریمارکس دیے کہ کسی منتخب وزیراعظم کو ابھی نہیں طلب کررہا کیونکہ وہ آکر پھر سرے سے شروع کریں گے، وزیراعظم سے کہہ دیں کہ آئندہ سماعت پر کراچی مت جائے، ہائی کورٹ پیش ہو جائیں۔ نگران وزیراعظم کوئی فل ٹائم وزیراعظم نہیں، ان سے کہیں عدالت آنے میں کوئی مسلہ نہیں۔

مصنف کے بارے میں