مسلم لیگ(ن) کو شکست کیوں ہوئی ؟

مسلم لیگ(ن) کو شکست کیوں ہوئی ؟

ہٹلر نے کہا تھا ’’عوام کی قبول کرنے کی صلاحیت بہت کم،ان کی ذہانت بہت محدود لیکن ان کی بھولنے کی طاقت لا محدود ہوتی ہے۔ ان حقائق کو سامنے رکھنے ہوئے تمام موثر پروپیگنڈے کو بہت کم نکات تک محدود رکھنا چاہیے اور اسے اس وقت تک بجانا چاہیے جب تک عوام کا آخری فرد بھی اس نعرے کا مفہوم نہ سمجھ لے جو آپ اسے سمجھانا چاہتے ہیں‘‘۔
 نواز شریف وزارت عظمیٰ،پارٹی صدارت سے اتارے جا چکے تھے جب انہوں نے ووٹ کا عزت دو کا نعرہ بلند کیا اور یہ وہ دور تھا جب دیواروں کے بھی کان ہوا کرتے تھے، لوگ ا سٹیبلشمنٹ کا نام اس طرح لیا کرتے تھے جیسے دیہات کی خواتین آج بھی اپنے شوہر کو ’’انہوں‘‘ یا ’’مکھن کے ابا‘‘ کہا کرتی ہیں۔ 2018ء کے الیکشن محکمہ زراعت نے ایک پہلوان کو ڈس کوالیفائی کر کے میدان سے ہی باہر کردیا اور عمران خان عوام کے ووٹ چوری کر کے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر قابض ہوگئے۔ مسلم لیگ (ن) نے ووٹ کو عزت دو کا  نعرہ لگایا ، محکمہ زراعت ، خلائی مخلوق کی اصطلاحات مشہور ہوئیں ۔یہ بیانیہ اس قدر طاقتور تھا، نواز شریف اور مریم نواز صاحبہ کی سیاست اس قدر جاندار تھی کہ اس کی گونج پاکستان کے ہر گھر میں سنائی دی، وہ گھٹن زدہ معاشرہ جہاں پر بات کرنا گناہ تھا وہاں پر اب بات ہونا شروع ہوئی ، اصل ذمہ داروں کا تذکرہ ہو رہا تھا، ن لیگ کے رہنمائوں ، سیاسی کارکنوں نے مشکلات سہیں، صحافیوں کو اغوا کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا، نوکریوں سے نکلوایا گیا مگر ووٹ کو عزت دینے کیلئے سب نے ان صعوبتوں کو برداشت کیا۔
دوسرا بیانیہ جو پورے پاکستان میں مشہور ہونے لگا وہ تھا عمران خان کی نااہلی کا، پی ٹی آئی نے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، پاکستان کی معیشت تباہ کر ڈالی، غریب کی زندگی اجیرن کر دی، پاکستان کو عالمی طور پر تنہا کر دیا، سعودی شہزادے کی گھڑیاں فروخت کر دیں۔ عمران خان کی شوفر ڈپلومیسی نے رہی سہی کسر پوری کردی، پنجاب میں کرپشن کے بازار کھل گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ معاشی ماہرین نے اعلان کر دیا کہ پاکستان درحقیقت دیوالیہ ہو چکا ہے۔ 
 ہم اس بات پر بحث نہیں کرتے کہ آخر شہباز شریف کو عمران خان کا گند صاف کرنے کی کیا ضرورت تھی، انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی، عمران خان کرسی سے چمٹ گئے اور انتہائی بے عزت ہو کر اقتدار سے رخصت ہوئے لیکن جاتے جاتے ن لیگ کے دو بیانیے بھی اپنے ساتھ لے گئے جن کی بنیاد پر اگلے الیکشن کے نتائج کا فیصلہ ہونا تھا۔ یعنی ووٹ کو عزت دو اور ناقص کارکردگی۔عمران خان اپوزیشن میں آئے، پی ٹی آئی نے آرمی پر تنقید کی اور ایسی تنقید کی کہ رہے نام اللہ کا۔ ایک دن میں نے سوشل میڈیا کی سرچ بار کو استعمال کیا تو روئے زمین کی کوئی ایسی گالی نہ تھی جو پی ٹی آئی نے آرمی چیف کو نہ نکالی ہو۔ عمران خان نے حد کر دی مگر اس سب کا فائدہ یہ ہوا کہ نواز شریف کی ساری محنت عمران خان نے اپنے کھاتے میں ڈال لی اور سول سپر میسی کے علمبردار بن گئے۔
عمران خان کو جب معلوم ہوا کہ بطور وزیر اعظم ان کا چل چلائو ہے تو پٹرول کی قیمت کم کردی ، اس بات کی پروا بھی نہ کی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ختم ہو جائے گا ۔یہ اس قدر سفاک اقدام تھا کہ پاکستان خدانخواستہ سری لنکا بن سکتا تھا مگر یہ عمران خان کی سیاسی چال تھی اور ن لیگ اس ٹریپ میں آگئی۔ شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کیلئے اور پاکستان کو سری لنکا بننے سے بچانے کیلئے پٹرول کی قیمت بڑھائی اور پھر نااہلی کا جو الزام عمران خان کے سر تھا وہ شہباز شریف کے گلے کا طوق بن گیا۔ یعنی عمران خان جمہوریت کے چے گویرا بن گئے، شاندار سیاستدان بن گئے اور ن لیگ مفاہمت کی پروردہ اور نااہل ترین جماعت بن گئی۔
14اضلاع کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات میں ن لیگ نے بلنڈر کی انتہا کر دی۔ 2018ء میں دس نشستیں پی ٹی آئی نے جیتی تھیں اور 10آزاد امیدوارں نے۔ ووٹوں کی مصدقہ چوری کی وجہ سے ن لیگ ایک بھی نشست نہ جیت پائی تھی تو ن لیگ نے ان تمام جیتنے والے امیدواروں کو ٹکٹیں دے دیں۔ اندازے کی سب سے بڑی غلطی وہاں ہوئی جہاں پر یہ سوچ لیا گیا کہ ن لیگ کے نظرانداز ہونے والے پرانے وفادار اور تجربہ کار سیاستدان نئے امیدواروں کا خندہ پیشانی سے استقبال کریں گے اور پورے دل سے ان کی کمپین چلائیں گے۔مثال کے طور پر راولپنڈی پی پی 7میں 2018ء میں آزاد امیدوار راجہ صغیر احمد 44ہزار 2سو 86ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے۔ انہیں ن لیگ نے ٹکٹ دیدی جبکہ 42ہزار 382 ووٹ لینے والے راجہ محمد علی کو نظر انداز کردیا گیا۔ یہ بھی نہ سوچا کہ جس وفادار سیاستدان نے اس جبر کے دور میں ساتھ دیا، مصائب سہے اور پھر بھی صرف دو ہزار کے فرق سے ہارا وہ اس بار کتنا شاندار پرفارم کرے گا۔ ن لیگ کے شاہ دماغوں کو شاید خیال تھا کہ راجہ صغیر کے 44ہزار اور راجہ محمد علی کے 42ہزار ووٹ ملا کر یہ سارا ووٹ بنک اب پارٹی کے پاس ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے کچھ ایسے وفادارتھے جنہوں نے اب ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پی ٹی آئی میں جانے کے بجائے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنا مناسب سمجھا مگر کچھ ایسے بھی سیاستدان تھے جنہیں ن لیگ کا یہ انداز پسند نہیں آیا جیسا کہ پی پی 90بھکر 2سے عرفان اللہ نیازی اس بار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور کامیابی حاصل کی۔ ان تمام آزاد امیدواروں اور پی ٹی آئی کے منحرف اراکین پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے سیاستدانوں کو نا صرف نظر انداز کیا بلکہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی دفن کر دیا۔
یہ وہ سیاسی غلطیاں تھیں جن کی وجہ سے مسلم لیگ(ن) کو عبرتناک شکست ہوئی لیکن اس کے علاوہ ایک بلنڈر بھی تھا ۔عمران خان اب جمہوریت کے علمبردار تھے، لوٹوں کو للکار رہے تھے مگر اس کے ساتھ انہوں نے ایک بہت بچگانہ اور روایتی بیانیہ رجیم چینج یعنی ’’جو کرا رہا ہے امریکہ کرا رہا ہے‘‘ بھی مارکیٹ میں متعارف کرا دیا۔ تحریک انصاف کی شاندار سوشل میڈیا ٹیم نے اس بیانیہ کو لیکر ایسے ایسے تخلیقی ٹرینڈ بنائے مگر ن لیگ کا سوشل میڈیا سیل ایسے دھنیا پی کر بیٹھا رہا جیسے وہ عدم اعتماد کے بعد اب اگلے دس سال کیلئے حکومت میں آچکے ہیں۔یہ سمجھ لینا کہ ہم جیتے ہیں ، ہماری کارکردگی ہی ہمارا بیانیہ ہے یہ سوشل میڈیا سیل کی بہت بڑی غلطی تھی۔مسلم لیگ(ن) کی یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ پاکستانی عوام کارکردگی کی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں، نہیں پاکستانی عوام پروپیگنڈے پر ووٹ دیتے ہیں، آپ چاہے سیکڑوں ترقیاتی پراجیکٹ بنا لیں لیکن جب تک عوام کو بنیادی شعور نہیں ملے گا وہ ان پراجیکٹس کی افادیت نہیں سمجھ پائیں گے، ایک غریب انسان دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے اور آپ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اورنج ٹرین میںبیٹھ کر آپ کو دعائیں گے گا ؟ نہیں وہ احساس کمتری کا شکار ہو گا، اپنی محرومی میں گم ہو جائے گا اور پھر جب پی ٹی آئی کا پروپیگنڈہ چلے گا اور آپ کا جوابی بیانیہ نہیں آئے گا تو وہی ہو گا جو ضمنی انتخابات میں ہوا۔