نواز شریف کی واپسی

نواز شریف کی واپسی

نواز شریف واپس تو آ رہے ہیں مگر کب اور کن حالات میں؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، قوی امکان ہے کہ بڑے میاں اگست میں نگران حکومت کے وجود میں آنے سے پہلے وطن واپس آئینگے، شہباز شریف کی حکومت میں ہی انکی واپسی اس لئے بھی ضروری ہے کہ الیکشن سے پہلے انہیں اپنی سزاؤں کے خاتمے اور اہلیت کی حتمی بحالی لازم ہے، اگر الیکشن سے پہلے نواز شریف دوبارہ اہل قرار نہیں پاتے تو ووٹروں کا کم ٹرن آؤٹ الیکشن کی پہلے سے گرتی ساکھ کو مزید متاثر کر سکتا ہے، ظاہر ہے کہ اگر دونوں ہی بڑے انتخابی حریف عمران خان اور نواز شریف الیکشن سے باہر ہونگے تو لوگ ووٹ ڈالنے گھروں سے باہر کیوں نکلیں گے، دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں نواز شریف کی متنازعہ نا اہلی کے باعث جو اس ملک اور انتخابی عمل کی ساکھ کیساتھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے،گھڑی کی سوئیوں کو 2016 تک واپس لیجانے کا فیصلہ کیا ہے اور عمران خان خان کو اپنی فائل سے ایک وائرس کی مانند ڈیلیٹ کئے بغیر ایسا کرنا ممکن بھی نہیں تھا، مگر اقتدار کے امیدواروں کی فہرست سے ڈیلیٹ کیا گیا ہے، ملک کے وزراء اعظموں کیساتھ اتنا ہو جانے کے بعد اب دہشت گردوں کے ذریعے لیڈروں کا قتل، ججوں کے کسی گینگ کے ہاتھوں کسی لیڈر کا عدالتی قتل، اس کو جیل کی سزا، جلاوطنی، حکومت سے برطرفی یا تا حیات نا اہلی جیسے فارمولے بیچنا آسان نہ ہوتا اس لئے طے ہوا کہ بس الیکشن دوڑ سے باہر کر دیا جائے، ویسے بھی عمران خان کے ملکی نظام کیخلاف قابل سزا اصل جرائم ایسی نوعیت کے ہیں کہ اسکے لئے اسکو اقتدار میں لانے والے جرنیلوں کو بھی سزا دینا لازمی ہو جاتا جو ممکن نہیں لگتا، اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک ان حالات میں آئندہ الیکشن کی ساکھ کا انحصار ووٹرز ٹرن آؤٹ پر ہو گا، مائنس عمران خان ووٹرز ٹرن آؤٹ کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے اور اس مسئلے کا حل صرف اور صرف ایک ایسے سیاستدان کی الیکشن میں شمولیت لازمی ہے جو عمران خان کا سب سے بڑا سیاسی مخالف تصور ہوتا ہے، اور وہ ہے صرف اور صرف نواز شریف اور کوئی نہیں، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان دونوں کو الیکشن سے باہر رکھ کر شہباز شریف یا شاہ محمود قریشی کے لئے لوگوں کو ووٹ کے لئے گھروں سے باہر نکالا جا سکتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے، عمران خان کو الیکشن کی دوڑ سے باقاعدہ قانونی طور پر باہر نہیں کیا گیا تو بھی 2018 کے گناہ کا کفارہ پوری طرح ادا نہ ہو گا، مائنس عمران خان آئندہ الیکشن میں ووٹرز ٹرن آؤٹ کا مسئلہ ہوا بھی تو اسکا واحد حل نواز شریف کی وطن اور سیاست میں واپسی پر عوامی سمندر کے استقبال کے ساتھ واپسی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، یہ عوامی استقبالی سمندری لہر کسی بڑی معاشی خوش خبری کے ساتھ ہی اْٹھ سکتی ہے، چاہے وہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے حتمی معاہدے کی بریکنگ نیوز ہو یا سعودی عرب میں نواز شریف کی حرمین شریفین میں حاضری اور ان کے خادمین سے ایسی ملاقات کے جس کے بعد نواز شریف پاکستان کی ڈوبتی معیشت کا سب سے بڑا سہارا بن کر لاہور ائیرپورٹ پر اترے، عوام کو یہ دونوں خوشخبریاں مل گئی تو نواز شریف کی وطن اور سیاست میں واپسی کے بعد اقتدار میں واپسی کو بھی کوئی نہیں روک سکے گا، اور کچھ نہیں تو آئندہ الیکشن کے نتائج پر مائنس عمران خان کا شور مدھم ضرور پڑ جائے گا-
اب سوال یہ ہے کہ نواز شریف غیر قانونی اقامہ رکھنے کے قانونی داغ کو دھونا چاہیں گے یا محض اس میں تاحیات نااہلی کو عدالتی تشریح کے ذریعے پانچ سال قرار دلوا کر داغ سمیت سیاست کی عبادت میں شامل ہو جائینگے؟ جہاں تک پانامہ کیس میں عدالتوں کی سزاؤں کا تعلق ہے تو اس میں تو اپیلوں کے ذریعے ان کی جرم سے ہی بریت کا امکان موجود ہے۔ جبکہ اقامہ والے سزا کا داغ تو سپریم کورٹ نے نظر ثانی میں برقرار رکھا تھا، جو بھی ہونا ہے اب نگران حکومت کے آنے سے پہلے یہ عمل مکمل ہونا ضروری ہے، نواز شریف کا نگران حکومت کے دوران الیکشن مہم کا شروع کرنا ووٹرز ٹرن آؤٹ کے لئے ضروری ہے، کم از کم تاحیات نااہلی اگر پانچ سال تک بھی محدود کر دی جاتی ہے تو پھر نواز شریف کے پانچ سال تو کٹ چکے ہونگے اور عمران خان کی نا اہلی کے پانچ سال ابھی شروع ہونگے، بظاہر نواز شریف کی تاحیات نااہلی پانچ سال میں بدل جائیگی اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ پانچ سال کی نا اہلی کسی کے لئے تاحیات نا اہلی بن جائے۔ ان تمام حالات اور واقعات میں نظر یہ آ رہا ہے کہ اکتوبر2023 میں الیکشن سے پہلے عمران خان جیل میں نہ سہی الیکشن کی دوڑ میں بھی نہیں ہونگے اور نواز شریف ملک کے معاشی مسیحا کی مانند چوتھی بار سامنے آئیں گے، مگر اب کی بار کیا وہ 1985 والے نواز شریف ہونگے یا 2016 والے اور پھر کیا وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے؟ کیا نواز شریف، چیف جسٹس اور آرمی چیف کو آئین کے مطابق اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے سولین اداروں کو مضبوط کرینگے؟ اگر نہیں تو سویلین بالادستی کے بنیادی اصول کو سودا کر کے زندگی کے آخری چند سال اقتدار میں گذارنے کے لئے عمران خان کی خواہش بھی بلاجواز تو نہیں۔