شٹ اپ کال کی ضرورت

شٹ اپ کال کی ضرورت

ملک کی موجودہ صورتحال اور عمران خان کے جلسے،مظاہروں،شوشوں کے باعث جو معاشی ابتری، سیاسی عدم استحکام آئے روز بڑھتا جارہا ہے،اس  کے بارے میں ایک واقعہ یاد آیا،کسی پاگل خانے سے دو سو پاگل، پاگل خانے کو توڑ کر فرار ہوگئے تو منتظمین بہت پریشان ہوئے کہ اب انہیں کیسے عوام میں سے ڈھونڈ کر پکڑ کر واپس لایا جائے تو بڑے غوروفکر اور مشوروں کے بعد کسی صاحب رائے نے یہ رائے دی کہ آپ بانسری بجائیں تو بانسری کی آواز سن کر تمام پاگل واپس آجائیں گے،انہوں نے جب بانسری بجائی تو دوسو پاگل تو واپس آگئے لیکن ان کے ساتھ بارہ سو پاگل او ر بھی پاگل خانے میں آگئے،،عمران خان کے جلسوں کا حال بھی یہی ہے، جہاں نوجوان نسل ناچ گانے سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ عمران خان کے آئے دن نئے شوشوں،لطیفوں سے بھی لطف اندوز ہوتی ہے،ہر آئے دن کے ساتھ ساتھ شرکاء کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے،وہ اسے اپنی سیاسی برتری اور عوام میں اپنی مقبولیت قرار دیتے ہیں جبکہ عوام کو جس سراب کا شکار عمران خان نے کیا اس کا بھانڈہ ان کے پونے چار سال کی حکومت میں پھوٹ چکا ہے،آئے دن ان کے یوٹرنز میں اضافہ ہوتا جارہا ہے،امریکی مخالف ایجنڈا اور امریکی سازش کا ڈھنڈورا پیٹنے کے بعد اب وہ امریکہ سے پینگیں بڑھانے میں مصروف ہیں، نیوٹرلز کے خلاف ہر منفی زہر اگلنے کے بعد جب ان کی دال نہ گلی تو اب ان سے بھی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے،مطالبہ وہی پرانا کہ جلد از جلد الیکشن کروائے جائیں تاکہ موجودہ صورتحال میں وہ اپنی مقبولیت کو کیش کروا سکیں،لیکن نیوٹرلز اور پی ڈی ایم قیادت نے ان کا مطالبہ مسترد کردیا ہے،عمران 
خان کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیسے دوبارہ اقتدار کی مسند پر براجمان ہوجائیں حالانکہ ان کے پاس ان کے پہلے دور حکومت کی طرح نہ کوئی پلان ہے اور نہ ہی کوئی انقلابی حکمت عملی کہ  پاکستان کو جہاں مہنگائی دن بدن بڑھتی اور روپے کی قدر گرتی جارہی ہے کو کیسے ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن کریں گے،بس انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے،انہیں تو بس اقتدار چاہیے،اقتدار کی ہوس نے انہیں بالکل گونگا اور بہرہ کردیا ہے،انہیں یہ قطعی احساس نہیں ہے کہ آج پاکستان کس قدر ابتر معاشی صورتحال کا شکار ہے،سیلاب کی تباہ کاریوں نے کھربوں روپے کی گندم،گنا،کجھور،برسین،پھل،سبزیوں،کپاس اور دیگر فصلوں کو تباہ کردیا ہے،کسان اپنے کچے گھروں سے روڈ پر آگیا ہے،خواتین،بچوں،بوڑھوں کے لئے سرچھپانے کی جگہ تک نہیں ہے،تاجران ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں،اوپر سے بھاری بجلی،گیس،پیٹرول،ڈیزل،ٹیکسوں کے نرخوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہوا ہے،ان حالات میں سیاسی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی اور ان کی قیادت، حکومت کو اپنے سیاسی اختلافات اور الیکشن الیکشن کے کھیل کو ایک طرف رکھ کر متاثرین سیلاب کی بہتری اور ان کے بچاؤ کے بارے میں سوچنا چاہئے،الیکشن پر اٹھنے والے اربوں روپے کے خرچ کے ہم اس وقت متحمل ہی نہیں ہیں،الیکشن نے نہ پہلے عوام کو کچھ دیا اور نہ ہی اب اس سے کوئی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے،سیاسی عدم استحکام نے ملک کی سٹاک ایکسچینج  اور سرمایہ کاروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے،پوری دنیا ہماری مدد کو آرہی ہے اور ہم ہیں کہ ہمیں اقتدار کی بھوک ستارہی ہے،کہاں ہیں عمران خان کے وہ پانچ ارب روپے ہمیں تو کہیں پر خرچ ہوتے نظر نہیں آرہے، تونسہ شریف  میں عمران خان کی خالی امدادی ٹرک ان کی جماعت کی کرپشن اور عوام کے دکھ درد کا مذاق اڑانے کا ذریعہ بنے،اگر ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا جیسا کہ ہے،عمران خان ان کی جماعت اس کی سب سے بڑی وجہ بنے تو نہ صرف متاثرین سیلاب دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے بلکہ ہمارے کاروباری،معاشی،زرعی حالات بھی بہتر نہ ہوں گے،ڈالر کی اڑان جاری رہے گی،ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا رہے گا،غربت کی سطح سے نیچے رہنے والوں کی تعداد دس کروڑ سے تجاوز کرجائے گی،ویسے بھی اب ہماری کرنسی بنگلہ دیش،انڈیا،افغانستان کے مقابلے میں بہت گر چکی ہے،اس لئے ؎ عمران خان ہوش کے ناخن لیں،اپنی ذاتی انا اور اقتدار پرستی کو چھوڑ کر ملک کی فکر کریں،ملک کے بائیس کروڑ عوام کی فکر کریں،اس  سلسلے میں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے کوئی لائحہ عمل تشکیل دیں،بصورت دیگر اگر عمران خان باز نہ آئے توہمارے ارباب اختیار،عدلیہ،نیوٹرلز کو ملک کی بقاء کے سلسلے میں کوئی ٹھوس حکمت عملی پر عمل پیرا ہونا پڑے گا،انہیں ملک دشمن،عوام دشمن جماعت،افراد کو شٹ اپ کال دینی ہوگئی،کیونکہ اگر اب نہیں تو کبھی نہیں کے مصداق ہمارے ملک کو دشمنوں نے چاروں طرف سے معاشی طور پر کمزور کرکے اور قرضوں کے شکنجے میں بھی جکڑ رکھا ہے،وہ ہمارے اندر کی خلفشار کا فائدہ اٹھانے کو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں گے،اگر ہم نے اپنے اندرونی اختلافات کو ختم نہ کیا اور اقتدار اقتدار کا کھیل کھیلتے رہے اور عوام کو نیرو کی بانسری سناتے رہے تو بہت دیر ہوجائے گی۔

مصنف کے بارے میں