غریبوں کا کیا بنے گا۔۔۔؟

غریبوں کا کیا بنے گا۔۔۔؟

کیاغریب عوام عمرانی حکومت سے اس لئے نجات کی دعائیں مانگ رہے تھے کہ وہ عمران کے بعدشہبازکے ہاتھوں بھی اسی طرح رلتے اور تڑپتے رہیں گے۔؟ نہیں ہرگز نہیں۔ عوام کو رلانے، تڑپانے اورلوٹنے والاکام توعمرانی حکومت میں زیادہ بہترطورپرہورہاتھا۔عوام کواگرعمران خان کے بعدبھی رلنا،تڑپنااورچوروں کے ہاتھوںلوٹناہی تھا توپھرعمرانی حکومت سے نجات کے لئے اس طرح اخلاص اوریکسوئی کے ساتھ دعائیں ومنتیں مانگنے کی کیا ضرورت تھی۔۔؟عوام کوتوخان یاکپتان کے کھلاڑیوں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی ،عوام صرف اس وجہ سے عمرانی حکومت سے نجات کی دعائیں اورمنتیں مانگ رہے تھے کہ مہنگائی ،غربت ،بیروزگاری،ظلم وناانصافی اوراندھیرنگری سے ان کی جان چھوٹ جائے۔لیکن یہ کیا۔؟وہ کہتے ہیں نا۔کہ بارش سے بھاگتے ہوئے ژالہ باری یابرف باری سے سامناہوا۔شہبازحکومت کی کرامات اوربرکات کودیکھ کریہی لگ رہاہے کہ بارش سے بھاگتے بھاگتے اس ملک کے عوام بھی کہیںبرف باری یاژالہ باری کے درمیان پھنس کررہ گئے ہیں۔ ساڑھے تین چار سال میں عمران خان نے اپنی نااہلی اورنالائقی سے جوبوجھ غریب عوام کے کندھوں پرڈال دیاتھاغریب اس بوجھ کوکم یا ہلکا کرنے کے لئے مسیحاتلاش کررہے تھے لیکن افسوس غریبوں کوچارسال بعدمولاناکی امامت میں مسیحابھی ایسے ملے کہ جواس بوجھ کوکم اور ہلکا کرنے کے بجائے اپنے حصے کے گناہ اوربوجھ بھی اب انہی غریبوں کے کندھوں پرڈالنے لگے ہیں۔ایک مہینے کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 90سے سوروپے تک اضافہ کیایہ کوئی انسانیت ہے۔۔؟اس طرح کاظلم تووہ کالے کافربھی نہیں کرتے ہوں گے جوظلم وستم کاسلسلہ مسیحائی کا جامہ پہنے ان حکمرانوں نے اس ملک میں شروع کر دیا ہے۔ باہر کی دنیا مرے ہوئے کومارنااپنی توہین سمجھتی ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایک ایسے ملک اورمعاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں مرے ہوئے کوباربارمارنے کو اعزاز،اکرام ،غیرت اوربہادری کادرجہ دیا جاتا ہے۔ یہاں لوگ ووٹ ،سپورٹ اوردعائیں چوروں کے پیٹ پھاڑنے کے نام پرلیتے ہیں لیکن ووٹ بٹورنے اورسپورٹ حاصل کرنے کے بعدپھروہی لوگ غریبوں کے پیٹ پرلاتیں مارناشروع کردیتے ہیں۔آج اپنی حکومت چلانے کے لئے غریبوں کے پیٹ کاٹنے والے یہی شہبازبھی کسی زمانے عمرانی حکومت میں غریبوں کے لئے بڑے رویا اور آنسو بہایا کرتے تھے۔ شہباز، نواز اور زرداری کی امامت کرنے والے مولانافضل الرحمن کوبھی اس زمانے میں غریبوں کی بڑی فکرہواکرتی تھی۔زرداری صاحب بھی صبح وشام غریب غریب کی تسبیح پڑھاکرتے تھے،بڑے میاں صاحب توانہی غریبوں کے دکھ اوردردمیں بیمارہوئے لیکن جب اللہ نے غریبوں کے سرسے عمرانی بلاکواٹھالیاتوغریبوں کے یہی غمخواراورغم گسارانہی غریبوں کے پیچھے ہاتھ دھوکرایسے پڑگئے کہ اللہ کی پناہ۔ہم توسمجھ رہے تھے کہ بڑے ایماندار کے جانے کے بعداس ملک کے غریب چین اورسکھ کاکچھ سانس لے سکیں گے لیکن حالات وواقعات بتارہے ہیں کہ اس ملک کے غریبوں کی قسمت اورتقدیرمیں ہی کہیں چین اورسکھ نام کی کوئی چیز نہیں۔ پہلے جو ایماندار چوروں ،لٹیروں اورڈاکوﺅں کا پیٹ پھاڑنے کے لئے آیا وہ بھی چار سال تک غریبوں کی غربت کا تماشابناکرانسانیت سے ایسے کھیلتا رہاکہ الامان والحفیظ ۔اس کے بعد اب یہ جوپٹرول اورڈیزل موومنٹ کی کوکھ سے جنم لینے والے مسیحابن کرسامنے آئے ہیں انہوں نے بھی آنے کے ساتھ غریبوں پرہی ہاتھ صاف کرنے شروع کردیئے ہیں۔کیااس ملک میں غریبوں کے علاوہ حکمرانوں کے کھیل تماشوں کے لئے اور کوئی نہیں۔؟ کیااس ملک میں ہرمرض کی دوا غریب صرف غریب ہی ہے۔؟ یہ کونساقانون اورکہاں کاانصاف ہے کہ ملک کاکباڑہ عمران خان کریں، شوکت عزیز، زرداری یا شہباز لوٹ کرملک کو کھائیں۔ اورقیمت پھرغریب عوام کو ہی چکانا پڑے۔ عوام کا جرم اور گناہ آخر کیا ہے۔؟ جس کی اتنی بڑی سزاان کودی جارہی ہے۔کیااس ملک میں غریب عوام کے سوااورکوئی نہیں۔؟اس ملک کے غریبوں کوتوانہی ظالم حکمرانوں کے سیاہ کرتوتوں وکارناموں کی وجہ سے کبھی دووقت پیٹ بھر کھانا کھانا بھی نصیب نہیں ہوالیکن پھربھی زرداری، مشرف، شوکت عزیز اورعمران خان تک ہرحکمران اورگناہ گارکاکفارہ وہرجانہ ان سے ہی وصول کیاگیااورآج بھی وصول کیاجارہاہے۔ اقتدار کے مزے حکمران لیں،اپنی تجوریاں سیاستدان ، بیوروکریٹ، سرمایہ کار اور صنعتکار بھریں، قیمت پھر غریب چکائیں، کیوں۔؟ آخر کیوں۔؟ آج بھی وزارت عظمیٰ کے مزے شہبازشریف لیں،وزیروں کے پاپا زرداری اور مولانا کہلائیں، اقتدارمیں حصہ اے این پی اوردیگرپارٹیاں وسیاستدان وصول کرکے عیش پرعیش اڑارہے ہیں لیکن ناکردہ گناہوں کابوجھ پھربھی عوام کے کندھوں پرڈالاجارہاہے۔اس ملک کے عوام آخرکب تک حکمرانوں کے یہ گناہ اٹھاتے رہیں گے۔؟اب شہباز،زرداری اورمولاناکو اس ملک میں مہنگائی،غربت اوربیروزگاری نظرنہیں آئے گی کیونکہ ان کی آنکھیں اس وقت کام کرتی ہیں جب یہ لوگ اقتدارسے باہر ہوتے ہیں۔ اقتدار اور وزارتیں ملنے کے بعدان کوپھرکچھ نظرنہیں آتا۔وہ مولاناصاحب جوکپتان کی حکومت میں مہنگائی مارچ نکال کرہرجگہ غریبوں کامرثیہ بیان کیاکرتے تھے ،بیٹے اور چندپارٹی رہنماﺅں کووزارتیں ملنے کے بعداب انہیں بھی لال اے لال کے سواکچھ نظرنہیں آرہا۔بڑے میاں اورزرداری صاحب نے بھی اقتدارملنے کے بعد کہیں نیند کی گولیاں کھا لی ہیں۔ حکومت بھی ۔۔مجبوری تھی اورمجبوری ہے کے الفاظ استعمال کرکے پٹرولیم مصنوعات اوربجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت جوچاہے کررہی ہے۔آسان سافارمولہ ہے پچھلی حکومت کی ناقص کارکردگی کابہانہ کرکے پٹرول،بجلی،گیس اورآٹاوچینی سمیت ہرچیزکی قیمت میں اضافہ کرکے بوجھ غریب کے کندھوں پرڈال دو۔موجودہ مہنگائی پچھلوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے یاان موجودہ مسیحاﺅں کے اعمال کانتیجہ۔سوال توفقط یہ ہے کہ ملک کودونوں ہاتھوں سے لوٹنے اورعوام کورلانے وتڑپانے والے شہباز، زرداری اورمولاناتواس طرح وزارتیں لیکراپنانظام چلالیں گے لیکن اس ملک میں رہنے والے ان غریبوں کاآخرکیابنے گا۔؟کیاان غریبوں کی قسمت اورمقدرمیں واقعی مہنگائی،غربت اوربیروزگاری کے سوا کچھ نہیں۔اگرایساہی ہے توپھرملک کے وزیراعظم شہبازشریف رہیں، بلاول، مولانا یا پھر عمران خان۔اس سے غریبوں کاکوئی لینا دینا نہیں۔ مولانااوراس کے مقتدیوں نے ایک ماہ میں یہ ثابت کردیاہے کہ سیاست اقتدارکی جنگ ہے غریبوں کی نہیں۔ مولانا اوراس کی ٹیم کوان کی سیاست اورغریبوں کوپھرسے مہنگائی،غربت اوربیروزگاری کے یہ نئے نئے تحفے مبارک ہوں۔

مصنف کے بارے میں