خوراک سے بیماریوں کاعلاج

خوراک سے بیماریوں کاعلاج

انسانی زندگی میں خوراک کی اہمیت سے قطعاً انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بھوک انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ پیدائش سے لے کر موت تک خوراک کی تلاش میں جہاں تک ممکن ہو کوشش کرتا رہے۔ جب پیٹ بھر کرخوراک استعمال کرنے کے بعد بھوک تو مٹ جاتی ہے لیکن غذائیت پوری ہوئی یا نہیں یہ کھائی جانے والی خوراک پر منحصر ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی خوراک انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے ذریعے ہم اپنے جسم کو وہ تمام ضروری اجزاء مہیا کر سکتے ہیں جوبہترین نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔ جو ناصرف ہمیںبیماریوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں بلکہ جسمانی کارکردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ پرکشش وضع و قطع بھی فراہم کرتے ہیں۔


پنجاب فوڈ اتھارٹی  نے صحت عامہ کے تحفظ کے لیے نئے منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ جس کے تحت پنجاب کے تمام اضلاع غذائی کلینک کو فعال کیا گیا ہے۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کے زیر سایہ شروع کیے جانے والے اس منصوبے کا مقصدخوراک، حفظان صحت اور غیر صحت مند ماحول میں بہتری، ہسپتالوں میں مریضوں کی بڑھتی تعداد میں کمی ،سکول جانے والے بچوں کی بہتر نشوونما اوربڑھتے امراض پر قابو پانے کیلئے لوگوں میں آگاہی فراہم کرنا ہے ۔اس کے علاوہ عام شہریوں کویہ شعور فراہم کرنا ہے کہ مہنگی ادوایات کے بجائے روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی خوراک سے ہی بیماریوں کاعلاج ممکن ہے۔ اس کے علاوہ حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی خوراک کے حوالے سے راہنمائی فراہم کرنا ہے۔


قومی نیوٹریشن سروے کے مطابق پنجاب میں 50 فی صد سے زائد افراد مختلف غذائی اجزا کی کمی کا شکار ہیں۔جس کی سب سے بڑی وجہ غذائیت کے حوالے سے معلومات کا فقدان ہے۔ اسی حوالے سے پنجاب فوڈ اتھارٹی کا فیس بک لائیو پروگرام ’غذاکی بات‘ لوگوں میں صحت مند غذا کے کلچر کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کلینکس کے قیام سے تمام طبقات کے لوگ یکساں مفید ہو سکیں گے۔ یہاں یہ امر بہت ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں غذائی کلینک کا مقصد صرف اور صرف موٹاپا سے چھٹکارا سمجھا جاتا ہے لیکن دراصل اس کا مقصد خوش خوراکی کی عادت سے نہ صرف صحت کو بہتر بناناہے بلکہ بڑھاپے کے عمل کوبھی سست کرنا ہے۔ہماری غذا اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ہم کیسے دکھائی دیتے ہیں، کیسے کام کرتے ہیں اور کیسا محسوس کرتے ہیں۔ موٹاپا، بلند فشار خون، امراض قلب، ذیابیطس، کینسر اور امراض جگر جیسی بیماریوں کے حوالے سے انسدادی نگہداشت صحت کا اہم ترین جُز غذائیت ہے۔


پنجاب کے شہریوں کی اوسط عمرتقریباً 55 سے 60 سال ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں اوسط عمر 90 سے 100 سال ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی خوراک ہے۔ پنجاب میں استعمال ہونے والی ناقص خوراک کے باعث ناصر ف اوسط عمر میں واضح طور پر کمی واقع ہوئی ہے بلکہ عوام آئے روز نت نئی بیماریوں کا شکار بھی ہوتی ہے۔ صوبہ پنجاب کا دیگر صوبوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس علاقے کو لاتعداد وسائل سے نوازا ہے ۔ عام شہری کو بھی بہتر اور معیاری غذا میسرہے لیکن اس کے باوجود پنجاب کے ہسپتالوں میں روزبروز مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔ بیماریوں کی بڑھتی شرح کے باعث شعبہ صحت کو بھی شدید مشکلا ت کا سامنا ہے۔ ا س منصوبے کی مدد سے ہسپتالوں میں عوام کی بڑھتی ہوئی شرح کو نہ صرف کنٹرول کیا جا سکے گا بلکہ ہر خاص وعام کو جسمانی نشوونما کو مزید بہتربنانے میں مدد ملے گی ۔


امریکی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں تقریباً 44 فیصد بچے ایسے ہیں جن کا قد ان کی عمر کے مقابلے میں کم ہے جب کہ 50 سے 60 فیصد بچے اور مائیں بنیادی وٹامنز کی کمی کا شکار ہیں جو کہ ذہنی و جسمانی نشونما کے لیے بے حد ضروری ہیں۔اسی سروے میں بتایا گیا کہ آئیوڈین کی کمی کی وجہ سے انسانی باڈی کا آئی کیو لیول دس پوائنٹس کم ہو جاتا ہے۔وٹامن اے کی کمی کی وجہ سے جسمانی چستی پر فرق پڑتا ہے اور بینائی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اگر عوام کو درپیش غذائی مسائل پر قابو پا لیاجائے اورہر شہری اپنی غذائی ضروریات کو پورا کریں تو وطن عزیزبین الاقوامی سطح پر ترقی کے مقررہ اہداف کو باآسانی حاصل کر لے گا ۔ جو بجٹ عوام کے علاج معالجے کے لیے مختص کیا جاتا ہے اسے دیگر اہم امور پر خرچ کیا جاسکے گا۔


مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل شہریوں کے لیے غذائی پلان پر عمل کرنے میں مشکلات کا سبب بنتے ہیں اورصحت بخش خوراک کا حصول لوگوں کی اکثریت کے لیے بظاہر آسان نہیں ہوتا لیکن چند بنیادوں چیزوں کوخوراک میں شامل کرنے سے غذائی ضروریات کو خاصی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)

مصنف کے بارے میں