مہنگائی در مہنگائی

Ali Imran Junior, Daily Nai Baat, Urdu Newspaper, e-paper, Pakistan, Lahore

دوستو،ہمارے وزیراعظم کبھی کبھار لائیوفون کالز پر عوام سے بات چیت کرتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فون کال کے دوران ایک خاتون شہری نے مطالبہ کیا ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کریں یا پھر گھبرانے کی اجازت دیں۔ خاتون کی بات کے جواب میں وزیراعظم عمران خان مسکرا دیے۔ وزیراعظم نے جواب دیا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، حکومت سارا وقت مہنگائی پر کام کر رہی ہے۔۔وزیراعظم نے خاتون کو گھبرانا نہیں ہے کا مشورہ ایک بار پھر دیا لیکن ہم آپ کو مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ کو ہنسنا نہیں ہے۔۔مہنگائی کے ہاتھوں واقعی ملک بھرکے عوام انتہائی بے زار آچکے ہیں۔۔ ڈالر کی عمودی پرواز نے پاکستانی روپیہ کی قدرو قیمت اس حد تک گرا دی کہ روپیہ، روپیے کی خاطر گرنے والوں سے بھی نیچے گر گیا۔ ایشیا کی کمترین کرنسی اس وقت پاکستانی روپیہ ہے۔۔ کاروباری افراد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ کرایوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔روزگار کے آثار نظر ہی نہیں آرہے۔۔
بہت پرانے زمانے کی بات تو نہیں، یہ ایک دفعہ کا ذکر ہے والا قصہ بھی نہیں۔۔ بلکہ کچھ عرصہ قبل کی مگر کسی نامعلوم ملک کا ماجرہ ہے کہ۔۔ ایک تنگ حال شخص نے پرائم منسٹر سیکریٹریٹ فون کیا تو اس سے پوچھا گیا کہ آپ کی کیا مدد کی جاسکتی ہے؟؟۔۔وہ شخص بولا،میں وزیر اعظم بننا چاہتا ہوں۔۔پرائم منسٹر سیکرٹریٹ سے جواب دیا گیا۔۔ کیا تم پاگل ہو؟؟۔۔یہ سن کر اس شخص نے اطمینان کا سانس لیا اور مزید پوچھا کہ۔۔ کیا وزیراعظم بننے کے لئے یہی ایک شرط ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور بھی ہے۔۔ملانصرالدین جنہیں ملانصیرالدین کے نام سے زیادہ پہچاناجاتا ہے، وہ کس ملک سے تعلق رکھتے تھے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، ایک بار ملا جی اپنے گدھے پر الٹا سوار ہوگئے۔۔کسی نے پوچھا، ملا آپ گدھے پر الٹے کیوں سوار ہیں۔۔۔ جواب دیا کہ،پیچھے سے آنے والے خطرات دیکھنے کے لئے۔۔۔اس شخص نے پوچھا،تو پھر سامنے سے آنے والے خطرات کا کیسے پتہ چلے گا؟؟۔۔ ملا نصرالدین نے بڑی متانت سے جواب دیا کہ سامنے سے آنے والے خطرات ”گدھا“دیکھ رہا ہے۔۔۔بعض پاکستانیوں کے لئے کپتان کا نجات دہندہ کا تصور کچھ اس قدر بھیانک نکلا کہ یہ سب کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہمارا وزیراعظم ایک ایسا الیکٹریشن ہے جو بلایا گیا تھا زیرو کا بلب ٹھیک کرنے لیکن اس نے پورے گھر کی وائرنگ جلا ڈالی۔
 مہنگائی ہوتی کیسے ہے؟ہمارے اس سوال کے جواب میں باباجی نے ہمیں واٹس ایپ ”وجہ“بھیجی،جو کچھ اس طرح سے تھی۔۔ ایک دن ایک حکمران محل میں بیٹھا تھا جب اس نے محل کے باہر ایک سیب فروش کو آواز لگاتے ہوئے سنا۔۔سیب خریدیں! سیب!!۔۔حاکم نے باہر دیکھا کہ ایک دیہاتی آدمی اپنے گدھے پرسرخ سرخ سیب لادے بازار جارہا ہے۔حکمران نے سیب کی خواہش کی اور اپنے وزیر سے کہا، خزانے سے 5 سونے کے سکے لے لو اور میرے لیے ایک سیب لاؤ۔ وزیر نے خزانے سے 5 سکے نکالے اور اپنے معاون سے کہا، یہ 4 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں!۔۔ معاون وزیر نے محل کے منتظم کو بلایا اور کہا، سونے کے یہ 3 سکے لیں اور ایک سیب لائیں!۔۔محل کے منتظم نے محل کے سیکورٹی منتظم کو بلایا اور کہا، یہ دو سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔۔سکیورٹی منتظم نے گیٹ پر تعینات سپاہی کو بلایااور کہا، یہ ایک سونے کا سکہ لو اور ایک سیب لاؤ۔۔سپاہی سیب والے کے پیچھے گیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کہا۔۔اے احمق انسان، تجھے کچھ خبر بھی ہے تُو کہاں شور کررہا ہے، تیری دل دہلا دینے والی آواز سے بادشاہ سلامت کی نیند میں خلل پڑاہے،اب مجھے حکم ہے کہ تجھے قیدمیں ڈال دوں۔۔غریب سیب فروش فوری سپاہی کے قدموں میں گرگیا اور معافی تلافی کرنے لگا،کہنے لگا۔۔مجھ سے غلطی ہوگئی حضور، مجھے قید میں نہ ڈالو، آپ بے شک میرے سارے سیب لے لو۔۔سپاہی نے سیب  لیے اور آدھے اپنے پاس رکھے اور باقی اپنے منتظم افسر کو دے دیئے۔اور اس نے اس میں سے آدھے رکھے اور آدھے اوپر کے افسر کو دے دیئے اور کہا۔۔ یہ 1 سونے کے سکے والے سیب ہیں۔افسر نے ان سیبوں کا آدھا حصہ محل کے منتظم کو دیا، اس نے کہا ان سیبوں کی قیمت 2 سونے کے سکے ہیں! محل کے منتظم نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور آدھے اسسٹنٹ وزیر کو دیے اور کہا ان سیبوں کی قیمت 3 سونے کے سکے ہیں!اسسٹنٹ وزیر نے آدھے سیب اٹھائے اور وزیر کے پاس گیا اور کہا ان سیبوں کی قیمت 4 سونے کے سکے ہیں!
 وزیر نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور اس طرح صرف پانچ سیب چھوڑ کر حکمران کے پاس گیااور کہا۔۔ یہ 5 سیب ہیں جن کی مالیت 5 سونے کے سکے ہیں۔۔بادشاہ سلامت عرف حاکم نے اپنے آپ سوچا کہ اس کے دور حکومت میں لوگ واقعی امیر اور خوشحال ہیں، کسان نے پانچ سیب پانچ سونے کے سکوں کے عوض فروخت کیے۔ہر سونے کے سکے کے لیے ایک سیب۔اور لوگ ایک سونے کے سکے کے عوض ایک سیب خریدتے ہیں۔ یعنی وہ امیر ہیں۔اس لیے بہتر ہے کہ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے اور محل کے خزانے کو بھر دیا جائے۔اور پھر اس نے عوام پر نیا ٹیکس لگادیا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر آپ کسی کے ہم درد نہیں بن سکتے تو ”سردرد“ بھی نہ بنیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔