حکومتی تبدیلی اور اقتصادی زبوں حالی

حکومتی تبدیلی اور اقتصادی زبوں حالی

مہنگائی نے ہر ایک کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے۔ ریٹیل اشیاء کی قیمتوں میںاس قدر اضافہ سے عوام پر جو بوجھ عائد ہو رہا ہے اس کے نتیجے میں انہیں کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں، دال چاول سے لے کر سبزی اور خوردنی تیل، دودھ کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں اورا یسا لگتا ہے کہ حکومت کا اس پر کنٹرول نہیں ہے اور حکومت ان پر قابو پانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے۔ دراصل اس جانب حکومت کی کوئی توجہ ہی نہیں ہے حکومت کی جو اپنی ترجیحات ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ عوام پر عائد ہونے والے بوجھ کی کوئی پروا نہیں ہے۔ا س کی ترجیحات یکسر مختلف ہیں حکومت سیاسی حساب کتاب میں مصروف ہے اس کی ترجیحات میں صرف سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہی سرِ فہرست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے کوئی اقدامات کئے جا رہے ہیں اور نہ ہی عوام کی مشکلات دور کرنے کے لئے کسی حکمتِ عملی کا تعین کیا جا رہا ہے معیشت تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے ایک فرد کے ہاتھ میں سونپ رکھی ہے جو صرف آئی ایم ایف کو خوش کر کے کے سمجھتا ہے کہ ملک کے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے۔ وہ اپنی مرضی کے اقدامات کئے اس بات سے بالکل ہی بے فکر ہے کہ اس کے اثرات کیا مرتب ہوں گے یا عوام کس طرح ان حالات کا سامنا کر پائیں گے یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں مہنگائی سب سے زیادہ ہو گئی ہے تو ساتھ ہی بیروزگاری کی شرح میں بھی بہت اضافہ ہو تا جا رہا ہے، روپے کی قدر الگ سے گرتی جا رہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قیمت تاریخ کی انتہائی بلند سطح 225 روپے ہو چکی ہے، صنعتی پیداوار پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، چھوٹے موٹے کاروبار تو ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔ حکومت صرف سیاسی مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حکمتِ عملی بنانے میں مصروف ہے۔ حکومت بیانات کے علاوہ معیشت کے انحطاط اور افراطِ زر کی شرح میں اضافہ سے ہونے والے اثرات پر توجہ دینے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ حکومت کو دلچسپی ہے تو حقائق کو منظرِ عام پر لانے والے صحافیوں پر مقدمات بنائے جائیں تا کہ وہ اصل صورتحال عوام تک نہ پہنچا سکیں۔ گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے افراطِ زر کی شرح کس طرح بڑھ رہی ہے اس کے اثرات کیا ہو رہے ہیں اس پر توجہ ہی نہیں ہے حکومت صرف اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔ حکومت کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ غریب عوام 
کے پیٹ میں دو وقت کی روٹی جا رہی ہے یا نہیں۔ حکومت نے شرح سود میں بھی اضافہ کر دیا ہے، ایسی صورتحال میں جب مہنگائی ہر شہری کا بنیادی مسئلہ بن چکی ہے اور توانائی کی روز افزوں مہنگائی قوتِ خرید کا بری طرح امتحان لے رہی ہے شرح سود میں اضافہ صنعتی جمود اور کساد بازاری میں اضافے کا سبب بنے گا۔ حکومت کی توجہ سیاسی معاملات ہیں جب کہ معیشت روز بروز نڈھال ہوتی جا رہی ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی نوجوان اکثریتی آبادی کے لئے روزگار کے مواقع چاہئیں وہاں صنعتکاری کے فروغ اور ترقی کا کوئی روڈ میپ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ترقی پذیر دنیا سے مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ جہاں شرح سود 15 فیصد ہو وہاں قرض لے کر کسی کاروبار میں سرمایہ لگانا اس سے قرضے کے سروس چارجز ادا کر کے کاروباری منصوبے کو نفع بخش بنا لینا کسی کرشمے سے کم نہیں۔ بلند شرح سود سے مراد ہے کہ لوگ اپنی بچتیں کاروبار میں لگانے کی بجائے بینکوں میں رکھیں اور اس منافع سے اپنے روز مرہ کے معاملات کو چلائیں۔ یہ چیز لوگوں کو سرمایہ کاری سے اجتناب اور معاشی اعتبار سے جمود کا شکار ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔
میری ذاتی رائے میں حکومتوں کی جانب سے عام اور معمول کے حالات میں عوام کو سہولتیں پہنچانا کوئی کمال نہیں بلکہ ان کا اصل امتحان ناگہانی حالات میں ہوتا ہے جب عوام کو حکومتوں کے عوام موافق اقدامات اور فیصلوں کی شدید ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کورونا جیسے حالات میں کس طرح عوام کے ساتھ کھڑی ہو گئی جس کو دنیا بھر سے سراہا بھی گیا۔ مگر موجودہ حکومت نے تیل کی قیمتوں میں اس قدر زیادہ اضافہ کر کے ثابت کیا ہے کہ وطنِ عزیز میں حالات خواہ کچھ بھی ہوں عوام دشمن اقدامات ہوتے رہیں گے۔ معمولی سے معمولی چیز بھی عوام کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ روز مرہ ضروریاتِ زندگی کی ایسی کوئی چیز نہیں بچی جس کے دام آسمان کو نہ چھو رہے ہوں۔ پہلے ہی لوگوں کی آمدنیاں کم ہو چکی ہیں، لاکھوں لوگوں کا روزگار چھن چکا ہے، جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم اور صحت پر اخراجات کرنا مشکل ہو رہے ہیں۔  حکومت حاصل کرنے کے بعد بے شمار مسائل کی یکسوئی میں ناکامی اور نا اہلی کے بعد حکومت نے سارا نزلہ عوام پر گرا دیا ہے۔ 
بڑی حیرت کی بات ہے کہ عوامی حلقوں میں پریشانی، بد اعتمادی اور نفرت کے بڑھتے ہوئے حالات کے باوجود ہمارے سیاست دانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، سیاست دان ان حالات سے کچھ سبق سیکھتے الٹا ان کی ہٹ دھرمیوں اور من مانیوں میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں ہر قسم کی اخلاقی گراوٹ کا ایسا گھٹیا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کیونکہ ان شخصیات سے ایسے اعمال غیر شعوری طور پر سر زد نہیں ہوتے بلکہ وہ یہ سب کچھ دیدہ و دانستہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ کر گزرتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ ہمارے لیڈر اپنی ریشہ دوانیوں اور چالاکیوں کی بدولت ہر جائز احتساب سے بچ نکلتے ہیں، یہ سب ایسے کمال کے موقع پرست ہیں کہ ان کا ایجنڈا پیسہ پھینک اور تماشا دیکھ بن چکا ہے اور ان سب نے مل کر پورے نظام کو برباد کر رکھا ہے۔ انہی کی کارستانیاں ہیں کہ آج ہر ایک کی زبان پر یہی بات ہے کہ کہیں پاکستان دیوالیہ نہ ہو جائے۔ 
بڑی حیرت کی بات ہے کہ عوامی حلقوں میں پریشانی، بد اعتمادی اور نفرت کے بڑھتے ہوئے حالات کے باوجود ہمارے سیاست دانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، سیاست دان ان حالات سے کچھ سبق سیکھتے الٹا ان کی ہٹ دھرمیوں اور من مانیوں میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں ہر قسم کی اخلاقی گراوٹ کا ایسا گھٹیا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کیونکہ ان شخصیات سے ایسے اعمال غیر شعوری طور پر سر زد نہیں ہوتے بلکہ وہ یہ سب کچھ دیدہ و دانستہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ کر گزرتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ ہمارے لیڈر اپنی ریشہ دوانیوں اور چالاکیوں کی بدولت ہر جائز احتساب سے بچ نکلتے ہیں، یہ سب ایسے کمال کے موقع پرست ہیں کہ ان کا ایجنڈا پیسہ پھینک اور تماشا دیکھ بن چکا ہے اور ان سب نے مل کر پورے نظام کو برباد کر رکھا ہے۔ انہی کی کارستانیاں ہیں کہ آج ہر ایک کی زبان پر یہی بات ہے کہ کہیں پاکستان دیوالیہ نہ ہو جائے۔
آج نچلے طبقے کا بہت برا حال ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے وہ ایک وقت کا کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔  جب ہم نچلے طبقات یعنی مزدور، کسان عام غریب طبقے کی بات کرتے ہیں جن کی تعداد پاکستان میںتقریباً 60 فیصد ہے تو ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا ان طبقات کا شمار انسانوں میں ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے تو انہیں انسانوں کی طرح زندہ رہنے کا حق کیوں نہیں دیا گیا؟ ملک اور معاشرے میں جو پیداوار ہوتی ہے خواہ وہ زرعی ہو یا صنعتی یہ سب مزدور اور کسان کی دن رات کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اگر بات یہی ہے تو پھر مزدوروں او رکسانوں کو باعزت باوقار انسانوں کی طرح زندہ رہنے کا حق کیوں نہیں دیا جاتا؟ جن لوگوں کی محنت سے معاشرے میں رونق ہے انہیں اس قدر بے رونق کیوں رکھا گیا ہے؟

مصنف کے بارے میں