سویلینز کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے ، منگل تک فیصلہ دے دیں گے: چیف جسٹس

سویلینز کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے ، منگل تک فیصلہ دے دیں گے: چیف جسٹس
سورس: File

اسلام آباد: چیف جسٹس نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بغاوت پر اکسانے پر سویلین کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو سکتا ہے۔ یہ کہنا کہ سویلین کاکبھی فوجی ٹرائل نہیں ہو سکتا درست نہیں۔ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ منگل تک کیس کا فیصلہ دے دیں گے۔

فوجی عدالت میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پروقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہو ئی تو سابق جسٹس جواد ایس کے وکیل خواجہ احمد حسین نے لارجر بینچ کی استدعا کر دی۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ اگر عدالت سمجھتی ہے کہ میرے کیس میں ٹھوس وجوہات ہیں تو لارجر بینچ بنا دیں، یہ بہت اہم کیس ہے، اس سے ایک مثال سیٹ ہو گی۔

 جس پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ کی بات میں وزن ہو گا تو دیکھیں گے، آپ بات کریں تو سہی۔ 

جسٹس یحییٰ آفریدی نے لارجر بینچ کی استدعا پر ریمارکس دیئے کہ ہم 7 ججز ہیں اور ذہن میں رکھیں کہ ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی کیس میں 7 ججز کا فیصلہ ہے۔ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ڈسٹرکٹ بار کیس میں فل کورٹ بینچ تھا لیکن اکثریتی فیصلہ 8 ججز کا تھا۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے واضح کیا کہ یہ درخواست کسی سیاسی جماعت یا کسی تنصیب پر حملے کی حمایت نہیں کرتی، موجودہ درخواست بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہے، آرمی ایکٹ کا مقصد افواج میں ڈسپلن برقرار رکھنا ہے، سویلینز کا کورٹ مارشل کر کے بنیادی حقوق کو مجروح کیا جا رہا ہے۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ درخواست ہے کہ سویلینز کا کورٹ مارشل غیر آئینی ہے، جب سول عدالتیں فعال ہیں تو سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئین کے کون سے بنیادی حقوق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے متاثر ہوں گے؟

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ آرٹیکل 9، 10 اور 25 میں دیے گئے حقوق متاثر ہوں گے، 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ 7 رکنی بینچ کو آرمی ایکٹ سیکشن 2 ڈی ون کالعدم کرنے سے نہیں روکتا، اگر عدالت سمجھتی ہے کہ 21 ویں ترمیم فیصلے کے بعد ہاتھ بندھے ہیں تو لارجر بینچ ہی بنا لیں۔

جسٹس منصور نے کہا کہ میں کمفرٹ ایبل ہوں گا اگر اتنا رکنی بینچ بیٹھے جتنے بینچ نے 21 ویں ترمیم کا فیصلہ دیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کیس میں عدالت نے کہا کہ فوجی عدالتیں مخصوص حالات کے لیے ہیں، اس فیصلے میں جنگی حالات جیسے الفاظ استعمال کیے گئے۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ موجودہ حکومت کا مؤقف ہو کہ آج کل جنگی حالات ہیں۔

وکیل خواجہ احمد حسین دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کورٹ مارشل سے بنیادی حقوق ختم ہو جاتے ہیں۔ آرٹیکل 10 کے مطابق شفاف ٹرائل کا حق ہر شخص کے پاس ہے جبکہ آرٹیکل 25 ہر شہری کی عزت نفس کی ضمانت دیتا ہے

وکیل نے کہا کہ کورٹ مارشل سے عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ  نے استفسار کیا کہ کورٹ مارشل کوئی ٹیم کرتی ہے؟  جس پر وکیل احمد حسین نے کہا کہ کورٹ مارشل کیلئے ایک آفیسر کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دی جاتی ہے۔

جواد ایس خواجہ کے وکیل احمدحسین نے  مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ فئیر ٹرائل یا سویلینز کو مدنظر رکھ کر نہیں بنایا گیا ، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا بین الاقوامی ممالک میں بھی سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ ہر ملک کا اپنا قانون ہے برطانیہ میں سویلینز کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے ، سینئر کمانڈ کے فیصلوں کے بعد کیا فوجی عدالت میں کوئی افسر فئیر ٹرائل کو فالو کر سکتا ہے ؟ اپنے مقدمے کے آپ خود جج نہیں بن سکتے ، چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کن سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو سکتا ہے ؟ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ملٹری افراد کے علاؤہ سویلینز کے حقوق کا تحفظ دیا گیا ہے ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سویلینز میں تو ہر شہری آتا ہے کیا ٹرائل صرف مخصوص افراد کا ہو سکتا ہے ؟ 

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ سویلینز کی تعریف کیا ہو گی،  کیا ریٹائرڈ آرمی افسران بھی سویلینز میں آئیں گے ؟  وکیل احمد حسین نے 1975 کے سپریم کورٹ فیصلوں کا حوالہ  دے دیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ تو آرمی سے متعلق ہی قانون ہے تفریق کیسے کریں گے،آپ کہہ رہے ہیں آرمی ایکٹ کو بنیادی حقوق کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاتا،پھر آپ کہتے ہیں نہیں یہ سویلین کی بات بھی کرتا ہے اسے عدالت دیکھے۔  آرمی ایکٹ افواج پر لاگو ہوتا ہے لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ سویلینز پر بھی لاگو ہو گا۔   انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق چلنے کا قائل ہوں ، اندر کے راستے تلاش نہیں کرتا۔  آئین اجازت ہی نہیں دیتا آرمی ایکٹ کے جائزے کی تو ٹھیک یا غلط کا فیصلہ کیسے کریں۔ سپریم کورٹ کو یہ حق کہاں سے حاصل ہوا  کہ آرمی ایکٹ کا جائزہ لے سکے؟ آرمی ایکٹ میں کچھ بھی ہے ہمیں تو اس کا جائزہ لینے کی اجازت   نہیں۔ 

وفاقی حکومت کے وکیل اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں کوئی شخص گرفتار نہیں ہے،  پشاور میں چار لوگ زیر حراست ہیں،  پنجاب میں ایم پی او کے تحت اکیس افراد گرفتار ہیں، انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 141 افراد گرفتار ہیں، سندھ میں 172 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 345 افراد گرفتار ہوئے اور 70رہا ہوئے، ایم پی او کے تحت 117 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ فوج کی تحویل میں کوئی خاتون اور کم عمر نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی صحافی اور وکیل فوج کی تحویل میں ہیں، کے پی کے میں دو بچے تحویل میں تھے ،ملٹری کسٹڈی میں ایک پر شک تھا کہ وہ اٹھارہ سال سے کم ہے،اس بچے کا ٹیسٹ کروا رہے ہیں، اگر اٹھارہ سال سے کم ہوا چھوڑ دیا جائے گا۔ پالیسی فیصلہ ہے کہ بچے اور خواتین آرمی کی حراست میں نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صحافیوں سے متعلق کیا پالیسی ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نو مئی کے واقعات پر کسی صحافی کو حراست میں نہیں رکھا گیا، وفاقی حکومت کی صحافیوں کے خلاف کاروائی کی کوئی پالیسی نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت دو صوبوں میں نگران حکومت ہے، مہربانی کر کے صوبائی حکومتوں سے رابطہ کریں، صوبائی حکومتوں سے صحافیوں اور وکلاء سے متعلق پالیسی کا پوچھیں، بینچ کے کچھ ممبران کو صحافیوں اور وکلاء سے متعلق تحفظات ہیں۔

چیف جسٹس نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بغاوت پر اکسانے پر سویلین کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو سکتا ہے۔ یہ کہنا کہ سویلین کاکبھی فوجی ٹرائل نہیں ہو سکتا یہ درست نہیں۔ سویلینز کو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں لانے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔ دیکھنا ہو گا جج نے کس بنیاد پر مقدمات فوجی عدالت منتقل کیے۔ فوج انسداد دہشتکردی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دے سکتی ہےمگر فوج کو سویلینز کی حوالگی میں ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی۔

بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔ 

   

مصنف کے بارے میں