ہماری سیاست یا باندر کلاّ……

 ہماری سیاست یا باندر کلاّ……

معذرت کے ساتھ اپنے وطن کی سیاست اور سیاستدانوں کو دیکھیں تو باندر ِکلاّ کا کھیل اور اس کے کردار نظر آتے ہیں۔ اس کھیل میں کھیلنے والے کو بہر طور جوتے پڑنا ہوتے ہیں اور شاذ و نادر ایسا کھلاڑی ہوتا ہے جو اس ”چھترول“ سے بچ سکے کیونکہ یہ کھیل ہی ایسا ہے۔ وطن عزیز میں سیاست کے ایوانوں میں روز ایک نیا تماشا ہوتا ہے جو پہلے سے میل نہیں کھاتا۔ روز سوچتے ہیں کہ شاید آج کا تماشا آخری ہو لیکن ہمارے سیاستدانوں کی غیر سنجیدگی تو دیکھیں جو محض اپنی انا کی تسکین کے لیے مثبت رویے اپنانے کے بجائے قوم اور ملک کو روز ایک نئے عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ملک کی طرف توجہ دینے کے بجائے ہم ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے میں لگے ہیں۔
ہماری عمران خان سے گزشتہ دنوں ایک ملاقات ہوئی جس میں میرے ہی سوال کے ایک جواب میں انہوں نے پارلیمنٹ واپس جانے کا عندیہ دیا جو کہ ملک کو درپیش مسائل کے حوالے سے ایک خوش آئند قدم تھا۔ یہ بیان سن کر لگا تھا کہ سیاسی بھونچال میں شاید کمی آئے کیونکہ حکومت وقت کی بھی یہی منشا تھی۔ اور تو اور سپریم کورٹ موجودہ مخلوط حکومت کی طرف سے نیب قوانین میں کی گئی ترامیم کے حوالے سے عمران خان کی ایک رٹ پٹیشن میں بھی معزز جج صاحبان کے ارشادات بھی کچھ اسی طرح کے تھے کہ اچھا ہے تحریک انصاف پارلیمنٹ میں واپس جا رہی ہے اور امید ظاہر کی تھی کہ اب سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل ہوں گے۔ لیکن اگلے ہی روز وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے ایک سیاسی چال چلتے ہوئے تحریک انصاف کے 35 مزید اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر کے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ بلا شعبہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے یہ ایک اچھی چال تھی لیکن اس میں عوام اور ملک کے لیے کوئی ریلیف نہ تھا۔ ملک و ملت کے لیے مثبت سیاست کے بجائے سیاستدانوں کی ایسی چالوں کی وجہ سے ہی تو ہم آج اس حال کو پہنچے ہیں کہ ہم ڈیفالٹ کے قریب کھڑے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سپریم کورٹ کی آبزرویشن کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر کوئی حل نکالتے لیکن اس کے لیے ملک و قوم سے مخلص ہو کر سوچنے کی ضرورت تھی جو کہ ہمارے سیاستدانوں میں عنقا ہے، بس یکتا ہیں تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں۔
ہمارے ملک میں وسائل کی کمی نہیں اور ہماری اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدان اگر وطن عزیز کے لیے نیک نیت ہو جائیں تو ہم ہر بحران سے نکل سکتے ہیں۔ سنگا پور کی مثال سامنے ہے اس حوالے سے ایک تحریر نظروں سے گزری کہ کس طرح سنگا پور نے ترقی کی اس کے اہم نکات پیش خدمت ہیں۔
1965 تک سنگاپور ملائیشیا کا انتہائی پس ماندہ علاقہ ہوتا ہوا کرتا تھا وہاں کی زمین دلدلی، ویران اور بنجر تھی لوگ سست، بیکار اور نالائق تھے اور یہ صرف تین کام کرتے تھے۔ بحری جہازوں سے سامان اتارنا، چوری چکاری کرنا، بحری جہازوں سے چوہے نکال کر کھانا وغیرہ۔ ملائیشیا ان کی ان حرکات کی وجہ سے ان سے بہت تنگ تھا۔
تنکو عبدالرحمن کے دور میں سنگا پور نے آزادی مانگی اور پارلیمنٹ کے کل 126 ارکان نے سنگاپور کے حق میں ووٹ دے دیے۔ حیرت انگیز طور پر بل کے خلاف ایک بھی ووٹ نہیں تھا۔ پارلیمنٹ کا کہنا 
تھا ہم نے ان بیکار لوگوں اور دلدلی زمین کو اپنے پاس رکھ کر کیا کرنا ہے اور یوں سنگا پور آزاد ہو گیا۔
بے شک آزادی قدرت کی طرف سے سنگا پور کے لوگوں کے لیے پہلا تحفہ تھا دوسرا تحفہ اللہ تعالیٰ نے اسے ’لی کوآن یو‘ کی شکل میں دیا، لی کو آل سنگا پور کے وزیراعظم بنے اور اس شخص نے ان دلدلی زمینوں کا مقدر بدل کر رکھ دیا اور بیس سال بعد 42 بائی 23 کلو میٹر کی یہ سٹیٹ دنیا کی کامیاب اور تیزی سے ترقی کرتی ریاست بن چکی تھی اس میں امن بھی تھا، خوش حالی بھی، روزگار بھی، سرمایہ بھی اور مستقبل بھی۔
خدا کی پناہ 683 مربع کلو میٹر کے سنگاپور کے مالیاتی ذخائر اڑھائی سو بلین ڈالر ہیں اور ہم ”سونے کی چڑیا“ اور ایک ”ایٹمی طاقت“ ہوتے ہوئے، ایک ایک بلین کے لیے ”کشکول“ لیے پھر رہے ہیں۔ سنگا پور دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اقوام عالم کو بتایا کہ ملکوں کے لیے وسائل نہیں ’قوت ارادی‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔
ملکوں کو آبادی، ہنر مندی، رقبہ اور تیل بھی درکار نہیں ہوتا ان میں بس آگے بڑھنے کا ارادہ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے لیڈرشپ بھی چاہیے جب لیڈران ایک دوسرے کی دھوتی پھاڑنے اور عوام کی ہڈیاں نچڑنے میں لگے ہوں گے تو مثبت سیاست کی طرف کون توجہ دے گا۔
لی کو آن یو ایک پوری یونیورسٹی تھے، اس شخص نے دو دہائیوں میں پوری قوم بدل کر رکھ دی۔ یہ منزل حاصل کرنے کے لیے انہوں نے پانچ اہم کام کیے گو کہ ہمارے سماجی اور معاشرتی حالات کے پیش نظر شاید ہم اس پر من و عن عمل نہ کر سکیں لیکن نیت نیک ہو تو شروعات کی جا سکتی ہیں۔
اس تحریر کے مطابق وزیراعظم لی نے سب سے پہلے ملک میں امن قائم کر دیا۔ مذہب کو ذاتی مسئلہ بنا دیا، آپ مسلمان ہیں یا سکھ، عیسائی، بدھ یا ہندو کسی کو کوئی غرض نہیں، مسجد کے ساتھ چرچ، مندر اور ٹمپل بنا دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کوئی شخص، کسی شخص کے مذہب کے بارے میں سوال نہیں اٹھائے گا۔ قانون کی نظر میں سب کو برابر کر دیا گیا ملک میں کوئی کلاس کلچر نہیں تھا۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں تھی، سب برابر تھے اور ہیں۔ ملک میں ہر قسم کے احتجاج پر بھی پابندی لگا دی اور سڑکیں، گلیاں اور بازار ہر قیمت پرکھلے رہیں گے اور کوئی شخص کسی کے لیے سکیورٹی رسک نہیں بنے گا۔ لی کو آن یو نے چن چن کر اہل اور ایمان دار لوگ اہم عہدوں پر تعینات کر دیے اور انہیں کام کرنے کا بھرپور موقع دیا اور انہوں نے ڈلیور بھی کیا۔ سنگا پور کی حکومت قابل اور اہل لوگوں کو دوسرے ملکوں سے بھی بھرتی کر لیتی تھی جبکہ ہمارے ہاں برین ڈرین اتنی تیزی سے ہو رہا کہ ڈر ہے ہمارے پاس صرف چاپلوس اور رٹا پاس رہ جائیں۔
سابق صدر ممنون حسین نے ایک بار بتایا کہ وہ 1999 جب گورنر سندھ تھے تو لی کو آن یو دورے پر آئے۔ انہوں نے ایک تقریب میں کو آن یو سے کہا کہ ہم کراچی پورٹ کو بھی سنگا پور پورٹ کی طرح ڈویلپ کرنا چاہتے ہیں آپ ہماری مدد کریں۔ یہ بات سن کر ’لی کوآن یو‘ دیر تک ہنستے رہے اور پھر بولے کہ آپ کیپٹن سعید سے رابطہ کریں یہ پاکستانی بھی ہیں اور کراچی کے شہری بھی، ہم نے ان کی مدد سے سنگاپور پورٹ ڈویلپ کی تھی۔ ممنون حسین کے بقول یہ سن کر شرمندہ ہو گئے اور دیر تک لی کو آن یو کی طرف دیکھتے رہے۔
لی کو آن یو نے سرخ فیتہ ختم کر کے اپنا ملک پوری دنیا کے بزنس مینوں کے لیے کھول دیا۔ کوئی کہیں سے بھی آ سکتا تھا اور ملک میں کام کر سکتا تھا بس ایک شرط تھی۔ اس کے پاس پیسہ اور تجربہ ہونا چاہیے۔ لی کو آن یو نے تعلیم اور ہنر پر خصوصی توجہ دی، سنگا پور کے تعلیمی ادارے محض تعلیمی ادارے نہیں ہیں یہ ہنر اور اہلیت کی لیبارٹریاں ہیں لہٰذا یہاں جہاں ایک طرف 96 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں وہاں یہ ہنر مند بھی ہیں یہ خود بھی کما رہے ہیں اور ملک کو بھی کما کر دے رہے ہیں۔ لی کو آن یو نے پوری قوم کو تہذیب بھی سکھا دی اور اس کا آغاز شخصی صفائی سے کیا گیا۔ سنگاپور دنیا کے ان چند ممالک میں ہے جس میں آج بھی آپ اگر کسی سڑک یا عوامی جگہ پر تھوکتے، پان کی پیک گراتے یا ناک صاف کرتے پکڑے جائیں تو سیدھے جیل جائیں گے۔ لی کو آن یو نے پورے ملک میں انفراسٹرکچر کا جال بچھا دیا، سنگا پور میں ہائی ویز، میٹروز اور پل اس وقت بنے جب مشرق میں ان کا تصوربھی نہیں تھا۔ پورے ملک میں پینے کا صاف پانی حکومت سپلائی کرتی ہے، آپ کسی بھی ٹونٹی کا پانی پی سکتے ہیں۔
بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا تصور تک نہیں تاہم وسائل کی بچت ضرور کی جاتی ہے۔ فالتو لائٹ اور جلتا ہوا چولہا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر اس ملک کو چلانا ہے تو ہمارے حکمرانوں کو اپنی انا کی جنگ ختم کر کے لی آن یو بننا پڑے گا اور ہم میں یہ اہلیت ہے بس نیک نیتی چاہیے اور اس کے لیے سب کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ دفن کرنا ہو گی ورنہ ہم یوں ہی باندر کلا کھیلتے رہیں گے اور جوتے کھاتے رہیں گے۔
قارئین کالم بارے اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔