افغانستان کی بے یقینی

Rana Zahid Iqbal, Daily Nai Baat, Urdu Newspaper, e-paper, Pakistan, Lahore

افغانستان میں 20 سالہ جنگ کا جس انداز میں خاتمہ ہوا وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ خود طالبان کو بھی توقع نہیں تھی کہ اتنی آسانی اور تیزی کے ساتھ پورے افغانستان اور دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیں گے۔ امریکہ افغانستان کو ایک خوفناک اور طویل خانہ جنگی میں جھونک کر روانہ ہوئے تھے لیکن جس برق رفتاری سے طالبان نے ضلع کے بعد صوبائی اور اس کے بعد ملک کے دارالحکومت پر قبضہ کیا اس نے ان تمام تجزیہ نگاروں کے اندازے غلط ثابت کر دئے۔ افغانستان کی غیور اور حریت پسند قوم نے عصری دور کی ایک سوپر پاور کی افواج کو بے نیل و مرام افغانستان کی سر زمین چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ دنیا کے نقشے پر اب افغانستان ایک آزاد اور مقتدر ملک کی حیثیت سے جانا جائے گا۔ اس اندیشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ طالبان کے قبضے کے بعد وہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی، قتل و غارت کا بازار گرم ہو جائے گا، لیکن یہ سارے خدشات غلط ثابت ہوئے۔ اس طرح اپنوں کا خون بہائے بغیر طالبان نے افغانستان کا انتظام سنبھال لیا۔ طالبان نے عبوری حکومت قائم کر دی ہے جب کہ ابھی دنیا نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور تمام دنیا طالبان کی مستقبل کی حکمتِ عملی جاننے کے لئے بے چین ہے۔ طالبان اپنے آپ کو افغانستان کی اسلامی امارت کہتے ہیں۔ اس وقت افغانستان اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے۔ اس بات کا اعلان کر دیا گیا ہے کہ اماراتِ اسلامی افغانستان اب ایک آزاد اور مقتدر ملک ہو گا۔ 
مغربی میڈیا ایک سازشی تھیوری کے تحت طالبان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے۔ انصاف کا تو یہ تقاضا ہے کہ طالبان کو ان کی آئندہ کی کارکردگی کی بنیاد پر پرکھا جائے۔ یہ دیکھا جائے کہ انہوں نے اپنے ملک کے عوام اور بین الاقوامی برادری سے جو وعدے کئے ہیں کیا وہ اس کے مطابق عمل کر رہے ہیں یا پھر ان کی خلاف ورزی 
ہو رہی ہے۔ پاکستان کا اس حوالے سے بڑا واضح مئوقف ہے کہ طالبان کا ساتھ دیا جانا چاہئے تا کہ وہان امن و امان کا بول بالا ہو۔ ان ساری چیزوں کو بالائے طاق رکھ کر مغرب طالبان کے خلاف گمراہ کن باتیں پھیلانے میں لگا ہوا ہے۔ دنیا کو طالبان کی معاشی طور پر مدد کرنا چاہئے تا کہ وہاں دوبارہ سے بد امنی پیدا نہ ہو۔ لیکن الٹا یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اب افغانستان شدید قسم کی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ جائے گا، انسانی حقوق کی پامالی ہو گی اورا مریکی افواج کے انخلاء کے نتیجے میں افغانستان میں ایک زبردست بحران آ جائے گا۔ جب کہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ ماضی کو بھول کر باقی دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے کئے گئے اعلانات کو اگر مثبت انداز میں لیا جائے تو سارے اندیشے خودبخود ختم ہو جائیں گے لیکن منفی سوچ نے عقل پر ایسے پردے ڈال دیئے ہیں کہ افغانستان سے آنے والی ہر اچھی خبر بھی نام نہاد ٹھیکیداروں کو ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی اس فتح کو طالبان مخالف طاقتیں کہہ رہی ہیں کہ یہ سب امریکہ سے ڈیل کا نتیجہ ہے۔ امریکہ نے ہی طالبان کے ہاتھوں میں اقتدار دیا ہے اور وہ جب چاہے ان سے اقتدار چھین سکتا ہے۔ حالانکہ طالبان نے اپنی جرأت و ہمت کی بدولت افغانستان میں بیرونی افواج کے قدم جمنے نہیں دئے ہیں۔ہر سطح پر امریکی افواج کا مقابلہ کیا اور بالآخر طالبان نے اپنی ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے حواریوں کو افغانستان سے راتوں رات نکلنے پر مجبور کیا۔ امریکہ کی نگاہیں تو افغانستان پر ایک لمبے عرصہ سے لگی ہوئی تھیں۔ اس کی دیرینہ خواہش تھی کہ افغانستان پر امریکہ کا قبضہ دائمی رہے۔ جب کہ طالبان کی اس شاندار کامیابی نے ثابت کر دیا ہے کہ کوئی طاقت زیادہ عرصہ تک کسی پر بھی اپنی طاقت کا دھونس نہیں جما سکتی ہے۔ اس تاریخی کامیابی نے ان ممالک کے عوام کا حوصلہ بڑھایا ہے جو آج بیرونی طاقتوں کے شکنجہ میں ہیں۔ طالبان نے ایک اور مثبت قدم اٹھاتے ہوئے ایک اعتدال پسند طالبان رہنما سہیل شاہین کو اقوامِ متحدہ کے لئے اپنا سفیر نامزد کیا ہے اور سیکریٹری جنرل سے اپیل کی ہے کہ انہیں اقوامِ متحدہ میں بولنے کی اجازت دی جائے۔ انہیں اگر وہاں بیٹھنے کی اجازت ملتی ہے تو یہ بہترین صورت ہو گی وہ اپنی بات کر سکیں گے اور دنیا سے رہنمائی بھی لے سکیں گے۔ دنیا کو اب افغانستان کے تمام گروپوں کو خود سے فیصلہ کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ تمام افغان گروپ آپس میں مل بیٹھ کر بحران کے خاتمے کے لئے لائحہ عمل اختیار کرکے فغانستان میں امن پیدا کریں۔ افغانستان میں اس وقت بعض معاملے نسبتاً واضح ہو چکے ہیں تاہم بعض حوالوں سے ابھی کنفیوژن موجود ہے۔ ایک بات تو قطعیت کی حد تک پہنچ چکی ہے کہ امریکی افغانستان سے جا چکے ہیں وہ بڑے بلند و بانگ دعووں سے افغانستان آئے تھے ان کا خیال تھا کہ وہ روسیوں کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد اب تمام خام خیالی غلط ثابت ہو گئی ہے۔ امریکی نہ چاہتے ہوئے بھی وہی غلطیاں کرتے رہے جو روسیوں نے کی تھیں۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ قدرت کی نادیدہ مگر بے پناہ قوت کے ساتھ اس خطے کی اہم قوتیں بھی امریکیوں کو افغانستان میں دھنسا کر اس کی قوت صرف کرانا چاہتی تھیں۔ اس مقصد میں وہ کامیاب ہوئیں۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد اس جنگ زدہ ملک کی تعمیرِ نو میں حصہ لینے کے لئے دنیا کے مختلف ممالک کو آگے آنا چاہئے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے مسائل کے حل کے لئے مددگار ہونا چاہئے لیکن اس کے برعکس تمام دنیا طالبان کے خلاف بیان بازی کا شکار ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ افغانستان میں آئے ہوئے پر امن انقلاب کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھا جائے۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ طالبان کس حد تک اپنے وعدوں پر پورا اترتے ہیں۔ ان کے ماضی کو دہرا کر دنیا کو گمراہ کرنا یہ اخلاقی دیوالیہ پن کی نشانی ہے۔