سوشل میڈیا کے مداری

سوشل میڈیا کے مداری

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک مداری آیا اس نے بادشاہ سے التجا ہ کی کہ وہ اپنا ایک کرتب دکھانا چاہتاہے ۔ بادشاہ نے اسے  کرتب پیش کرنے کی اجازت دے دی ۔ اگلے دن کرتب دکھانے والا  بادشاہ کے دربار میں حاضری کے لیے پہنچ گیا۔ دربار لگ گیا، وزیر اور مشیر اپنی اپنی مخصوص جگہ پر براجمان ہو گئے ۔اتنے میں صدا بلند ہوئی کہ بادشاہ سلامت آرہے ہیں ۔ بادشاہ سلامت آئے اور تخت پر براجمان ہوگئے ۔

بادشاہ کے خاص نوکر نے کہاکہ مداری اپناکرتب دکھانا چاہتاہے۔ بادشاہ نےاجازت دے دی ۔اُس نے اپنی جیب سے دو سوئیاں نکالیں ،سب کو دکھایا اور کہا کہ میرا کمال یہ ہے کہ میں دور سے کھڑے ہو کر ایک سوئی کو دوسری سوئی کے سوراخ میں سے پھنسا دوںگا ۔ سب حیرانگی سے مداری کو دیکھنے لگے۔بادشاہ سے اجازت لیکر اس نے ایک سوئی دور کھڑی کر دی خود کچھ دوری پر کھڑا ہو گیا۔بادشاہ سے اپنا کرتب دکھانے کی اجازت طلب کی اجازت ملتے ہیں اس نے دور کھڑے ہوکر دوسری سوئی پھینکی جو بالکل کھڑی کی گئی سوئی کے نکے میں جا گھسی۔مداری اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ ایک سوئی دوسری سوئی کے نکے میں جا اٹکی ۔

باشادہ سمیت سارا دربار حیران تھا سب نے داد دی ۔ بادشاہ نے اس مداری سے پوچھا کہ تم نے یہ کس طرح کیا ؟ کتنا عرصہ لگا اس کو سیکھنے میں ؟ اسنے جواب دیا کہ اس کو سیکھنے میں میری عمر صرف ہو گئی ۔ بادشاہ نے اپنے وزیر کو کہا کہ اسے انعام کے طور پر اشرفیاں دی جائیں ۔مداریجب اپنا انعام لے چکا اور جانے لگا تو بادشاہ نے شاہی دربان سے کہا کہ اسے دس کوڑے بھی لگائے جائیں ۔ یہ سن کر سب حیران تھے کہ ابھی تو بادشاہ نے اسے انعام دیا ابھی وہ اس کو کوڑے مارنے کی سزا کیوں دے رہے ہیں۔تماشا گیر نے بادشاہ سے پوچھا کہ اس نے تو کوئی غلطی یا گستاخی نہیں کی تو پھر اسے سزا کیوں دی جارہی ہے ۔ بادشاہ نے کہا کہ انعام تو تمہیں تمھاری صلاحیت پر ملا ہے جو کہ کسی کے بس کی بات نہیں لیکن افسوس اس بات پر ہےکہ تم نے ساری عمرایک چھوٹےسے ہنر سیکھنے میں لگادی اپنی صلاحیتوں کے مطابق تم کوئی اور کام کرتے تو شاید ساری دنیا کی بھلائی ہوتی ۔

اب آیئے اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھئے کتنے ایسے انسان ہیں جو ساری عمر ، عمر کا ایک حصہ یا زندگی کا زیادہ وقت ان کاموں کو سیکھنے میں لگا دیتے ہیں جن کو سیکھنے کے بعد کسی بھی طرح کا فائدہ نہیں ہوتا۔ ہماری نوجوان نسل سوشل میڈیا پر اس طرح فرفتہ ہے کہ ان کو دن یا د رہتا ہے نا رات، بس وہ صرف وقت کا ضیاع شوق سے کرتے ہیں۔مگر کیا کریں ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کتنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔سوشل میڈیا پر روزانہ سینکڑوں کی تعدا دمیں ایسی ویڈیو آتی ہیں جنہیں صرف چند لائیکس کے لیے کتنے مہینوں کی کوشش کے بعد بنایا جاتاہے ۔ گزشتہ دنوں جاپان کے ایک شہر میں سڑک میں اچانک گڑھا پڑ گیا وہ اتنا بڑا گڑھا تھا کہ ہمارے ملک میں ایسا ہوتا تو شاید ایک مہینے سے زیادہ کا عرصہ صرف اسے بھرنے میں لگ جاتا لیکن جاپان کے متعلقہ محکمے نے دو دن کے اندر گڑھے کو بھرکر سڑک کو بالکل اس طرح ہی بنا دیا کہ آپ یہ کہہ نہیں سکتے کہ سڑک کبھی ٹوٹی بھی تھی ۔

مگر ٹھہریئے جاپانی محکمے نے اپنے شہریوں سے صرف اس لیے معذرت کی کہ مقررہ وقت میں کام مکمل نہیں ہوسکا۔ مطلب یہ کہ جس کام میں صرف ایک ادھ گھنٹہ ہی دیر ہوئی تھی ۔ اب خود اندازہ لگا لیں کہ ایک طرف وہ قوم ہے جو مہینے سے زیادہ وقت کا کام صرف چند گھنٹوں میں کرنے کے بعد بھی تھوڑی دیر ہونے پر معذرت کر رہی ہے ۔ اور ایک طرف ہم ہیں جو اپنا سارا وقت سوشل میڈیا پر ضائع کرتے ہیں ۔ جب کسی طالب علم سے سوشل میڈیا کے فوائد کے بارے پوچھا جائےتو وہ صرف سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کا طریقہ تو بتا دیتاہے جس کو اس نے سالوں کے استعمال کے بعد ہی سیکھا تھا لیکن وہ یہ نہیں بتا سکتاہے کہ اگر یہ بند ہو جائے تو پھر کیا کرے گا اس میں کیا کیا فیچرز ہیں۔

ہائے افسوس کے ہم مغربی دنیا کو تو صبح شام کوستے رہتے ہیں لیکن وہ اسی سوشل میڈیا کا استعمال کر کے کمائی سے لیکر نئی سے نئی ٹیکنالوجی کو دنیا کے سامنے لارہے ہیں۔ایک طرف وہ مداری ہے جو ساری عمر صرف کرکے بے تکا سا فن سیکھتا ہے جس کا کسی دوسرے انسان  کوفائدہ نہیں۔ تو دوسری جانب پاکستانی نوجوان نسل ہے جو اپنا قیمتی ترین وقت سوشل میڈیا پر بربادکرکے یہ سمجھتی ہے کہ انہوں نے کوئی کے ٹو کی پہاڑی سَر کرلی ہے۔اگر دیکھا جائے تو وہ مداری اپنے فن سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہا تاہم سوشل میڈیا کے فلاسفر آزادی اظہار رائے کے نام پرپاکستانیت  کو برُی طرح نقصان پہنچا رہے ہیں اور سیکھ بھی کچھ نہٰں رہے۔آپ کے خیال میں مداری کو بادشاہ نے  10کوڑوں کی سزا دی تو انہیں کیا سزا ملنی چاہیئے؟

مصنف کے بارے میں

محمد اکرم شانی  سینئیر صحافی, بلاگر  اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہیں ،آج کل  نیو ٹی وی نیٹورک سے وابسطہ ہیں.