بھارت چین پر بازی لے گیا، ہم کہاں کھڑے ہیں

بھارت چین پر بازی لے گیا، ہم کہاں کھڑے ہیں

بھارت آبادی کے لحاظ سے چین پر بازی لے گیا ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دسمبر 2023 میں کی گئی سٹڈی کے مطابق ہندوستان کی آبادی 1 ارب 41 کروڑ اور 70 لاکھ جبکہ چین کی آبادی 1 ارب 41 کروڑ اور 20 لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے اس طرح ہندوستان کی آبادی چین سے 20 لاکھ نفوس زیادہ ہو گئی ہے چین 17.73 ٹریلین ڈالر کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جبکہ گزشتہ برس بھارت جاپان پر برتری حاصل کر کے دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن چکا ہے اس کی معاشی تعمیروترقی کی رفتار دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے۔
ہمیں کتابوں میں معیشت کے بارے میں پڑھایا جاتا رہا ہے کہ آبادی میں اضافہ وسائل پر بوجھ ہوتا ہے اس کی بڑھوتی اور اس کی رفتار کو قابو میں رکھنا ہی بہتر مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے۔ مشہور سماجی سائنسدان مالتھس کے نظریے کے مطابق آبادی کی رفتار، وسائل میں اضافے کی رفتار سے ہمیشہ زیادہ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اگر آبادی کی بڑھوتی پر قابو نہ پایاجائے تو معاشی معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ ہم مالتھس کے نظریے کے پرچارک بھی رہے اور اقوام مغرب سے اس کے نظریے پر عمل پیرا ہونے کے لئے گرانٹس بھی وصول کرتے رہے ہیں لیکن ہم آبادی کی شرح افزائش کو اپنی ضروریات اور زمینی حقائق کے مطابق کبھی بھی استوار نہیں کر سکے ہیں اس طرح ہماری آبادی ہمارے وسائل کے مطابق ترتیب نہیں پا سکی اور آج صورت حال یہ ہے کہ ہماری معاشی صورت حال، فی الاصل نازک ہو چکی ہے ہم اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے قرض پر قرض لینے پر مجبور ہو چکے ہیں ہمارے قرضے اس قدر زیادہ ہو چکے ہیں کہ ان پر سود کی ادائیگی کے لئے بھی ہمیں قرض لینا پڑ رہا ہے ہمارے دفاعی اخراجات بھی پورے نہیں ہو پا رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی کچرا کنڈی بن چکا ہے 3 کروڑ آبادی پر مشتمل شہر کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود اشیا خورونوش درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ آٹے کا حصول،، روٹی نان کی قیمت کا تعین، مرغی و انڈے کی قیمت، دال سبزی اور ٹماٹر تک کی دستیابی اور ان کی قیمتیں متعین کرنے کی مہمیں ہمارے میڈیا میں سرخیوں کے موضوعات ہیں بنیادی ضروریات کی دستیابی مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہم تعمیروترقی کی منزل کی طرف ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو اسی لمحے ہم تین چار قدم پیچھے ہٹتے چلے جاتے ہیں سفر جاری ہے لیکن منزل کا پتہ نہیں ہے کہا جاتا ہے کہ ہماری آبادی بہت زیادہ ہے۔ افزائش آبادی کی شرح ٹھیک نہیں ہے اس لئے ہم غریب ہیں مفلوک الحال ہیں۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں چین نے اپنی آبادی کو ایک ہتھیار کے طور پر تیار کر کے اقوام عالم میں باوقار مقام حاصل کر لیا ہے۔ چینی کہاوت ہے کہ جب ایک منہ کھانے کے لئے دنیا میں وارد ہوتا 
ہے تو وہ کام کرنے کے لئے دو ہاتھ بھی ساتھ لاتا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صرف منہ کو نوالہ مہیا کرنے کا بندوبست نہیں کیا بلکہ ان دو ہاتھوں کو بھی کارآمد بنانے کی کاوشیں کی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے دو ہاتھ تعمیروترقی کا ذریعہ بن گئے انہیں 1 منہ کو روٹی فراہم کرنے کا مسئلہ نہیں رہا ہے چین نے فنی تعلیم اور ووکیشنل تربیت کے ذریعے ہاتھوں کو کام پر لگایا صنعتی و زرعی شعبے کو ترقی دی۔ دولت پیدا کی۔ 60 کی دہائی میں شروع کیا جانے والا انقلابی پروگرام اب اپنے برگ و بار دکھا رہا ہے۔ چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے ایشیا، یورپ اور افریقہ کے براعظموں میں اپنے مفادات کا جال پھیلا چکا ہے۔ چینی مال دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے بھی اپنی آبادی کی قوت کے ذریعے ملک کو دنیا کی تیسری بڑی معیشت کے مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ پہلے پہل انڈیا اپنی آبادی کے باعث دنیا کے لئے عظیم صارف مارکیٹ کے طور پُرکشش تھا پھر یہاں سرمایہ کاری آنے لگی یہاں کی آبادی ہنرمند بنی اور پھر صنعتی شعبے میں انقلاب آ گیا۔ آج بھارت صرف مارکیٹ ہی نہیں بلکہ دنیا کے لئے دیگر حوالوں سے بھی اہم ملک بن چکا ہے۔ ہندوستان نے اپنی کثیر آبادی کو کارآمد بنایا اور اس طرح وہ اقوام عالم میں اہم پوزیشن حاصل کر چکا ہے۔ دور جانے کی بات نہیں ہے ستّر کی دہائی میں بنگلہ دیش عالمی بھکاری مانا جاتا تھا۔ ان کے ٹکے (بنگلہ دیشی کرنسی) کی قدر انتہائی پست تھی 1 پاکستانی روپے کے 3.5 ٹکے ملتے تھے بنگلہ دیش میں افزائش آبادی کی بلند شرح تھی آزادی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اپنی کثیر آبادی کو ایک قوت اور طاقت بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہیں ہنرمندی کے ذریعے کارآمد بنایا آج بنگلہ دیش خطے کا سب سے تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک بن چکا ہے۔ اس کے ٹکے کی قدر میں اضافہ ہے اس کی برآمدات شاندار ہیں، زرمبادلہ کے مستحکم ذرائع ہیں۔ ملائیشیا، انڈونیشیا، تائیوان جیسے ممالک نے بھی اپنی کثیر آبادی کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ تعمیروترقی کا زینہ بنایا۔ جن ممالک نے مالتھس کے نظریے پر عمل کیا آج وہ پریشان نظر آ رہے ہیں کہ ان کے پاس اپنے نظام کو جاری و ساری رکھنے کے لئے افرادی قوت ہی دستیاب نہیں ہے۔ اولڈ ایج پاپولیشن کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے جبکہ ان کی جگہ لینے کے لئے نئی نسل حسب ضرورت دستیاب نہیں ہے۔ انہیں ”انسانوں“ کی شدید ضرورت ہے جو ان کے ہاں پیدا نہیں ہو رہی ہے۔ کبھی وہ افرادی قوت درآمد کرنے کی منصوبہ سازیاں کرتے نظر آتے ہیں کبھی امیگریشن قوانین میں نرمی کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نفوس ان کے ممالک کا رخ کریں اور ان کا نظام چلانے اور تعمیروترقی کو جاری و ساری رکھنے میں ان کے ممدومعاون ثابت ہو سکیں۔ جرمنی نے حال ہی میں 10 لاکھ شامیوں کو اپنا شہری بنانے کا اعلان کیا ہے۔ جاپان میں یوتھ کی تعداد پریشان کن حد تک گھٹ چکی ہے جبکہ بوڑھی افرادی قوت میں ہوش ربا اضافے نے انہیں پریشان کر رکھا ہے۔
پاکستان اس حوالے سے انتہائی خوش قسمت ملک ہے اس کی آبادی 220 ملین سے متجاوز ہے جس کی 65 فیصد تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے یہ شرح پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے یعنی پاکستان اپنی آبادی میں نوجوانوں کی شرح کے حوالے سے دنیا میں اولین پوزیشن رکھتا ہے لیکن معاشی ترقی کے اعتبار سے انتہائی بدقسمت ثابت ہوا ہے۔ ہمارے پاس کروڑوں ہاتھ کام کرنے والے موجود ہیں لیکن ہم ان کے نوالوں کا بندوبست کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے ایسے ادارے جو ان نوجوانوں کو ہنر اور قابل روزگار صلاحیتیں دینے کے لئے قائم کئے گئے تھے اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ایسے ادارے نیوٹیک کی صورت میں مرکز کے زیرانتظام ہوں یا ٹیوٹا کی صورت میں صوبائی حکومتیں چلا رہی ہوں قومی وسائل کو ضائع کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمارے ذمہ داران چاہے وہ سیاستدان ہوں یا سول و ملٹری کے حاکمانِ اعلیٰ ان سب کو اپنی اپنی حکمرانی قائم رکھنے کی جلدی ہے اپنے لئے وسائل اکٹھے کرنے کی جلد بازی ہے یہی وجہ ہے کہ بے پناہ قدرتی و انسانی وسائل کی موجودگی کے باوجود ہم غریب، محکوم اور فقیر بنے پھرتے ہیں جبکہ ہمارے ہی نوجوان چہار عالم جہاں بھی جاتے ہیں اپنے علم و ہنر کے جھنڈے گاڑتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں ہمارے ہاں ایسے ہنر کی پذیرائی نہ ہونے کے باعث معاملات دگرگوں ہیں اور سردست ان میں کوئی جوہری تبدیلی واقع ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔