خدمت کرنے والے دو وزراء اعلیٰ

 خدمت کرنے والے دو وزراء اعلیٰ

عزم، ارادہ پختہ ہو،اقدام میں استقلال اورعمل میں استقامت ہو تو نا ممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے،شرط صرف نیک نیتی ہے۔ عبادت، سیاست، خدمت بھلے کام ہیں لیکن عبادت میں ریاکاری، سیاست میں مفاد اور خدمت میں شہرت کی تمنا شامل ہو جائے تو تینوں بڑے کام چھوٹے ہو جاتے ہیں،سیاست کو عبادت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور خدمت کو عبادت کا نام دیا جاتا ہے،باہم منسلک ان افعال میں اگر دنیا داری کا تڑکا لگ جائے تو تینوں بے کار کی مشق بن کر رہ جاتے ہیں،تیسری دنیا کے ممالک میں ان تینوں بڑے کاموں سے گھناؤنا مذاق کیا جاتا رہا ہے اور اب تک کیا جا رہا ہے،پاکستان میں جب عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کی کامیاب چندہ مہم کے بعد تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے سیاست میں قدم رکھا تو کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ کرکٹ کے میدانوں کا یہ کھلنڈرا ایک دن سیاسی میدان میں بھی کامیاب ہو گا اور ملک کا وزیر اعظم بنے گا،مگر شوکت خانم کے ذریعے خدمت سے سیاست کا آغاز کرنے والے نے اپنی تمام توجہ ان عوامل پر رکھی جو ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھے،یوں عمران خان نے سیاست کو ملک اور قوم کی خدمت کے ذریعے عبادت کا درجہ دے دیا،کرپشن کیخلاف ان کی جدو جہد میں کامیابی نا کامی کے تناسب سے قطع نظر عمران نے سوئی ہوئی قوم میں زندگی کی روح پھونک دی اور انہیں غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ دیا۔ 2008ء کے الیکشن میں عمران خان تحریک انصاف کے واحد امیدوار تھے جنہوں نے کامیابی سمیٹی،2013ء میں وہ خیبر پختونخوا میں بڑے بڑے جغادریوں کو شکست سے دوچار کر کے صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے،2018ء کے الیکشن میں وہ وفاق کیساتھ پنجاب اور کے پی کے میں بھی حکومت سازی کے اہل ٹھہرے،مگر یہ قوم کی بد نصیبی تھی یا خود ان کی کہ وہ قوم کی توقعات پر پورا نہ اترے،اور2022ء میں اپنے ہی ساتھیوں کے وفاداری تبدیل کرنے کے بعد اقتدار سے باہر کر دئیے گئے۔
اسی دور میں بھارت میں ارویندر کیجریوال کے نام سے تبدیلی کی ایک لہر اٹھی،عام آدمی پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ کے الیکشن میں قسمت آزمائی کرنے والے کیجریوال نے دہلی کے میونسپل انتخابات میں غیر متوقع طور پر معمولی اکثریت حاصل کی،2013ء کے ریاستی انتخابات میں وہ بی جے پی اور کانگریس کو شکست سے دوچار کر کے وفاقی دارالحکومت میں حکومت کے حقدار ٹھہرے،کرپشن کیخلاف بل پاس نہ ہونے پر 45روز بعد ہی حکومت سے استعفیٰ دیدیا،مگر عوام نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا،2022ء کے ریاستی الیکشن میں وہ تیسری بار وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے،حیرت انگیز طور اسی سال پنجاب کے ریاستی الیکشن میں 117میں سے 97نشستوں پر کامیابی سمیٹ کر کانگریس،حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور ریاست میں کئی سالوں سے اقتدار میں رہنے والی پارٹی اکالی دل کو شکست سے دوچار کیا۔ اس کامیابی کے پیچھے وہ اقدامات تھے جو انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ دہلی کئے،کیجریوال نے سیاست کو عبادت سمجھا اور خدمت کا ذریعہ بنایا،غریب بے آسرا خواتین کیلئے وظیفہ مقرر کیا،ورکنگ خواتین کو سفر کی مفت سہولت فراہم کی،معذور افراد کو ملازمت دی،گلیوں محلوں میں صفائی کے کام میں خود جھاڑو پکڑ کے شریک ہوئے،سکولوں میں بچوں کو سہولیات فراہم کیں،معیار تعلیم پر توجہ دی،اساتذہ کے مسائل کو حل کیا،سرکاری ہسپتالوں میں عوام کیلئے علاج معالجہ کی سہولت کو بہتر کیا ادویہ کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا،خاص طور پر معمر افراد،خواتین اور بچوں کیلئے ان کی خدمات کو پورے بھارت میں تسلیم اور قابل تعریف سمجھا گیا،نتیجے میں دہلی کے بعد پنجاب میں بھی شاندار کامیابی سمیٹی،اس پذیرائی کو دیکھتے ہوئے تجزیہ کاروں کی رائے میں تبدیلی آگئی جو لوگ کہتے تھے کہ کیجریوال موسمی بخار ہے جلد اتر جائے گا وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیجریوال عرصہ سے حکمران جماعتوں کو ٹھکانے لگاتے جا رہے ہیں اور آئندہ الیکشن میں وہ ہریانہ یا اتر پردیش میں بھی واضح کامیابی حاصل کر سکتے ہیں،بعض کے خیال میں راجستھان میں بھی ان کو غیر معمولی پذیرائی مل سکتی ہے۔
 صحت تعلیم اور میونسپل خدمات کے علاوہ کیجریوال کا ایک کارنامہ سرکاری عملہ کو عوام کا خادم بنانا بھی ہے،کسی سرکاری محکمہ میں کسی شہری کو اپنے کام کیلئے رشوت دینا پڑتی ہے نہ کئی روز چکر کاٹنا پڑتے ہیں،ہر کام ازخود طریقے سے استحقاق کے مطابق انجام پاتا ہے، کیجر یوال  نے ایک انقلابی قدم اٹھایا ہے،جس کے تحت شہریوں کواپنے کاموں کیلئے سرکاری محکمہ میں جانا ہی نہیں پڑے گا،بلکہ سرکاری محکمہ کا عملہ خود شہری کے گھر جا کر اس کا مسلۂ حل کرے گا،اس حوالے سے تشہیری مہم شروع کر دی گئی ہے،اس اقدام کو تجزیہ کار گیم چینجر قرار دے رہے ہیں،ان کے خیال میں اگر یہ ممکن ہو گیا تو کیجریوال کو سیاسی میدان میں مزید آگے بڑھنے سے روکنا ممکن نہیں رہے گا۔
 کیجریوال کا سیاست میں قدم جمانے کے حوالے سے عمران خان سے موازنہ کیا جا سکتا ہے مگرخدمت کے حوالے سے ان کا موازنہ اگر چودھری پرویز الٰہی سے کیا جائے تو غلط نہ ہو گا،جنہیں دوسری مرتبہ وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا مگر اس مختصر وقت میں انہوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے جو تحریک انصاف کی حکومت ساڑھے تین سال میں نہ کر سکی تھی،سیلاب سے تباہی،اور متاثرین کی بحالی کا سامنا نہ ہوتا تو شائد پرویز الٰہی کی سپیڈ ان کو بھی مات دے دیتی جن کو اپنی سپیڈ پر فخر رہا ہے،اس مختصر عرصہ میں سرکاری ملازمتوں سے پابندی اٹھانا،معذور افراد کو کوٹہ کے مطابق ملازمتیں فراہم کرنا،خصوصی الاؤنس کی بحالی،بلا معاوضہ تعلیم کی سہولت،سرکاری ہسپتالوں میں اور تعلیمی اداروں میں خالی آسامیوں پر فوری بھرتی،ادویہ اور جراحی کی مفت فراہمی،کسانوں کو سہولیات دینے کا اعلان ایسے کام ہیں جو بہت پہلے ہو جا نا چاہئے تھے،چودھری پرویز الٰہی جانتے ہیں کہ تعلیم و صحت کے مسائل کیساتھ شہریوں کا سب سے بڑا مسئلہ سرکاری عملہ کی رشوت خوری ہے،تھانہ کلچر پولیس مظالم بھی فوری حل طلب مسائل ہیں،اگر چہ اس حوالے سے کچھ پیش رفت ہوئی ہے مگر اس سے مطلوبہ نتائج کا حاصل ہونا ممکن نہیں،پولیس گردی اور تھانہ کلچر جس قدر عام اور پختہ ہو چکا ہے اس کو ختم کرنے کیلئے اس سے زیادہ سخت اقدامات کی ضرورت ہے،ایسے ہی سرکاری عمال بھی اپنے فن میں طاق ہو چکے ہیں ان کو راہ راست پر لانے کیلئے وقتی اور عارضی نہیں بلکہ مستقل اقدامات کی ضرورت ہے۔مجھے یقین ہے کہ چودھری پرویز الٰہی خدمت کی سیاست میں عبادت تک جائیں گیاور پنجاب میں بہت جلد عوام کو انکی دہلیز پر وہ تمام سہولیات ملیں گی جو کیجریوال دینے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں ہی نہیں غریب ممالک میں عوامی مسائل و مشکلات کی نوعیت ایک ہی جیسی ہے،اس لئے اگر کیجریوال کے گورننس سسٹم کو سٹڈی کر کے ہمارے حالات اور معاشرے کے مطابق ڈھال کر اپنایا جائے تو پھر ترقی کی راہیں کھلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ 

مصنف کے بارے میں