اپناعلاج۔۔کل نہیں آج

اپناعلاج۔۔کل نہیں آج

روٹی،کپڑا اور مکان یہ تو سفید جھوٹ ہے۔ یقین نہ آئے تو تھرپارکر میں غربت،بھوک اورافلاس سے بلکنے،رلنے اورتڑپنے والے انسانی کیڑے مکوڑوں کو دیکھ لیں۔۔نیاپاکستان اور ریاست مدینہ یہ توجھوٹ سے بھی آگے کی کوئی شئے ہے ورنہ چند سال میں اچھے بھلے ملک کااس طرح کباڑاتونہ ہوتا۔۔ایشین ٹائیگراورگولڈوگرین پاکستان اس کی توبات ہی کچھ اورہے کیونکہ میاں صاحبان اگردل سے ملک وقوم کے لئے کچھ کرناچاہتے تواس مقصد کے لئے اقتدارکے یہ تین چارمواقع کوئی کم نہ تھے۔۔اللہ کی زمین پراللہ کانظام اوراسلامی انقلاب والی مولانافضل الرحمن اورسراج لالاکی باتیں بھی پانی کے بلبلوں سے زیادہ کچھ نہیں۔اسی لئے پاکستان زندہ باد،عوام پائندہ باداوراسلام زندہ بادوالے یہ پرفریب،دلکش اوردل کوہمہ وقت چھوجانے والے یہ نعرے اوردعوے توہمیں وہی والے وہ ”ٹچ“ صرف ٹچ ہی معلوم ہو رہے ہیں۔۔ یہ نعرے اوردعوے اگر سچ ہوتے توکیا۔؟آج ہمارے یہ حالات ہوتے۔۔؟ تاریخ اٹھاکردیکھ لیں۔یہاں جس کاجس طرح بھی بس اور وس چلا اس نے اسی حساب سے عوام کو چونا لگایا۔ کیا زرداری، کیا شریف، کیا عمران اور کیا مولانا۔؟ عوام کومعاف کسی نے بھی نہیں کیا۔یہاں سیاست اوراقتدارمیں آنے والاہرسیاستدان اورحکمران پہلے والوں سے بڑھ کرعوام کے لئے مداری اور کھلاڑی ثابت ہوا۔اگردیکھاجائے توالف سے ی تک تمام سیاستدانوں اورلیڈروں کے بلندبانگ نعروں ودعوؤں کی ڈوریاں ہی ڈائریکٹ اقتدار واسلام آبادسے ملتی ہیں۔وہ ہمارے بڑے کہا کرتے تھے کہ بلی اللہ کی رضاکے لئے چوہانہیں مارتی۔ خدمت کی بوریاں کندھوں پرلادکرسیاست میں آنے والے ہمارے یہ سیاستدان بھی اللہ کی رضاکے لئے کوئی کام نہیں کرتے۔یہ بھی ذات اورمفاددیکھتے ہیں۔جہاں ان کاکوئی مفادنہیں ہوتاوہاں چاہے پورے ملک اورقوم کامفاداورمسئلہ کیوں نہ ہویہ وہاں ہاتھ نہیں ڈالتے۔ یہ اسی گاڑی میں سوارہوتے ہیں جس کارخ اسلام آبادکی طرف ہویاجوڈائریکٹ اقتدارکے محلے کی طرف جاتی ہو۔اقتداراوراسلام آبادہی ان کی پہلی اورآخری منزل ہے۔ اسلام آبادتک پہنچنے کے لئے یہ کبھی روٹی 
،کپڑااورمکان کاسہارالیتے ہیں توکبھی ایشین ٹائیگراورگولڈوگرین پاکستان کانعرہ چھوڑتے ہیں۔ کبھی یہ نیاپاکستان اور ریاست مدینہ کا ٹھیکہ لیکر نمودار ہوتے ہیں توکبھی اسلام کا جھنڈا لہرا کریہ میدان میں آ جاتے ہیں۔ اسلامی، ایمانداری، آزادی، خودداری، معاشی اور انقلابی ہرقسم کے ٹچ ان کے پاس ہوتے ہیں۔ ایک کامیاب مداری اوربڑے نبض شناس حکیم کی طرح جہاں جس ٹچ کی ضرورت ہوتی ہے یہ وہاں اسی ٹچ کااستعمال شروع کردیتے ہیں۔میلہ کیسے لوٹناہے اور عوام کے دل کیسے جیتنا ہے۔؟ یہ ہنر،یہ طریقہ اوریہ کام ان سے بہتر اور کون جانے۔؟ یہ نہ صرف نبض شناس بلکہ چہرہ شناس بھی ہیں۔عوام کے چہروں پرغربت،بھوک اورافلاس کی لکیروں کوایک ماہرنجومی کی طرح یہ فوراًپڑھنے کے ساتھ سمجھ بھی جاتے ہیں اسی لئے توپچاس لاکھ گھراورایک کروڑنوکریوں جیسے تاریخی پراجیکٹ اوراعلانات پھرسامنے آتے ہیں۔اس ملک میں بڑے بڑے مداری دیکھے ہیں لیکن واللہ ان جیسے استادنہیں دیکھے۔ یہ تومداریوں کے استادوں کے استاد کیا۔؟ ان کے بھی باپ ہیں۔مداریوں میں تواکثرمداریوں سے انسان پھربھی بچ کے نکل جاتاہے لیکن ان سے بچ نکلنامشکل بہت ہی مشکل ہے۔مداریوں کی طرح ان سب کامقصد،مطلب اورمشن بھی ایک ہی ہے،  ذات، پات، رنگ،نسل،لب ولہجہ اوراخلاق وکردارکے حوالے سے تویہ ایک دوسرے سے الگ ومختلف ہوتے ہیں لیکن مقصدومشن میں یہ سب بھائی بھائی ہیں۔یعنی مطلب اور مقصد۔۔کل بھی ان سب کا ایک۔۔فقط ایک تھا۔۔اور۔۔آج بھی ایک ہی ہے۔ان سب کے یہ پاکستان زندہ باد،عوام پائندہ باداوراسلام زندہ بادوالے یہ سب نعرے وقتی اورشارٹ کٹ ڈراموں سے زیادہ کچھ نہیں۔اگرکوئی سمجھتاہے کہ بلاول بھٹوزرداری ان کوروٹی،کپڑااورمکان دے گا۔ اگر کسی کاخیال ہے کہ شہبازشریف اورمریم نواز اس ملک کوایشین ٹائیگراورگرین گولڈ بنا کر دیں گے۔ اگرکسی کاگمان ہے کہ عمران خان اس ملک کو نیا پاکستان اورریاست مدینہ بنائیں گے۔اگرکسی کو کوئی الہام ہے کہ مولانافضل الرحمن اورسراج لالا اس ملک میں شرعی نظام اوراسلامی انقلاب لائیں گے۔  تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ کل کو بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز،شہبازشریف،عمران خان،سراج الحق اورمولانافضل الرحمن کو برا بھلا کہنے اورگالیاں دینے سے بہتر ہے کہ آج ہی کسی اچھے ڈاکٹر اور حکیم سے اپناعلاج کرا لیں۔ کیونکہ یہ بازو ہمارے آزمائے ہوئے ہیں۔ان سے کسی خیرکی امیداور توقع رکھنا بھی فضول ہے۔جولوگ لیڈر اور حکمران ہوکربھی رعایا کو دو وقت کی روٹی اورانصاف نہ دے سکے وہ ملک اورقوم کوکیادیں گے۔؟لوگ مہنگائی، غربت، بیروزگاری،بھوک اورا فلاس کے ہاتھوں تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں مگرشہبازشریف سے مولانافضل الرحمن اوربلاول بھٹوزرداری سے عمران خان تک کسی کو اس کااحساس نہیں۔احساس ہے توصرف اپنی سیاست کا،اقتداراورکرسی کا۔عوام کو دو کیا۔؟ ایک وقت کی روٹی بھی نہیں مل رہی اورقوم کے ان نام نہاد لیڈروں کوآڈیواورویڈیولیکس سے فرصت نہیں۔کسی نے ٹھیک کہاتھاسیاست کے اس حمام میں کوئی ایک نہیں بلکہ یہ سارے ننگے ہیں۔ ان میں فرشتہ کوئی نہیں۔وہ جوملک معراج خالدکی طرح فرشتہ صفت ہواکرتے تھے وہ چلے گئے ہیں۔ وہ پہلے والے سیاست کرتے تھے ملک اور قوم کی خدمت کے لئے لیکن اب لوگ اور زمانہ بدل گیاہے اب سیاست کرسی، اقتدار اور لیڈری کاایک کھیل رہ گیاہے۔دل میں ملک وقوم کی خدمت کاکوئی جذبہ،کوئی تڑپ،کوئی ارادہ اورنیت ہویانہ لیکن عمران خان کی طرح دل میں یہ تمنا،یہ خواہش اوریہ آرزؤضرورہوتی ہے کہ میں ملک کا بادشاہ بن جاؤں۔ کوئی ان ظالموں سے یہ بھی نہیں پوچھتاکہ بادشاہ توتم پہلے بھی کئی سال اورکئی باربنے ہو۔ پہلے کون ساتیرماراہے آپ نے کہ اب دوبارہ بادشاہ بننے کے لئے دعائیں والتجائیں کررہے ہو۔ پی ڈی ایم کے قائدین ولیڈروں کی طرح سابق وزیراعظم عمران خان کی یہ دعائیں اورالتجائیں بھی اس وقت اقتدار اور کرسی کے لئے ہیں۔عمران ہیں یا بلاول، شہباز ہیں یا مولانا۔ سب کرسی کے چکرمیں لگے ہوئے ہیں۔اللہ کی رضااورعوام کی بھلاکے لئے بلی کی طرح نہ پہلے انہوں نے کوئی چوہاماراہے اورنہ اب یہ اللہ کی رضااورعوام کی بھلاکے لئے کوئی چوہا ماریں گے۔ اب بھی اگرکوئی یہ سمجھتاہے کہ خدمت خلق کے جذبے سے سرشاریہ عظیم لوگ ان کے لئے یااس ملک کے لئے کچھ کریں گے توایسے بندگان خدا کی خدمت میں دردمندانہ گزارش ہے کہ کل کو برا بھلا کہنے اور گالیاں دینے سے بہترہے کہ آج ہی کسی اچھے ڈاکٹرسے اپناعلاج کرا لیں۔

مصنف کے بارے میں