کیا پی ٹی آئی ٹریپ ہو گئی ہے؟

کیا پی ٹی آئی ٹریپ ہو گئی ہے؟

اگر بات کی جائے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان صاحب کی سوچ، خیال اور نظریات کی تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ وہ سیاست میں یو ٹرن لینے کوقطعی طورپر معیوب نہیں سمجھتے بلکہ ان کے خیال کے مطابق تو بڑا سیاستدان بننے کے لیے اس قسم کی حرکات انتہائی ضروری ہیں۔ اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ویسے تو عمران خان خان صاحب کا سیاسی کیرئیر یو ٹرنز سے بھرا پڑا ہے لیکن ان یو ٹرنز میں سب سے دلچسپ حصہ ان کے قومی اسمبلی سے متعلق بیانات اور مختلف ادوار میں ان کی پالسیاں ہیں۔ 
ماضی میں ہم نے دیکھا کہ موصوف کس طرح قومی اسمبلی کے بارے میں اپنی رائے اور موقف تبدیل کرتے رہے۔ کبھی اسی اسمبلی پر لعنت بھیجنا شروع ہو جاتے ہیں کہ جس میں پہنچنے کے لیے ہر قسم کے پاپڑ بیلے تھے، اور کبھی اس ساری لعنت،ملامت کو بھول کر پھر جا کر اسی اسمبلی میں براجمان ہوجاتے ہیں، کبھی اسی ایوان کی بدولت اقتدار کی کرسی پر بیٹھائے جانے کے باوجود اس ایوان میں آنے تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے تو کبھی اسی ایوان میں اپنے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد سے ڈیل کرنے کے لیے ہر قسم کے غیر آئینی اقدامات تک کرنے پر رضامند نظر آتے، اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اس قدر جذباتی ہوتے ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے اپنے پارٹی ارکان کے استعفے دلوا دیتے ہیں۔ 
یہ سب تو ہمارے خان صاحب کے ماضی کے کارنامے تھے۔ لیکن اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے جن اراکین سے استعفے دلوائے گئے تھے (ان میں سے گیارہ نشستوں پر ضمنی انتخاب بھی ہو چکا)اب انہیں دوبارہ اسمبلی میں بھیجنے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے۔ گویا قومی اسمبلی نہ ہوئی کسی پیسنجر ٹرین کا ڈبہ ہو گیا کہ جب جس کا دل چاہے چڑھ جائے اور جب مرضی اتر جائے۔ 
ویسے تو خان صاحب کو اپنی زگ زیگ سیاست کی اہمیت اور اس کے مخالف پارٹیوں پر اثرات کا بخوبی اندازا ہونا چاہیے لیکن شائد ایسا ہے نہیں۔ اسی لیے وہ حکومت سے نکالے جانے کے باوجود ہر قسم کے فیصلے ڈکٹیٹ کرانا چاہتے ہیں۔ماضی میں کسی نہ کسی وجہ سے ان کا یہ طرز عمل قابل قبول رہا ہو گالیکن ہوا کا رخ اب بدل چکا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اب کی بار پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے بھی خان صاحب کو انہیں کے انداز میں جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یقینا یہ اسی سیاست کا حصہ ہے کہ عمران خان صان صاحب کی جانب سے قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ ملتے ہی پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفے قبول کرنے کی دوسری فیز میں پینتیس اہم ترین ارکان کے استعفے قبول کر لیے گئے ہیں جبکہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اس سلسلہ کی تیسری یا چوتھی فیز بھی آ سکتی ہے۔ 
اب دیکھتے ہیں کہ عمران خان صاحب پی ڈی ایم کی اس سیاسی چال کا کیسے جواب دیتے ہیں کیونکہ اب تک کی صورتحال میں تو ایسا نظر آ رہا ہے کہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد جو نگران سیٹ اپ تشکیل پانا ہے اس سے خان صاحب کو خود ان کی اپنی سیاسی پینترے بازی کے نتیجہ میں آؤٹ کر دیا گیا ہے۔ 
اس معاملہ کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی مزکورہ پینتیس نشستوں پر ضمنی انتخاب ہونے کی صورت میں پی ڈی ایم نے اس میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی اس ریس میں پی ٹی آئی اکیلے ہی دوڑے گی۔ ہاں البتہ خان صاحب اور ان کی جماعت کے لیے حوصلہ افزا بات یہ ہو گی کہ اول تو یہ کہ ان کی جماعت کے امیدوار کے کامیابی یقینی ہے اور دوئم یہ کہ الیکشن میں ان کی پارٹی پہلے نمبر پر ووٹ بھی حاصل کرے گی۔ واضح رہے کہ پچھلے ضمنی انتخاب میں عمران خان صاحب سات نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے جن میں سے انہیں چھ نشستیں خالی کرنے کی ہدایات مل چکی ہیں۔ اگر خان صاحب مزکورہ پینتیس کی پینتیس نشستوں پرالیکشن لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور بالفرض ان تمام پر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو بھی انہیں ایک سیٹ کے علاوہ باقی تمام سیٹوں سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ یعنی تقریباً اتنی ہی نشستوں پر ایک اور ضمنی انتخاب ہو گا۔ غرض اگر عمران خان صاحب اور ان کی پارٹی کسی اور طرح ملک کو اقتصادی طور پر نقصان نہیں پہنچا سکے تو پلان یہ نظر آتا ہے کہ پے در پے ضمنی انتخابات کرواکے ہی سرکاری خزانے پر بوجھ ڈالا جائے۔  
بظاہر تو ضمنی انتخابات کی اس سیاست میں بھی پی ٹی آئی کے ہاتھ کچھ آتا ہوا نظر نہیں آتا البتہ کسی نہ کسی طور اسے نقصان ضرور اٹھانا پڑے گا۔ سب سے پہلے تو یہ حرکتیں کر کے یہ اپنے آپ کو غیر سنجیدہ سیاستدان ثابت کریں گے اور اس کے نتیجہ میں عوام کا ان پراعتماد  متزلزل ہو گا۔بہت زیادہ امکانات ہیں کہ عمران خان صاحب بنفس نفیس ہی ان تمام حلقوں سے الیکشن لڑنا پسند فرمائیں گے؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو وہ ہر حلقہ کے ووٹر کو کیسے یقین دلا پائیں گے کہ وہ قومی اسمبلی میں ان کے حلقہ کی تمائندگی کریں گے اور ایک مرتبہ پھر سے مستعفی ہو کر راہ فرار اختیار نہیں کر لیں گے۔ موصوف اور ان کی پارٹی بالفرض ووٹرز کو ایک مرتبہ چکر دینے میں کامیاب ہو بھی گئے تو یہ لوگ چند ماہ بعد عام انتخابات کے موقع پر کس منہ سے انہیں ووٹرز کے پاس جائیں گے۔
پی ٹی آئی کی منصوبہ بندی میں مزید دراڑ ڈالنے کے لیے گزشتہ روز شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ستائیس جنوری تک موخر کر دیا گیا ہے۔ یقینا اس التوا کی وجہ یہی ہے کہ ان سات دنوں میں پی ٹی آئی کے کچھ مزید اراکین قومی اسمبلی کے استعفے قبول کر کے انہیں بھی اسمبلی سے آؤٹ کر دیا جائے۔
قومی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا اندازا تو آنے والے چند ہفتوں میں ہو ہی جائے گا لیکن سر دست ایک بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ یہ استعفے قبول کر کے پی ڈی ایم اتحاد نے ایک تیر سے کئی شکار کر ڈالے ہیں۔ سب سے پہلے تو قومی اسمبلی میں ہلڑبازی اور اسے مچھلی منڈی بنانے کا منصوبہ ناکام ہوا، پھر نگران وزیر اعظم کی نامزدگی کے لیے ہونے والی بدمزگی سے جان چھٹی، اور سب سے بڑھ کر پی ٹی آئی کو ضمنی انتخاب کے جنجال میں الجھا کر عام انتخابات میں ان کی پوزیشن کمزور کرنے کی بھی بھرپور تدبیر کی ہے۔