ہمیں کچھ سوچنا ہو گا!

ہمیں کچھ سوچنا ہو گا!

پھر وہی شور جو مکمل سکوت سے پہلے سنائی دیتا ہے چار سو پھیل چکا ہے۔بھانت بھانت کی بولیاں اور برساتی مینڈکوں کی طرح اپنے اپنے تالابوں سے نکل کر اہل ”عقل ودانش“نے عجیب و غریب بیانات عوام کی طرف اچھالنا شرو ع کردئیے ہیں۔کیا پاکستان کا آئین پاکستانی عوام کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے ناکافی ہو چکا ہے یا پھر اداروں کے لات، منات، عزی، نائلہ اور ہبل کادیوتائی تکبر برتری کے ثبوت کی خاطر صرف اپنی جھوٹی اورناقابلِ فہم اناؤں کی جنگ جیتنے کیلئے سب کچھ داؤ پر لگانے کیلئے تیار ہو چکا ہے؟ کیا یہ وہی حالات ہیں جن میں مانوس اجنبیوں کے قدموں کی چاپ اقتدار کے ایوانوں کے گرد سنائی دینا شروع ہوجاتی ہے؟ کیا اس بار بھی اجنبی ہی 75 برس پرانے واقف کار اداروں میں مفاہمت کیلئے کچھ سال کیلئے اپنا ”کردار“ ادا کرنے کیلئے تشریف لائیں گے؟ کیا یہ درست نہیں کہ زمینی حقائق ہمارے آسمان پر اڑتی لاتعداد مردہ خور گدِھوں کی بار بار نشاندہی کررہے ہیں؟کسی کو”برآمد شدہ دانش“ مل رہی ہے اور کوئی اپنی دستیاب ”عقل ِناقص“ سے ہر معما حل کرنے کا تہیہ کر چکا ہے اور اپنے کیے ہوئے فیصلے کو حرف آخر سمجھ بیٹھا ہے۔پاکستان بحرانوں سے نکل کر ایک ”مہا بحران“کے دہانے پر پہنچ چکا ہے لیکن ہم سب کچھ ہار کر بھی اپنی برتری کی جنگ جیتنے کیلئے بضد ہیں۔جس کا امکان معدوم ہو تا جا رہا ہے کہ شکست سامنے نظر آ رہی ہے۔ممکن ہے فرد کامیاب ہو جائے لیکن فلسفہ ناکام ہوجائے گا۔
اخلاقی قوانین کو اگر علیحدہ رکھ کر دیکھیں تو ایک حقیقت سامنے کھڑی مسکرا رہی ہوتی ہے کہ دنیا کے تمام فوج داری اورریاستی قوانین ہمیشہ بالا دست طبقات نے ہی بنائے ہیں اور بالادست طبقات کبھی اخلاقی قانون سازی نہیں کرتے۔ اس کیلئے کسی طرز ِ حکومت، جغرافیے اور اشرافیہ کی قید نہیں دنیا کہ ہرطبقاتی معاشرے میں یہ کھیل تماشا ہوتاہے وہ خواہ امریکہ ہو یا افریقا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔پاکستان میں گزشتہ 75برس سے برسرِ اقتدار رہنے والے ہر حکمران طبقے پر قانون یوں نازل ہوا ہے جیسے ساون بھادوں میں رحمت باری تعالی کا نزول ہوتا ہے۔سب کی اپنی اپنی قانونی صلیبیں تھیں لیکن ان پر مصلوب یہ بالا دست طبقات خود نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ہمیشہ ہر عہد کی نسل کو مصلوب کیے رکھا۔یہی ہماری تاریخ ہے اور یہی ہماری قانونی وراثت۔اب اس پر فخر کرنا ہے یا شرمندگی تو یہ فیصلہ بھی بالا دست طبقات کے ہی دائرہ قدرت میں آتا ہے۔جمہوری نظام سے ہز ار ہا محبتوں کے باوجود اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ”یہ ایک ایسا طرز حکومت ہے جس میں منظم اقلیت حکمرانی کرتی ہے“۔جب کہ اکثریت ہمیشہ سٹرکوں پریا تنگ و تاریک گھروندوں میں سینہ کوبی،زنجیر زنی اور ماتم و گریہ میں مصروف ہوتی ہے۔پاکستانی عوام تک کسی جمہوریت کے ثمرات ابھی تک نہیں پہنچے۔
موجودہ حکمرانوں نے بھی اپنے پیش روں کی تاریخ کو متاثر کیے بغیر قانون سازی کی اس رسم کو زندہ و جاوید رکھا ہے۔آج بھی اگر اداروں کے درمیان تصادم کی بات ہو رہی ہے تو اس کی وجہ کوئی ایسا قانون نہیں جس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے ہیں بلکہ یہ سب کچھ بالا دست طبقات کے مفادات کی جنگ ہے جس میں دونوں اطراف پرانی اورنئی اشرافیہ کھڑی ہے۔ ا ب تو شک ہونا شروع ہو گیا ہے کہ جمہوریت پر شب خون کے بجائے ایکس سروس مین کے ذریعے سابق باغی جرنیلوں کے بچوں کو اکھٹا کرکے جمہوری کھیل کھلوایا جا رہا ہے اور اُن کے قائد کو پاکستان کے آئین اور قانون سے بالاتر قراردے دیا ہے۔ یہ عجیب و غریب سیاسی جنگ 
بنتی جارہی ہے۔ جنرل ایوب خان کا قبیلہ ٗ جنرل ضیا الحق کا بیٹا ٗ جنرل اختر عبد الرحمان فاتح افغانستان کا نسلی تواتر ٗ جنرل امتیاز ورائچ کے بیٹے کی خدمات اور انگنت نامعلوم ایکس سروس مین ڈائریکٹ اور بذریعہ اولاد ایک سیاسی جماعت میں شامل ہو چکے ہیں۔ اب اِن کا مقصد اگر پاکستان کو آرمی کلب بنانا ہے تو پھر یہ جمہوریت کا جعلی ڈھونگ رچانے کی ضرورت کیا ہے؟ چکوال ٗبہاولپور اورکوئٹہ تک پھیلا یہ سلسلہ کیا کسی پلان جمہوریت کا نقشہ ہے یا یہ خود رو پودے اپنے تئیں کوئی حکومت بنا کر پاکستان کے تمام اداروں کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔غربت ٗ افلاس ٗ بھوک ٗ ننگ ٗ ناانصافی ٗ بیروزگاری اور ایسی دوسری لعنتوں کے خلاف جنگ اگر کوئی ہارے گا تو وہ صرف پاکستانی عوام ہوں گے جن کا مینڈیٹ ایک بار پھر غیر محسوس طریقے سے فضائی گدھیں اڑا لے جائیں گی اوراِن کے حصے میں آئے گی ایک ذلت آمیز زندگی۔ جمہوریت یا آمریت تو اب بعد کی بات ہے اصل مقصدتو اس ریاست کو بچانا ہے جو ایک معمابن کر رہ گئی ہے۔ جس کے اداروں کے غیر محدود اختیارات نئے انداز میں پاکستانی عوام کے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اورعوام ہے کہ اُسے ہر صبح منیر نیازی کے شعر کی تفسیر بنانا پڑتا ہے  
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو 
میں اک دریا کے پار اترا تومیں نے دیکھا
ایک بار پھر اوورسیز پاکستانیوں کو شہریت دینے کی بات سر اٹھا رہی ہے جبکہ خود پاکستانیوں کے پاس عزت و آبرو سے زندگی گزارنے کیلئے کوئی روڈ میپ ابھی تک میسر نہیں۔ نیازی حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کیلئے قانون سازی کی لیکن موجودہ حکومت نے اُسے ختم کر دیا۔ پاکستان کے جمہوری اورغیر جمہوری حکمرانوں میں ایک قدر تو مشتر ک پائی جاتی ہے کہ انہوں نے جو قانون بھی بنانا ہو راتوں رات بنا لیتے ہیں۔ہمار ی جمہوریت پر تو یہ الزام بھی نہیں لگایا جا سکتا کہ جمہوریت میں فیصلے دیر سے ہوتے ہیں۔ابھی کل کی بات ہے کہ دوہری شہریت اور توہین عدالت پر قانون سازی نے تو جنرل ضیاء الحق کے جاری کردہ تیز ترین فرمانوں کو مات دیدی تھی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف مرحوم نے صرف شوکت عزیز نامی شخص کو پاکستانی بنانے کیلئے آرڈیننس جاری کیا تھا اوراُس وقت عدلیہ بھی موجود تھی اور احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی لیکن اُس وقت کسی کو اعتراض نہیں تھا۔دوہری شہریت کا قانون کچھ لوگوں کے نزدیک غیر اسلامی تھا جبکہ دوسرا گروہ اسے غیر آئینی قرار دے رہا تھا،تیسرے کے نزدیک یہ غیر اخلاقی جبکہ مشرف حکومت اسے ”جلا وطن“ پاکستانیوں کیلئے بہترین قانون قرار دیتے ہوئے اُن لوگوں کو ملکی دھارے میں لانے کی بات کررہی تھی۔پہلی بات تو یہ ہے کہ انسانوں کے بنیاد ی حقوق کے مطابق کسی شخص کی پیدائشی شہریت کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا یعنی زمین پر بسنے والا ہر شخص کسی نہ کسی ریاست کا شہری ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اسامہ بن لادن کی شہریت اُس کی موت کے بعد بھی تسلیم نہیں کی گئی تھی۔مسئلہ تو دوسری شہریت کا ہے،کسی دوسرے ملک کی شہریت لینا یا رکھنا بھی کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اہم بات تو یہ ہے کہ ہر پیشہ کی علیحدہ علیحد ہ صلاحیت،ذمہ داریاں،دائرہ کار اور طریقہ کار ہوتا ہے۔اب کسی انجینئر سے تو ہارٹ سرجری کرائی نہیں جا سکتی اور اسی طرح کسی جج کو بھی جرنیل کے اختیار ات دے کر جنگ کی ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی سو کسی ایسے شخص کو پاکستان کی تمام خفیہ معلومات سے کیسے باخبر کیا جا سکتا ہے جو کسی دوسری ریاست (جس کے بارے میں عوام ناپسندیدگی کا اظہار بھی کرتی ہو)کی شہریت بھی رکھتا ہو۔ایسا کرنا اپنی ریاست 
کا ہر اہم راز دوسرے ممالک کو بھیجنے کے مترادف ہو گا جس کی گنجائش کم از کم سیاسیات میں تو نہیں دی جا سکتی۔ اگر ”گلوبل ولیج“کے نام نہاد نعرے کو بنیاد بنا کر صرف کنٹینروں کیلئے سرحدیں اٹھائی جا رہی ہیں تو سب سے پہلے امریکہ اور برطانیہ کو آگے بڑھ کر دنیا کے تمام ممالک کیلئے اپنی شہریت کے دروازے کھول دینے چاہئیں تاکہ افریقا اورایشیا کے مزدور بھی امریکہ اور برطانیہ جا کر ملازمت کر سکیں لیکن وہ ایسا کسی صورت نہیں کریں گے کیونکہ انہیں حکومت کرتے ہوئے صدیاں بیت گئیں لیکن اپنا باوا آدم ہی نرالا ہے ہم نہ دینے پر آئیں تو ضروریات زندگی اور آزادی بھی دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے لیکن فراخ دل ایسا ہیں کہ دینے پرآئیں تو روٹی ٗ کپڑا ٗمکان اور شہریت کیا آدھے سے زیادہ ملک کو نئی شہریت دے کر بنگلہ دیش بنا دیتے ہیں۔ جس کیلئے پھر تیاریاں کی جا رہی ہیں لیکن یہ سمجھ سے باہر ہے کہ اس بار قینچی کہاں پر چلانی ہے؟ اس کیلئے ہمیں ابھی کچھ سوچنا ہو گا ٗ اس سے پہلے کہ ہمارے آسمانوں پر آدم خور گدھیں اڑنا شروع ہو جائیں۔