کنگال جامعات… ہے کوئی پرسان حال؟

کنگال جامعات… ہے کوئی پرسان حال؟

 چند دن پہلے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت میں  " پاک یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی بل"  نامی مسودہ قانون زیر بحث آیا۔ یہ بل وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے سے متعلق ہے۔ قائمہ کمیٹی نے تفصیلی بحث کے بعد اس بل کو مسترد کر دیا۔ کمیٹی کے اراکین کی دلیل یہ ہے کہ اربوں روپے کی لاگت سے وزیر اعظم ہاؤس میں ایک نئی یونیورسٹی بنانے کے بجائے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پہلے سے قائم جامعات کو مضبوط اور مستحکم بنانے پر توجہ مرکوز کرے۔ کمیٹی اراکین کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان بھر میں 141 سرکاری جامعات موجود ہیں۔ ان میں 15 انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔پہلے سے قائم سرکاری جامعات فنڈز کی شدید کمی کی شکایات کر رہی ہیں جبکہ حکومت ایک نئی یونیورسٹی بنانے پر مصر ہے۔ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ ایوان وزیر اعظم عمران خان کی ملکیت نہیں ہے۔ یہ عمارت ریاست کی ملکیت ہے۔ لہٰذا (فرد واحد کی خواہش پر) اس میں یونیورسٹی قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کمیٹی اراکین نے اس اہم پہلو کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی کہ ایوان وزیر اعظم ایک نہایت حساس علاقے میں واقع ہے۔ سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے ریڈ زون میں تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا جاسکتا۔ کمیٹی اراکین نے تجویز دی کہ اس بل میں تجویز کردہ تعلیمی شعبہ جات کوپہلے سے قائم جامعات میں شروع کیا جا سکتا ہے۔اس یونیورسٹی کے لئے مختص اربوں روپے کا بجٹ پہلے سے قائم انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹیوں پر خرچ کیا جانا چاہیے ۔قائمہ کمیٹی کے پانچ اراکین نے اس بل کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ اس کی حمایت میں صرف ایک ووٹ آیا۔ 
ُٓاگر ہم پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے منشور کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہر سیاسی جماعت تعلیم کو اولین ترجیح قرار دیتی ہے۔ تاہم حکومت ملنے کے بعد عملی اقدامات کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ برسر اقتدار آنے سے قبل عمران خان یکساں نظام تعلیم کا نعرہ لگایا کرتے تھے۔ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ ان کی حکومت آئی تو تعلیم پر سب سے زیادہ خرچ کیا جائے گا۔ لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی ترجیحات یکسر تبدیل ہو گئیں۔ یکساں تعلیم کا نعرہ ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ تعلیمی بجٹ بڑھنے کے بجائے سکڑتا چلا گیا۔ اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں اس قدر کٹوٹی کی گئی کہ جامعات کیلئے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔ حالات اس قدر بگڑ گئے کہ کچھ نامور جامعات دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گئیں۔ بہت سی یونیورسٹیوں کو اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہیں دینا دوبھر ہو گیا۔ کچھ جامعات کو بنکوں سے قرض تک مانگنا پڑا۔ابھی تک حالات تبدیل نہیں ہوئے۔ ملک کی بیشتر جامعات مالی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں۔ ایسے حالات میں وفاقی حکومت نے وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کیلئے کمر کس لی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئے چار سال ہونے والے ہیں۔ عمومی طور پر پانچواں یعنی آخری سال الیکشن کی تیاریوں کا سال سمجھا جاتا ہے۔ آخری برس میں حکومتیں اپنا نامہ اعمال مرتب کرتی ہیں۔ لیکن وفاقی حکومت اس آخری سال میں ایوان وزیر اعظم کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی خواہاں ہے۔ یہ منصوبہ اگر شروع ہو بھی جاتا ہے تو اسے مکمل ہونے میں چھ سات برس کا عرصہ درکار ہو گا۔ نجانے ایک سال بعد کس سیاسی جماعت کی حکومت قائم ہو۔کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آنے والی حکومت تحریک انصاف کے اس منصوبے کو قائم رکھنا بھی چاہے گی یا نہیں۔ 
غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو کمیٹی اراکین کی یہ دلیل وزن رکھتی ہے کہ اربوں روپے کی لاگت سے ایک نئی یونیورسٹی قائم کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ پہلے سے قائم سرکاری جامعات کی امداد اور اصلاح کی جائے۔ نامور ماہرین تعلیم بھی اکثر یہ رائے دیتے ہیں کہ نئی نئی یونیورسٹیاں بنانے سے زیادہ ضروری ہے کہ قائم شدہ تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔ عمدہ تحقیق کے رجحان کو فروغ دیا جائے۔ لیکن کیا کریں کہ ہمارے ہاں کی سیاست کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ بس اللہ پاک اس ملک پر رحم فرمائے۔ نجانے کب ہمیں لایعنی سیاسی کھیل تماشوں سے نجات ملے گی۔ دنیا بھر میں تعلیم اور صحت جیسے شعبے نہایت اہم تصور ہوتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ اہم اور حساس شعبے بھی سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ (PKLI)  اس کی ایک مثال ہے۔ ماضی قریب میں بننے والے فلاح عامہ کے اس عمدہ منصوبے کو ذاتی بغض اور سیاسی مخالفت کی بھینٹ چڑھا کر برباد کر دیا گیا۔تاہم جب کرونا کی وبا آئی تو اس ہسپتال کی جدید ترین انفراسٹرکچر کی حامل عمارت سینکڑوں مریضوں کو سنبھالنے اور ان کی صحت یابی کا باعث بنی۔یہی صورتحال شعبہ تعلیم میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ پرویز الٰہی دور کا  " پڑھا لکھا پنجاب"  اور شہباز شریف دور کے  "دانش اسکول "  منصوبوں کی مثالیں بھی ہماری یادداشت میں تازہ ہیں۔ 
ہمارے ہاں مختلف منصوبوں پر اپنے نام کی تختیاں لگانے کا نہایت افسوسناک رجحان موجود ہے ۔ مان لینا چاہیے کہ سیاست دانوں کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ انہیں عوام کو متاثر کرنے کے لئے اپنی کارگزاری دکھانے کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ تاہم تعلیم جیسے شعبے کو سیاست سے مستثنیٰ رکھنا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایسا بھی ہوتاہے کہ فقط کریڈٹ لینے کے لئے کسی چھوٹے سے کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ یا کبھی کوئی حکومت کسی سرکاری یونیورسٹی کے سب کیمپس پر یونیورسٹی کا بورڈ ٹانک کر اس پر اپنا نام کندہ کروانا چاہتی ہے۔ افتتاح کے بعد ان اداروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
 جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو وہ وزیر اعظم ہاؤس، وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاوسز کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ ان قیمتی عمارات کو عوام النا س کے لئے کھول دیں گے۔ وہ بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے یہ تجربہ بھی کیا۔ پنجاب کے گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے کا کام شروع ہوا۔ مگر سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کام کو روکنا پڑ گیا۔ پنجاب اور سندھ کے گورنر ہاؤسز عوام کے لئے کھول دئیے گئے۔ مگر چند دن میں ہی ان تاریخی عمارتوں کا حسن دھندلانے لگا۔ ان املاک کو نقصان پہنچا تو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ یہ کالم لکھ رہی ہوں تو مجھے یادآرہا ہے کہ حکومت سنبھالنے کے چند ماہ بعد عمران خان نے وزیر اعظم ہاوس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ دسمبر 2018 میں ایوان وزیر اعظم میں باقاعدہ ایک بھاری بھرکم تقریب کا انعقاد ہوا تھا۔ چینی سفیر سمیت دیگر ممالک کے مندوبین بھی اس تقریب میں مدعو تھے۔ عمران خان نے اس یونیورسٹی کا باقاعدہ افتتاح کیا تھا۔ ایک لمبی تقریر بھی فرمائی تھی۔ اس کے بعد یہ یونیورسٹی قصہ پارینہ ہو گئی۔ایوان وزیر اعظم کی رونقیں اسی طرح بحال رہیں۔ اس میں تقریبات ہوتی رہیں اور معمول کی میل ملاقاتیں بھی۔ اب حکومت کے آخری سال میں ایک مرتبہ بھر انہیں خیال آیا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل ہونا چاہیے۔ 
سچ یہ ہے کہ دنیا بھر میں سربراہان حکومت مخصوص ایوانوں میں ہی رہتے ہیں۔ ان عمارتوں کا ایک تقدس ہوتا ہے ۔ اورر عب دبدبہ بھی۔ وائٹ ہاؤس کی مثال لے لیجئے۔ لوگ اس کے باہر تصویر کھنچواتے ہیں۔ لیکن ایک خاص حد کو عبور کرنے کی اجازت نہیں۔ ایوان صدر ہویا ایوان وزیر اعظم، گورنر ہاؤس ہو ، ایوان وزیر اعلیٰ یا دیگر سرکاری عمارات، یہ خاص مقصد کے تحت قائم ہوتی ہیں۔ ان میں ملکی اور غیر ملکی اہم شخصیات تشریف لاتی ہیں۔ اہم تقریبات یہاں منعقد ہوتی ہیں۔ حساس میل ملاقاتیں ہوتی ہیں۔یہ عمارات ایک طرح سے قومی ورثہ ہوتی ہیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی صاحب نے بجا فرمایا کہ یہ عمارات کسی ایک شخص یا سیاسی جماعت کی ملکیت نہیں ہوتیں۔ یہ ریاست کی ملکیت ہوتی ہیں۔ ان عمارتوں کو اسی طرح قائم رہنا چاہیے۔ ان کا تقدس بھی برقرار رہنا چاہیے۔ کاش کہ ہمارے ارباب اختیار ان کھیل تماشوں سے آزاد ہو کر عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کریں۔ انہیں مہنگائی، بیروزگاری، دہشت گردی وغیرہ سے نجات دلائیں۔ انہیں تعلیم، صحت اور رہائش کی سہولتیں مہیا کریں۔ عوام الناس کے اصل مسائل یہی ہیں۔سچ یہ ہے کہ کسی اونچے ایوان میں ایک یونیورسٹی قائم ہونے سے عوام کو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔

مصنف کے بارے میں