”آنسوؤں کے سیلاب“

 ”آنسوؤں کے سیلاب“

بظاہر اگر دیکھیں تو ملک میں اس وقت تمام سیاسی جماعتیں برسراقتدارہیں، اور نہیں بھی ……عدالتیں ایک ہی مقدمہ کے دوطرح کے فیصلے سنانے پر قادر ہیں تمام ادارے تنقید کی زد میں ہیں …… بیوروکریسی کا صحیح امتحان ہے کہ اس ست رنگی حکومت کے کون سے رنگ میں رنگے جائیں …… وفاق کی سنیں کہ وہاں چودہ جماعتیں کنڈلی مارکر بیٹھی ہیں پنجاب میں کہ جس کے لرزیدہ بام ودر پر کبھی مسلم لیگ ن تو کبھی ق یعنی مسلم لیگ نے ابھی تک تحریک انصاف کوجھنڈ الہراکر بیٹھنے نہیں دیایہاں بھی حکومتوں کے گرنے اور بننے کا ذمہ دار ادارہ عدلیہ ہے جوازیہ کہ جولوگ اپنے فیصلے خود نہیں کرسکتے ان کے فیصلے عدالتوں میں ہوتے ہیں گو وفاق میں بھی کچھ کم ڈرامائی صورت حال نہیں ہوئی مگر پنجاب تو پنجاب ہے یہاں کی اسمبلی میں تو کھل کھلا کر ڈنڈے سوٹے ہیلمٹ چلے،بال نوچے گئے، عورتوں کی چیخ وپکار کہ بھاٹی لوہاری اور اندرون شہر کے گلی محلوں کی تمام دیورانیوں جیٹھانیوں کی لڑائیاں بھول گئیں …… کے پی کے بھرم پانی نے کھول دیئے، بلوچستان اور سندھ اپنے لیڈروں کے ہوتے ہوئے ڈوب گئے۔ ہمیشہ کی طرح لیڈر جہازوں ہیلی کاپٹروں پروٹوکول اور باڈی گارڈزکے ہمراہ عوام وہ بھی ڈوبے ہوئے بھوکے ننگے عوام سے اقتدار کی بھیک مانگتے رہے اپنے رونے روتے رہے، ایک دوسرے کو چوراُچکاکہتے رہے،ایک دوسرے کی چغلیاں کرتے یہ بھی فراموش کرتے رہے کہ سامعین بے چارے آٹھ آٹھ دن سے بھوکے پیاسے مچھروں بیماریوں اور اپنوں کی موت کے آلام میں ہیں۔آپ کے شوق اقتدار پر لعنت بھی نہیں بھیجنا چاہتے…… کوئی دوجملے کوئی احساس کی بات ان لیڈروں کے منہ سے میں نے تو نہیں سنی۔ ملکہ الزبتھ فوت ہوئی تو لگا کہ اس کی موت شاید آج بھی برصغیر کے ہزاروں لاکھوں جوان اموات سے اوپر کی بات ہے۔جیسے 1851میں تھی جیسے جلیاں والے باغ میں کنوئیں میں ہزاروں لوگ جھلسی ہوئی آگ اور بارود بھری گولی کے دہانے پر یوں مررہے تھے کہ ان کی زندگی زندگی نہ ہو محض دوروپے کے بلٹ کے بارود برابر ہو وہ بلٹ جس  کے پیتل کے خول بیچ کر اُنہی کے بچے کھیل چھولے کھائیں گے۔ شاہی اعلیٰ النسل کی 96سال کی موت کشمیر کے پندرہ بیس سال کے نوجوانوں پر بھاری ہو ستر سال کے شہزادے کے آنسو محترم ہوں اور محکوم قوموں کے ننھے ننھے یتیم بچوں کا دکھ دکھ ہی نہ ہو ……
ہم تو شاید جغرافیائی لحاظ سے 47ء میں آزاد ہوگئے تھے مگر لسانی، جذباتی، مالی اور اخلاقی لحاظ سے آج بھی ملکہ کے غلام ہیں، کیا ہم یہ مان لیں کہ ہم واقعی گھٹیا کوالٹی کے ہیں اور انگریز بہادر اعلیٰ النسل نہ ماننے سے کیا ہوگا۔ مانگ کر کھانے، لباس خوراک اور کتوں تک کی نقل نہ جب تک کرلیں ہم امیرکہلاتے ہی نہیں۔ بچے اردو بولیں تو مائیں شرماتی ہیں اور پنجابی تو بہت سے انگریزی سکولوں نے یہ خط جاری کرکے بین کی ہوئی ہے کہ گالیاں اور پنجابی Not Allowed۔یہ احساس کمتری میں نے تو اپنی زندگی کی گزشتہ دہائیوں میں کم ہوتے نہیں دیکھا بلکہ وقت کے ساتھ بڑھ ہی رہا ہے حتیٰ کہ انگریزی میں گالی بھی گالی نہیں لگتی بچوں کو انگریز بنارہے ہیں اور بعد میں جب وہ ہمیں اولڈ ہاؤس پھینکتے ہیں تو برامنانے والی کون سی بات ہے۔یہاں کے ”بڈھے“رُلتے ہیں کہ جذباتی ہیں۔وہاں کے اولڈ مین لاجیکل Logicalہونے کے ساتھ ساتھ حکومت سے مراعات یافتہ بھی ہیں ……
اس سیلاب سے بچنے والوں کو نوید ہو کہ اگلے سال بھی آپ ہی نے ”رُڑھنا“ ہے آپ صرف ووٹر ہیں …… ووٹ دیں اور اس کے بعد قدرتی آفات میں مرکھپ جائیں ……
اگلی بار بھی دریا کے رخ بڑے شہروں کو بچا لیں گے اور آپ کے دیہاتوں کی طرف رُخ موڑ دیئے جائیں گے آپ کے پاس ہے کیا منجھی جسے آپ کشتی بھی بنالیتے ہیں۔دوچار سلور کے برتن مٹی کے بھانڈے جبکہ دوسری طرف وڈیروں جاگیرداروں کی نسلوں تک چلنے والی زرعی زمینیں ان کے قیمتی کھیت محلات…… پانی ہمیشہ زیریں علاقوں کی طرف بہتا ہے ……”کافکا“ نے کہا تھا کہ جب اپنا نہیں تو کسی مذہب کاکیسے ہوسکتا ہوں“ آپ کو کاخ امراء کے درودیوار ہلادینے والے نعرے دینے والوں کی تمام نسلیں یورپ میں پرورش پارہی ہیں یہ لوگ شادیاں بھی یورپ میں کرنا پسند کرتے ہیں یہاں کے پیکج کے لیے بھی دیسی بندوبست کرلیتے ہیں اولاد تک غریب گھرانے کی عورت سے نہیں پیدا کرتے۔ ان کے بچے امیر ابن امیر ہوتے ہیں۔ننھیال سے بھی دودھیال سے بھی …… جب تک آپ گلیوں کا ”روڑکوڑا“ بن کر ان کے جلسوں کی رونق بنتے رہیں گے ان پر سے لڑ کر ایک دوسرے کا گلا کاٹیں گے آپ کے حالات نہیں بدلنے والے ……
Hero Worshipشاید قدیم ترین مذاہب سے چلی آرہی ہے بہت سے لوگ تو سیاست دانوں کی موجودہ لاٹ کے سربراہوں کو لیڈر بھی کہتے ہیں، حیرت ہوتی ہے۔ 
آج کل پنجاب اور وفاق کی لڑائی میں غلام محمود ڈوگر کے ساتھ خوب کھینچا تانی ہوئی،موصوف ذاتی طورپر بہت ذہین، عمدہ مقرر، بہترین کھلاڑی، اردو اور انگریزی یکساں مہارت رکھنے والے زبردست افسرہیں۔ فیصل آباد کے آرپی او  تھے تو ڈائریکٹر آرٹ کونسل ہونے کی وجہ سے ان سے اکثر معاملہ رہتا۔ وہ اقبال سٹیڈیم میں کبڈی کے ٹورنامنٹ سے لے کر گھوڑوں کے رقص تک ہرایکٹوٹی میں دلچسپی لیتے۔ نوجوانوں کے لیے ریڈیو اور آرٹ کونسل میں اکثر خطاب کرتے۔ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ……
 بے تحاشہ بری خبروں میں ایک اچھی خبر یہ ہوئی کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری انتہائی پڑھے لکھے، شائستہ مزاج، ذہین وفطین،بااصول اور بہترین کیریئر رکھنے والے عبداللہ خان سنبل ہوگئے۔ ادبی گھرانے سے تعلق کے علاوہ تعلیمی مدارج میں بھی ہمیشہ اول رہے۔ ان کی شاندارشخصیت کو جتنا خراج عقیدت پیش کیا جائے کم ہے ……
”چارلفظ حرماں نصیب رڑھ پھڑ جانے والوں کے لیے“ 
میں راوی کے کنارے تھی بلوچستان تھادل میں 
کبھی کے پی کبھی پنجاب چولستان تھا دل میں 
ابھرتے آرہے تھے نقش مٹی کے ہٹانے سے
 بہت لاشیں بھری تھیں جس  میں اک میدان تھا دل میں 
کھلی رہتی تھیں آنکھیں رات بھر اک خوف سے میری 
زمیں پاؤں تلے کھسکی نگر ویران تھا دل میں 
اکیلی بچ گئی پھر بھی تو میں جینے نہ پاؤں گی
سبھی کے ساتھ بہہ جاؤں یہ حل آسان تھا دل میں 
مقامِ ہجر پورا ہورہا تھا صوفیہ دل پر 
صفِ ماتم بچھی تھی شہراک ویران تھا دل میں   

مصنف کے بارے میں