ہماری گردن پر کون سوار ہے!

Asif Anayat, Pakistan, Lahore, Naibaat Newspaper, e-paper

پھیرے بازی، سمگلنگ کی دنیا میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ایئر پوائنٹس پر متعلقہ محکمے جو پیشہ ور پھیرے بازوں کو لائن دیا کرتے تھے، فلائٹ آنے پر ان کے کارندے ٹرالیاں لے کر آمد ہال کے اندر آ جایا کرتے۔ ایئر پورٹ پر کام کرنے والے محکمہ جات اور ایجنسیوں کے کارندے جو اس دھندہ میں ملوث ہوتے وہ پوری طرح چوکس ہو کر اپنے اپنے پھیرے بازوں کے سامان کو ہال سے باہر نکلوانے کا بندوبست کرتے۔ غیر مسافر جو پھیرے بازوں کے مقامی کارندے تھے، ٹرالیاں لے کر اندر آتے وہ سامان رکھ کر دھڑا دھڑ باہر آتے۔ عام مسافر سمجھتے کہ یہ بھی مسافر ہی ہیں مگر وہ مسافر نہیں ہوتے تھے۔ مسافروں اور پھیرے بازوں کے کارندے ہوتے تھے جو آمد ہال متعلقہ محکمہ جات کے افسران اور اہلکاروں کے ساتھ پائے جاتے۔ یہ جعلی مسافر صرف ٹرالی پکڑے بغیر کسٹم ڈیوٹی کے سامان ٹرالی پر باہر لے آیا کرتے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غیر ممبرز حضرات کو بھی چاہے وہ مشیر ہیں، ترجمان ہیں جو بھی، عجلت سے گن کر پہلا بل EVM کا منظور کر لیا حالانکہ وہ ممبر نہیں تھے۔ اپوزیشن نے جب دوبارہ گنتی کی بات کی تو سپیکر اسمبلی نے انکار کر دیا۔ بعد میں پیش ہونے والے بل آوازوں کی بنیاد پر قبول، قبول قبول کہہ کر پاس کر دیئے گئے۔
عمران خان کو پورا یقین ہے کہ وہ نہ تو الیکٹیڈ ہیں اور نہ ہی 2011 جیسی مقبولیت کے حامل ہیں حالانکہ تب بھی یہ تیسرے نمبر پر تھے۔
اب ان کا تکیہ غیر ملکی پاکستانیوں پر ہے وہ 90 لاکھ ہوں کم یا زیادہ۔ وہ پاکستان کے حالات سے واقف نہیں ہیں۔ وہ ان ذلتوں سے نکل گئے اور یہاں پر رہنے والوں نے انہیں منت سماجت کر کے بیرون ملک بھجوایا۔ آج وہ اچھی زندگی بھی گزار رہے ہیں اور الحمدللہ اخلاقی اعتبار سے کسی یورپی یا خلیج کے ممالک نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔اکثر بیرون ملک رہنے والے جب بھی آتے ہیں کسٹم ڈیوٹی والی چیزیں ساتھ لا کر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ کے لیے سفارشیں ڈھونڈتے ہیں۔
1986-87 میں میری شادی بھی نہ ہوئی تھی میں امریکہ میں تھا۔ اس وقت 1000ڈالر میں زراعت کے جعلی سرٹیفکیٹ پیش کر کے گرین کارڈ مل رہے تھے۔ یہ ریگن کا آخری دور تھا۔ میرے پاس بہت پیسے تھے مگر گرین کارڈ لینے کے لیے میں سوچ میں پڑ گیا کہ ساری زندگی دوسرے درجے کا شہری رہنے سے بہتر ہے میں اپنے ملک میں اپنے ماں باپ بہن بھائیوں میں جا کر زندگی بسر کروں۔ مسلمان ہر جگہ مسلمان ہوتا ہے جن لوگوں کا وہاں شراب اور سؤر کا کاروبار ہے وہ کیا اپنا کاروبار مقفل کر لیں گے؟۔
الیکٹرانک ووٹنگ اور نیٹ کے ذریعے ووٹ دینے کا حق دینے والے کیا وطن عزیز میں زندگی کے کرب سے گزرنے والوں کو نیٹ پر ووٹ دینے کی اجازت دیں گے۔
EVM پر بحث موخر کرنے کا کہہ کر سب سے پہلے لے آنا ثبوت ہے کہ حکومتی اتحاد کی لگامیں کہیں اور ہیں اور اپوزیشن مقدمات کی دلدل میں اتر چکی ہے۔ میاں نوازشریف تو حق حکمرانی اور ووٹ کو عزت دو کی تحریک کے ساتھ نکلے تھے۔
میرے خیال سے اس تحریک کے نتیجہ میں حق حکمرانی میں سیاست دانوں کے کردار کو محدود ہی نہیں مجبور، مقید، مفلوک الحال اور تذلیل کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ مگر حاکم یہ نہیں سمجھتے کہ جمہور کی خواہش کے خلاف ان پر مسلط رہنے والے فرعون، نمرود اور یزید کہلاتے ہیں اور آج ان کی قبریں کوئی نہیں جانتا۔ فرعون کی ممی جس حالت میں عبرت بنا دی گئی اور تاریخی ثبوت کے طور پر قرآن میں اس کی گواہی ہے۔ موجودہ حکمران آئے کس کام تھے اور کس کام لگ گئے۔ ہر دن ہر وقت ہوس اقتدار کی کثرت ان کی پہچان بن گئی اور پانچ سال پورے کرنا زندگی کی بنیادی ضرورت جبکہ آئندہ پانچ سال میں شاید زندگی بھر اقتدار میں رہنا حسرت بن گئی۔ کیا دنیا کے کسی ملک میں اس طرح بھی قانون سازی ہوا کرتی ہے۔ بدنصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے انگریز کا دور نہیں دیکھا، ہندوستان تک سونے کی چڑیا تھی۔ آج نجم سیٹھی کی چڑیا کیوں بن گئی۔ انگریز نے 90 میں جو دیا وطن عزیز کے حاکموں نے 75 سال میں برباد کر دیا، اپنے رہنما تک قتل کر دیئے، سولی چڑھا دیئے، جلاوطن کر دیئے۔ یہ آزادی ہے، یہ قانون سازی ہے۔ انگریز کی قانون ساز اسمبلی میں کمیٹیاں بنتیں۔ متعلقہ شعبہ کے ماہرین، متعلقہ محکمہ اور لوگوں کی آرا کے ساتھ مفاد عامہ کے لیے قانون سازی ہوتی، بار بار غور ہوتا، سیکڑوں بار سوچا جاتا۔ جبھی تو اس کے قانون جب اِنہوں نے چھیڑا، اگر کوئی فقرہ کھولا وہ ان سے بند نہ ہوا۔ یہ محض اقتدار، کثرت مال، ہوس زر اور بدمعاشی کے بل بوتے پر عوام کے سروں پر سوار ہیں۔ قدرت کا قانون حرکت میں آنے کے لیے کسی اجلاس اور مشورے کا پابند نہیں ہوا کرتا۔ آج ہر شعبہ، ہر ادارہ بے توقیر ہے۔ یہ موجودہ حکمرانوں کا تحفہ ہے کہ ہر شعبہ زندگی کے لوگ باہمی طور پر  برسرپیکار ہیں۔ ہر ادارہ، ہر شعبہ اور اب بیرون ملک اور اندرون ملک پاکستانیوں کی کسر تھی جو پوری ہو گئی۔
معروف سکالر صحافی ڈاکٹر ارشد بٹ نے بتایا کہ اگر حکومت اور اپوزیشن کے اتنے اتنے اراکین ہیں آئینی طریقہ عدم اعتماد، اسمبلی تحلیل کرنا وغیرہ ہیں اور خود ہی کہنے لگے کہ نہیں آئین اور قانون کو دیس نکالا دے دیا گیا اب صرف ایک ان دیکھا حکم آتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ سیاست دانوں کو کاروبار حکومت سے بالکل باہر کر دیا جائے جن کا حکم چلتا ہے ان کو ہی کہا جائے کہ آپ آ جائیے تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ ہمارا گریبان اور ”صفحہ تقدیر“ کس کے ہاتھ میں ہے۔ ہماری گردن پر کون سوار ہے!
عمران خان کی تمام تقاریر 22سالہ بندوبست کس کو یہ ”جدوجہد“ کہتے ہیں، پر ہیں کسی ایک تقریر میں موصوف نے EVM کا کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔ دوہری شہریت حتیٰ کہ آرٹیکل 62/63 کے بھی خلاف تھے۔ یہ جو نام نہاد بل پاس کرائے ہیں کبھی اپنے کسی منشور میں ان کا ذکر کیا تھا؟
دراصل خان صاحب کے پاس کئی ٹرک ہیں ایک کی بتی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر تھک جاتے ہیں تو وہ ٹرک جھاڑیوں میں چھپا کر دوسرا ڈبل بتی والا ٹرک نکال لیتے ہیں۔ سنگاپور، ترکی، چین، ریاست مدینہ، سعودیہ، الطاف حسین کا انداز سیاست، ہٹلر کی پیروی، ارطغرل، بابر، صلاح الدین ایوبی نہ جانے کتنی کہانیاں اور فلمیں ہیں جو عوام کو دکھا چکے ہیں۔ ایک کروڑ بل منظور کرا لیں جب تک عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں بنتے ان کا اقتدار صرف سزا ہے۔ ایک ڈی جی کی تقرری اور توسیع کے لیے جتنا سوچا، محنت کی، پریشان ہوئے اگر عوام کے لیے اس کا اڑھائی فیصد بھی ہوتے تو لوگوں کے دکھ کم ہو جاتے۔