کشتِ ویران اور بارانِ رحمت!

کشتِ ویران اور بارانِ رحمت!

دھرتی خشک ہو چلی تھی، پانی کہ حیات اور علم کا لافانی استعارہ ہے، اس کی سطح وجودِ امکان سے نیچے اور بہت نیچے چلی گئی تھی، اُمید کی جگہ ناامیدی نے ڈیرے ڈال دیے تھے، تپتی دھوپ میں بولنے والے ہونٹوں پر پیڑے جم گئے تھے، ذکر کرنے والی زبان بھی تالو سے لگ چکی تھی، بس ایک قلب کے طاقچے میں امید کا موہوم سا دیا ٹمٹما رہا تھا — عقل و خرد کے برزجمہر ہلاکت کے فتوے دے چکے تھے کہ اچانک ٹھنڈی ہواؤں کا جھونکا سوئے کشتِ ویران آن نکلا— مرسلات بارانِ رحمت کی اطلاع دینے کے لیے پہنچ گئیں۔ دھرتی، پیاسی دھرتی، بوند بوند رحمت کو ترسی ہوئی دھرئی نے اَز سرِ نَو حیاتِ نَو کا سانس بھرا۔ فصلِ اُمید پھر سے لہلہانے لگی۔
بس نااُمّیدی منع ہے، اُمّید کا دامن دراز ہے، اسی سے بندھے رہنے میں عافیت ہے۔ حدیثِ قدسی ہے ’’میں بندے کے گمان کے مطابق ہوں‘‘ عربی فصاحت و بلاغت میں زبانوں کی سردار زبان ہے، اُردو گو ابھی عہدِ طفولیت میں ہے، لیکن اس کاعہدِ شباب آیا چاہتا ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں اور کہنے والے پھر کہتے ہیں کہ آنے والے زمانے کی روحانی زبان یہی زبانِ اردو ہو گی، گرچہ آتی ہے آتے آتے۔ یہاں اُردو ترجمے میں لفظ ’’گمان‘‘ سے فہم کی دنیا میں کچھ بدگمانی کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔ دراصل اُرود میں گمان یا ظن بالعموم منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اچھے معانی دینے کے لیے اس کے ساتھ کوئی اچھا سا لفظ ’’حسن‘‘ یا ’’خوش‘‘ بطور سابقہ لگانا ہوتا ہے، جیسے ’’خوش گمان‘‘ اور ’’حسنِ ظن‘‘۔ یہاں ترجمے میں لفظ گمان میں ’’گ‘‘ اضافی ہے، یعنی اگر ’’مان‘‘ کہہ دیا جائے تو معانی اور رحمت تک رسائی کی اُمّید بَر آتی ہے — ’’مان‘‘ بمعنی کسی اچھے سلوک کی اُمّید اور توقع!!
بہرطور دل ہو یا دھرتی جب بنجر ہونے کے قریب ہو جائے تو اپنے رب کی طرف سے کسی ٹھنڈی ہوا کے چلنے کی آس کے آسن بیٹھ جانا چاہیے۔ قادرِ مطلق اسباب سے بے نیاز ہے، اپنے بندوں سے بے نیاز نہیں۔ وہ اپنے لاپروا بندوں سے بھی لاپروا نہیں۔ بعض اوقات ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اپنے غافل بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہے۔ اقبالؒ بھی اس مشاہدے میں شکوہ کناں نظر آئے کہ ’’رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر‘‘ فارمولے پر چلنے والے اسے ’’مہلت‘‘ کا نام دیں گے، لیکن کیا عجب وہ اپنی شانِ بے نیازی میں اس مہلت کے بعد بھی مہربانی فرمائے، سئیات کو حسنات میں بدل دے، معصیت کو مغفرت میں اور سامانِ عبرت کو سرو سامانِ نعمت میں۔ بے شک وہ اپنی ذات میں ’’صمد‘‘ ہے، اس کی شانِ صمدیت ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، وہ کسی فارمولے کا محتاج نہیں، وہ فاطر ہے، قوانینِ فطرت تشکیل دیتا ہے — لیکن مخلوق کے لیے — اپنے لیے نہیں۔ وہ ہر قانون سے بالا اور ہر کلیے سے ماورا ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے، کسی کو معاف کرنے کے لیے اسے کہیں سے اجازت درکار نہیں ہوتی۔ شفاعت کرنے والوں کو اس کے ہاں سے اذن ضرور درکار ہوتا ہے، اسے شفاعت قبول کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں۔
برسبیلِ تذکرہ ’’صمد‘‘ کا ترجمہ بھی کسی نے شانِ 
بے نیازی میں ’’بے نیاز‘‘ کر دیا اور ایسا ابھی تک چلتا آ رہا ہے۔ زبان ترقی کر گئی، ڈکشن بدل گئی، لفظوں کے مفاہیم تبدیل ہو گئے لیکن ہمارے ہاں مقدس کلام کے ترجمے کو بھی ’’مقدس‘‘ سمجھ لیا جاتا ہے اور کسی آیت یا حدیث کے متن کی طرح ترجمے کے الفاظ بغیر کسی تحقیقِ نَو کے آگے بیان کر دیے جاتے ہیں۔ یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ گزشتہ صدی کا ترجمہ آج کی دنیا میں ایک نوجوان کی فہم کی تختی پر کیا تاثر اور تصویر بنائے گا۔ معروف حدیث ہے ’’انّما الاعمال بالنّیات‘‘، اس کا ترجمہ کئی سو سال سے ہوتا چلا آ رہا ہے ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘ درست، اس میں کوئی شک نہیں۔ سوال یہ ہے کہ لفظ ’’دار و مدار‘‘ آج کی اُردو میں کتنا مستعمل ہے؟ آج کا نوجوان اس لفظ سے کس حد تک آشنا ہے؟ کیا موزوں ترجمہ یہ نہ ہو گا کہ ’’اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے‘‘۔ آج کے انگریزی لکھنے پڑھنے والے بچوں کو مزید یہ سمجھایا جا سکتا ہے کہ اس کا مطلب ہے depends upon، یعنی Deeds, indeed depend upon intentions دراصل ’’دارومدار‘‘ یا ’’انحصار‘‘ بھی لفظ ’’با‘‘ ( یعنی ساتھ) کا ایک تشریحی ترجمہ ہے۔ — اصل اور مختصر لفظی ترجمہ تو یہی بنے گا اور یہی کافی ترجمہ ہے کہ اعمال نیّتوں کے ساتھ ہیں۔ اس حدیث کی تشریحات تو بزرگوں نے اپنے اپنے انداز میں کی ہوئی ہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے پنجابی شعر میں اس مفہوم کو یوں سمجھایا ہے:
نیتاں دے گل سہرے پیندے
نیتاں دے گل پیندے پھاہ
(یعنی اچھی نیت سر کا سہرا ہے اور بُری نیت ہو تو گلے کا پھندا ہے)
لفظ ’’صمد‘‘ کے ترجمے کی بابت ایک واقعہ سن لیں، محفل میں اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی اور اس پر ایک تاریخی واقعہ یاد آ رہا تھا، عزیزم راحت مصطفیٰ نے یہ واقعہ پوری صحت کے ساتھ راقم کو یوں ارسال کیا:
’’عطاء اللہ شاہ بخاریؒ فرماتے ہیں کہ میں جیل میں تھا تو مجھے خیال آیا کہ قرآن مجید کا وہ ترجمہ پڑھنے کی سعادت حاصل کروں جو حضرت شاہ عبدالقادرؒ نے لکھا ہے۔ میں نے قرآن مجید منگوایا اور پڑھنا شروع کیا، جب میں اللہ الصمد پر پہنچا تو ’’اللہ الصمد‘‘ کا جو معنی شاہ عبدالقادرؒ نے کیا تھا، وہ میں نے اس سے پہلے نہ سنا، نہ پڑھا تھا۔ حضرت نے اللہ الصمد کا معنی ’’نراسترک‘‘ لکھا ہوا تھا جو مجھے سمجھ نہ آیا۔ میں بڑا بے چین ہو گیا۔ پھر مجھے خیال آیا، جیل میں ہندو پنڈت بھی قید ہے، اس سے ’’نراسترک‘‘ کا معنی پوچھتا ہوں۔ میں اس پنڈت کے پاس گیا، اس سے ساری بات کی اور کہا کہ نراسترک کے کیا معنی ہیں؟ میرا پوچھنا تھا کہ پنڈت وجد میں آ کر جھومنا شروع ہو گیا۔ میں کافی پریشان ہو گیا کہ میں نے معنی پوچھا، اسے دیکھو کیا ہو گیا۔ کافی دیر کے بعد وہ اپنی کیفیت میں واپس آیا تو میں نے اسے کہا اللہ کے بندے میں نے تو ’’نراسترک‘‘ کا معنی پوچھا اور تُو وجد میں آ گیا، ایسا کیا ہے؟ پنڈت نے جواب دیا، سُن سکے گا؟ میں نے جواب دیا، ہاں! کیوں نہیں! پنڈت بولا تو پھر سن ’’نراسترک‘‘ سنسکرت زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں ’’وہ جس کا کام کوئی روک نہیں سکتا اور اگر وہ چاہے تو کسی کا کام ہو نہیں سکتا — ’’اللہ الصمد‘‘ شاہ صاحب فرماتے ہیں، بس اس کے بعد مجھے کوئی ہوش نہ تھی، پتہ نہیں کب تک میری یہ کیفیت رہی۔
بس! میرا معبود، میرا مطلوب اور مقصود صمد ہے، وہ ایسا صمد ہے کہ جب وہ کسی خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اس خیر کو کوئی روک نہیں سکتا — میری کوتاہی عمل بھی اس خیر کو نہیں روک سکتی۔ میں اس سے نیک گمان میں ہوں، بلکہ ایک گونہ مان میں ہوں کہ وہ میرے ساتھ میرے اعمال کے مطابق نہیں بلکہ اپنی رحمت کے مطابق سلوک کرے گا، کوئی وجہ نہیں کہ جب میں اس کا یہ فیاضانہ سلوک اس دنیا میں دیکھتا ہوں تو مستقبل قریب یا بعید اور مابعد میں اس کی بے پایاں فیاضی کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاؤں۔ جب میرے دل کی دھرتی خشک اور بنجر ہو جاتی ہے تو بھی میں اس کی طرف سے چلنے والی مرسلات کا انتظار کرتا ہوں — وہ مرسلات جو مبشّرات ہیں، باران رحمت کی خوش خبری لے کر چلتی ہیں، اور کشتِ ویراں کو کشتِ اُمید میں بدل ڈالتی ہے۔ ناحق نہیں کہ کشتِ ویراں کے آباد ہونے میں اقبالؒ کبھی نا اُمّید نہ تھا — بس ایک ذرا سی شرط کے ساتھ کہ ’’ذرا سا نم‘‘ چاہیے۔ وہ نَم اس پُرنم آنکھ میں وافر موجود ہے۔ خارج میں موسلا دھار بارانِ رحمت سے پہلے باطن میں نم ضروری ہے۔ بحمد للہ!! یہ نم آنکھ میں آنسو اور دل میں گدازکی صورت میں موجود ہے۔
پھر کس لیے ہے میرے گناہوں کا احتساب؟
جب واسطہ دیا ہے تمہارے حبیبؐ کا
واصفّ علی تلاش کرے اب کہاں تجھے
دُوری کو جب ہے تجھ سے تعلق قریب کا

مصنف کے بارے میں