اسلامی ممالک کی وزراء خارجہ کانفرنس

اسلامی ممالک کی وزراء خارجہ کانفرنس

عالمی مراکز طاقت تبدیل ہو رہے ہیں۔ عالمی توازن طاقت بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ گزرے 30 سال سے جنگ وجدل نے امریکہ کے قوی شل کر دیئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی قیادت امریکہ کو خاصی مہنگی پڑی ہے۔ افغانستان میں طویل جنگ اور اس میں امریکی شکست نے امریکی قوت و ہیبت کا بت پاش پاش کر دیا ہے اس عرصے کے دوران چین بڑی سرعت اور استقامت کے ساتھ اپنی سفارتی و معاشی قوت میں اضافہ کرتا رہا ہے آج ہم دیکھتے ہیں کہ چین عالمی توازن طاقت میں ایک قابل ذکر اور مؤثر ریاست کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہاں ہمارے خطے میں بھی توازنِ طاقت بدل رہا ہے انقلاب ایران کے بعد ایران امریکی حصار سے نکل چکا ہے۔ افغانستان میں طالبان حکمرانی قائم ہو چکی ہے۔ پاکستان امریکہ کی برخورداری قبول کرنے کے لئے مزید تیار نظر نہیں آ رہا ہے۔ چین کے ساتھ ہمارے سٹرٹیجک تعلقات عروج پر ہیں۔ چینی عروج نے روس کو بھی نئی ہمت عطا کر دی ہے۔ اس پس منظر میں اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس کا انعقاد پاکستان کے لئے انتہائی اہم ہے۔ 57 مسلم ممالک کے مندوبین کی یہاں آمد، چینی وزیر خارجہ کی خصوصی شرکت ہمارے لئے عزت وقوت کا ذریعہ ہے۔ اس بین الاقوامی ایونٹ کے موقع پر ’’ہم مصطفوی، مصطفوی ہیں‘‘ ترانے کو سرکاری طور پر اس موقع کے لئے ریلیز کرنا بھی ایک تاریخی وقوعہ ہے۔ اس ترانے کے الفاظ، اس کی موسیقی اور طرز اسلامی اخوت اور عظمت کے جذبات سے لبریز ہے۔ اسے نوجوانوں کے معروف فنکار علی ظفر نے خوبصورت انداز میں گا کر حق ادا کر دیا ہے۔
بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ یہی ترانہ پہلی بار ریڈیو پاکستان نے تیار کر کے ریلیز کیا تھا۔ اس ترانے نے دھوم مچا دی تھی۔ اس کے الفاظ، شاعری، اس کی کمپوزیشن اور گلوکاری سمیت ہر شے لازوال بن گئی تھی۔ اس میں عالم اسلام کی عظمت اور مسلم برادری کی اخوت جھلکتی ہے۔ یہ ترانہ بھٹو دور میں منعقد کی جانے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر ریلیز کیا گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سرد جنگ عروج پر تھی چند برس قبل سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہو چکا تھا۔ عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت دو حصوں میں تقسیم کی جا چکی تھی۔ ہماری بہادر افواج، دشمن کی طویل قید سے واپس آئے تھے۔ پاکستانی عوام ہی نہیں، عالم اسلام میں غم و غصہ ہی نہیں بلکہ مایوسی طاری تھی۔ ایسے میں اسلامی سربراہان کو لاہور میں اکٹھا کر کے جس عظمت و شوکت کا مظاہرہ کیا گیا وہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے زیرک رہنما کا ہی کام تھا۔ اس دور میں پورا ملک پی ٹی وی لگا کر ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھا ہوا نظر آتا تھا، لمحہ با لمحہ لاہور ایئرپورٹ پر بین 
الاقوامی پروازیں اترتیں، ہر پرواز سے کسی نہ کسی ملک کا سربراہی وفد برآمد ہوتا۔ گارڈ آف آنر کے بعد وہ جھنڈا لگی بڑی گاڑی میں سوار ہو کر منزل کی طرف روانہ کر دیا جاتا۔ صدر مملکت چودھری فضل الٰہی تو سلامیاں لیتے اور دیتے ہوئے نڈھال ہو گئے تھے۔ یہی ترانہ ’’ہم مصطفوی، مصطفوی ہیں‘‘، ’’دین ہمارا دینِ مکمل استعمار ہے باطل ازل‘‘ خیر ہے جدوجہد مسلسل… عنداللہ، عنداللہ، اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ اس کانفرنس کا سرکاری ترانہ طے پایا تھا اسے جمیل الدین عالی جیسے عظیم شاعر نے تخلیق کیا اور سہیل رعنا نے اس کی دھنیں ترتیب دیں اور مہدی ظہیر جیسے عالی السوت نے گایا اور ایسا گایا کہ الفاظ، کانوں سے داخل ہو کر دل و دماغ میں پیوست ہونے لگے۔ مہدی ظہیر نے شاید یہی ایک ترانہ گایا۔ ہم انہیں نہ اس سے پہلے جانتے تھے اور نہ ہی اس ترانے کے بعد انہیں کچھ اور گاتے ہوئے سنا۔ یہ ترانہ اسے امر کر گیا۔ آج جب یہی ترانہ علی ظفر کی آواز میں ریلیز کیا گیا تو مجھے 1974ء کے ایام یاد آنے لگے جب ہم اپنے اوائل شباب میں تھے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون بھی ہماری زندگی میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ کیبل نیٹ ورک بھی نہیں تھا صرف پاکستان ٹیلی ویژن تھا اور وہ بھی بلیک اینڈ وائٹ۔ ہم سارا دن ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر اسلامی ممالک کے سربراہان کی آمد کا مشاہدہ کرتے یہ ترانہ ہمارے خون میں ایک طرح کی نئی حرارت پیدا کر دیتا۔ اسلامی اخوت اور عظمت کے جذبات سے سیرہو کر شاہ فیصل، قذافی، بومدین، کرنل قذافی، یاسر عرفات اور ایسے ہی مسلم سربراہان کو لاہور ایئرپورٹ پر اترتے دیکھنا ایک ایسا تجربہ تھا جس کی یاد آج تک ماند نہیں پڑی ہے۔ جب علی ظفر کا گایا ہوا ترانہ سنا تو کچھ زیادہ جذبات نہیں ابھرے، خون میں حرارت پیدا نہیں ہوئی، دو تین مرتبہ سنا لیکن۔ سوچا شاید ادھیڑ عمری کا اثر ہے کہ خون سرد ہوچکا ہے، جذبات ٹھنڈے سے ہیں۔ پھر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر یوٹیوب پر وہی 1974ء والا ظہیر مہدی کا گایا ہوا ترانہ سنا تو ایک بار پھر ویسے ہی جذبات ابھرتے محسوس ہوئے۔ اسلامی اخوت، یگانگت اور عظمت کے احساسات، پاکستان کی عظمت و بڑائی کا احساس، اپنے مسلمان ہونے اور پاکستانی ہونے پر فخر کا احساس ابھرنے لگا۔ مہدی ظہیر نے بزرگ ہونے کے باوجود، جمیل الدین عالی کے الفاظ میں فی الحقیقت جو ان روں پھونک کر اس ترانے کو لازوال بنا دیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستانی قوم کا ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کا مورال بلند کرنے کے لئے جو کاوشیں کیں وہ قابل ستائش ہیں۔ پاکستان کو 1973ء کا آئین دینا، قادیانی مسئلہ حل کرنا، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا اجرا جو بالآخر پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر منتج ہوا، اور ایسے ہی کئی دیگر اقدامات، جنہوں نے بچے کھچے پاکستان کو ایک نئے عزم کے ساتھ محو سفر کیا اور آج پاکستان اقوامِ عالم میں اپنی حشمت اور قد کاٹھ کے ساتھ کھڑا ہے۔
عمران خان نے پاکستان کو تعمیر و ترقی کے سفر پر آگے بڑھانے کے لئے جو وعدے وعید کئے تھے ان کے بارے میں دو آراء پائی جاتی ہیں لیکن ریاست مدینہ کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات یقینا قابل ستائش ہیں وہ اپنے تئیں ایک فلاحی معاشرہ ترتیب دینے کے داعی بھی ہیں اور کاوشیں بھی کر رہے ہیں۔ حالیہ وزراء خارجہ کانفرنس اور اس کے آفیشل ترانے کے لئے ’’ہم مصطفوی ہیں‘‘ کا انتخاب ان کی اسی سوچ کا عکاس ہے اللہ پاکستان کو تعمیروترقی کی راہ پر آگے بڑھائے۔ (آمین)

مصنف کے بارے میں