کانفرنس زدہ چہرے

کانفرنس زدہ چہرے

بہتات سے کانفرنسیں اٹینڈ کرنے کے باعث اب بہت سے ”دانشوروں“کی شکلیں ہی کانفرنس زدہ ہوگئی ہیں کانفرنس زدگی میں شمولیت کے لیے کی گئی جدوجہد، کھانے دعوتیں اور خوشامدیں جیسے چہرے پر چسپاں ہوگئی ہیں اب دورسے پہچاناجاسکتا ہے کہ بے نیاز تخلیق کارکون ہے اور فائیو سٹار ہوٹل جہاز کی ٹکٹیں اور اعزازیہ لے کر پچاس مرتبہ کے دہرائے ہوئے ”پیپر“ ہزار مرتبہ کے دہرائے ہوئے اشعار کون پڑھ رہا ہے۔ 
ان کے کلیے کے مطابق یہ مرکرہی ادبی سیشنوں کی جان چھوڑتے ہیں حالیہ مثال جناب امجد اسلام امجد اور ضیاء محی الدین کی ہے اگر یہ مزید زندہ رہتے تو معاملاتی اپروچ کے مطابق آئندہ سٹریچر پر کانفرنس میں جلوہ افروز ہوا کرتے کالم میں قلم ذرا عوامی ہو جاتا ہے، ادب میں تہذیبی منافقت سچ بولنے سے روک دیتی ہے …… خواتین شاعرات چند ایک کے علاوہ لگتا ہے پورے ملک میں فوت ہوگئی ہیں انہی کے بارہا دہرائی ہوئی پیچیدہ شاعری مقدر ہوگئی ہے، لگتا ہے اجل ہی ان سے بھی جان چھڑوائے گی ……
اچھا مزے کی بات ہے یہ ”دانشور“ اس طرح سنجیدہ قدرے غصہ والی شکل بناکر سٹیج پر بیٹھے مکالمہ کررہے ہوتے ہیں جیسے آگے سارے ان پڑھ بیٹھے ہوں حالانکہ سامعین میں انتہائی پڑھے لکھے جنوئیں اور زیادہ بڑے ادیب بیٹھے ہوتے ہیں اور اس سے کہیں کثیر تعداد میں حقیقی شعراء وادباء کانفرنس سے باہر بیٹھے ادبی خدمت انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ 
میراچونکہ پورا کیریئر آرٹس کونسل سے وابستہ ہے میرے مشاہدے کے مطابق شاعروں کو چھوڑ کر باقی تمام شعبوں کے لوگ اپنے سے علاوہ اپنے سینئر اپنے سے بہتر اور بعض مرتبہ ضرورت مند فنکاروں کے لیے سفارش کرتے ہیں کئی مرتبہ طبلے والے ہم نے ہائر کئے اور انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ فلاں طبلہ نواز کو کام دیدیں آج کل اس کے ہاں چولہا نہیں چل رہا ……
جبکہ شعراء کے حوالے سے تجربہ الٹ رہا جیسے ہی میں کوئی مشاعرہ ترتیب دیتی اوپر سے پڑی ہوئی لسٹ اور ان کے پسندیدہ خواتین کے بعد میرے پاس کم تعداد رہ جاتی جسے میں ان لوگوں کو بلانے کی کوشش کرتی جوگوشہ نشین تھے، بے اندازہ مشاعروں کا احوال پھر کبھی لکھوں گی مگر اتنا ضرور ابھی تحریر کرتی ہوں کہ جن لوگوں کو میں نے متعارف کروایا اپنے ذرائع سے انہوں نے آگے اپنے علاوہ کسی کو بھی نہیں متعارف کروایا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام تر تنقید کے باوجود بالآخر ہم سرکاری افسروں کا ہی حوصلہ ہے کہ دوسروں کو پروموٹ کرتے ہیں مگر جب یہ کسی مقام پر پہنچ جائیں یہ کسی نئے بندے بندی کو جگہ نہیں دیتے اتنی یونیورسٹیوں اور کالجز سے بھی گوہر نایاب ڈھونڈ کر نہیں لاتے صرف اپنی شکلیں بارہ مہینے سٹیج ٹی وی اور مشاعروں پر دھرے سوچتے ہیں کہ ادبی فریضہ پورا ہوگیا ……
مصوروں سے بھی تجربہ اچھا رہا ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہیں اپنی ایگزیبیشن میں احترام ملحوظ رکھتے ہیں کبھی ایک دوسرے کے خلاف مضامین نہیں لکھتے خبریں نہیں لگواتے پڑھے لکھے لائف سٹائل میں رہتے ہیں۔ 
کانفرنس کے حوالے سے جو یکسانیت مستقل ہورہی ہے اس کا تذکرہ ضروری ہے زیادہ تر اپنے ٹاپک ہی بولنے والوں کو اپنے سبجیکٹ کا پتہ نہیں ہوتا دہائیوں سے چند چہرے وہی مخصوص پرچار اور بیرونی دوروں کے لیے پسندیدہ موضوعات پر ایک دوسرے کے لیے ستائش باہمی کا اہتمام کرتے ہیں۔ 
ڈگری بھلے ڈگری نہ ہو ادب ادب ہوتا ہے یہ نہ کراچی کاہوتا ہے اور نہ لاہور کا اس کی تقسیم علاقائی بنیادوں پر ہونی بھی نہیں چاہیے یہ تو سرحدوں کو پارکر جاتا ہے جس کی زندہ مثال جاوید اختر کا الحمرا ہال میں فقیدالمثال استقبال تھا، نورجہاں اور لتا کی آواز ہے جس کو سننے کے لیے کوئی ویزہ پاسپورٹ نہیں۔ 
ابھی تک جتنے سیشن سنے گزشتہ منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں جاوید اختر صاحب کی گفتگو زبان اردو کے حوالے سے نئے پہلو لیے ہوئے تھی وگرنہ تنقید کے زمرے میں آنے والے دانشوروں کو سن کر وہی میٹرک ایف کے برسوں پرانے ٹیسٹ پیپرز اور نوٹس یاد آگئے شاعری پرانی کے علاوہ بدنیتی کا مرقع تھی قبضہ گروپ یہاں بھی کارفرما تھا جنہوں نے کمال چابکدستی سے کانفرنس کے منتظمین کو نہ کسی سے ملنے دیا بلکہ اپنی ہی ایک ترتیب اور انتخاب سامنے رکھ کر نہ صرف کینہ پروری ادب دشمنی اور اندرون وبیرون ملک نیٹ ورکنگ کے تقاضے پورے کیے انہیں یہاں لاہور کے اچھے جینوئن شعراء سے ملنے ہی نہیں دیا، لاہور سے جو ادبا کراچی برسوں سے جاتے رہے کبھی لاہور کا نیا اور اصل منظر نامہ متعارف نہ کرواسکے ادب کا سب سے بڑا فریضہ ہی امانت کی حفاظت ہے اور اچھا شعر کہنے والوں کو پس پشت رکھنا مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا غیرتخلیقی لوگوں کا خاصہ ہے۔ 
میں جاوید اختر صاحب کی زبان سے محبت کے علاوہ ان کی ترقی پسند عاصمہ جہانگیر کی بیٹی منیزے جہانگیر کی گفتگو سے بھی بہت شرمندہ ہوئی موصوفہ ان سے نہایت بچگانہ سوالات کررہی تھی ان کی ایک معروف ترقی پسند نظم کے حوالے سے جب سوال کیا کہ یہ نظم آپ نے لکھتے ہوئے Ncentive نسینٹومحسوس کیا، جواباً جاوید اختر صاحب نے کہا اگر میری نظم اپنا انسینٹو پیش کرنے میں ناکام رہی تو پھر مجھے اس پر نظر ثانی کرنا ہوگی مجھے دیکھنا ہوگا جو معنی میری نظم مرتب نہیں کرسکی میں کیا کرسکوں گا……
 محترمہ کی جاہل مسکراہٹ اور کم عملی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ انٹرویو کسی تخلیق کار کو کرنا چاہیے تھا نہیں تو کم ازکم محترمہ ہی کو تیاری کرلینا چاہیے۔ ایسے میں کامران شاہد کی دادبنتی ہے کہ انٹرویو اپنے والد شاہد حمید سے بھی لیا توپوری تیاری کے ساتھ۔ 
اس ساری خچ خچ کا مطلب یہ تھا کہ اپنی زندگی ہی میں دوسرے آنے والے تخلیق کاروں کے لیے جگہ چھوڑ دیا کریں ان کا راستہ نہ روکیں اپنی ہی شکلیں چالیس چالیس کرسیوں پر براجمان نہ رکھیں اچھے شعرا کو آگے بڑھائیں اچھی نثر پر داد دینے سے منہ میں چھالے نہیں پڑ جاتے اچھے ادب کی ترویج اور ترقی میں حصہ بٹانے سے ہاتھ نہیں ٹوٹ جاتے احمد ندیم قاسمی صوفی تبسم ودیگر اس نوع کے ادبی بزرگوں نے کتنے لوگوں کو پروموٹ کیا جو آگے جاکر سپیڈ بریکر بن کر بیٹھ گئے۔ 
ٹھہرا ہواپانی گل سڑ جاتا ہے شہرت رسوائی بن جاتی ہے ادب بے ادبی میں ڈھل جانا اور اپنی شہرت میں کچھ اضافہ نہیں ہوتا ادبی تاریخ میں آج وہی لوگ زندہ ہیں جو چھتناور درخت بن کر رہے ”اک کے بوتے“نہیں جو نہ چھاؤں دیتے ہیں اور نہ پھل …… خود ہی سوکھ کر بالآخر دوزخ کا بالن بن جاتے ہیں ……