اب فریاد ہوگی، ملک بچاؤ!....

اب فریاد ہوگی، ملک بچاؤ!....

قیامِ پاکستان کے چند برس بعد ہی سیاسی خلفشار شروع ہوچکا تھا۔ تب سے آج تک ملک میں امن و امان کا مسئلہ ہی رہا ہے۔ شروع شروع میں بیورو کریسی نے حکومت کے نظام کو قابو میں لانے کی کوشش کی۔ غلام محمد نے اس کا آغاز کیا پھر بیورو کریسی نے اپنی معاونت اور تحفظ کے لیے فوج کو استعمال کیا۔ ایک عرصے تک جمہوریت اور آمریت کے درمیان آنکھ مچولی چلتی رہی ، پھر فوج نے نوکر شاہی کو ایک طرف کیا اور مختلف ادوار میں حکمرانی کے مزے لوٹتی رہی۔ اس دوران سیاست دانوں کو بھی حکمرانی کے مواقع ملتے رہے، مگر کسی کی بھی حکومت نے ڈلیور نہیں کیا۔ جو کچھ صنعتی، زراعتی اور دفاعی ترقیاں ہوئیں زیادہ تر فوجی حکومتوں کے زمانے میں ہوئیں۔ عام طور پر امن و امان بھی ان ہی ادوار میں نظر آیا۔ سوویت افغان جنگ کے بعد بیرونی مداخلت ایسی ہوئی کہ پاکستانیوں کا سکون غارت ہوگیا اور ہر طرف دہشت گردی کا راج نظر آیا۔ اندرونی سیاست روز بروز خراب ہوتی گئی اور اب تک جو کچھ ملک میں ہورہا ہے اسے سیاست نہیں کہا جاسکتا۔ سیاست دانوں نے جمہوریت کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں میں سے ہر ایک کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس کے مخالف کی حکومت چاہے جیسے بھی ہو ختم ہوجائے، غیر جمہوری عمل سے ہی کیوں نہ جائے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ فوج ہی کیوں نہ آجائے، مگر مخالف جماعت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ آج کل بھی پاکستان میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ پی ڈی ایم بننے کے بعد سے حزب اختلاف کی جماعتوں کا ایک ہی ہدف تھا کہ کسی طرح عمران خان کی حکومت کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ ملک میں معیشت کی حالت دگرگوں تھی اور سنبھلنے کی کوئی امید بھی نہیں تھی۔ ایک تو کورونا کی وجہ سے پوری دنیا معاشی بدحالی کا شکار ہوگئی، حتیٰ کہ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی شدید متاثر ہوئے۔ مہنگائی، افراطِ زر، پیٹرول وغیرہ کا بحران ہر جگہ سر اٹھانے لگا۔ مگر پاکستان میں حکومت مخالف جماعتوں نے مخالفت میں حکومت پر کڑی تنقید شروع کر دی۔ پھر دو برس قبل امریکا میں اقتدار کی تبدیلی ہوئی اور ان ہی دنوں امریکا کو افغانستان سے نکلنا پڑا اور اس کا نزلہ بھی امریکیوں نے پاکستان پر ہی گرایا۔ عمران خان کی حکومت نے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ سے تعلقات استوار کرلیے تھے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ ان کے دور میں پاکستان یا افغانستان پر ایک بھی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔ امریکا ان چار برس میں کسی مسلم ملک پر حملہ آور بھی نہیں ہوا۔ 
صدرجو بائیڈن نے برسراقتدار آتے ہی پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ اختیار کیا۔ ذاتی طور پر وہ پہلے بھی جب نائب صدر تھے، پاکستان کے مقابلے میں ان کا جھکاﺅ بھارت کی طرف ضرورت سے زیادہ رہا تھا۔ انہوں نے نائب کے طور پر ایک بھارتی نژاد خاتون کو چنا جو منتخب بھی ہوئیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جو بائیڈن کی انتظامیہ میں بھارتی نژاد امریکیوں کی بڑی تعداد ہے اور اتنی اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان سرد مہری کی یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔
مندرجہ بالا تمام باتوں کا اثر عمران حکومت پر پڑا اور ابتدا سے آخر تک یہ حکومت بظاہرسنبھل نہ سکی۔ آخر میں یہ بھی ہوا کہ عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تھوڑی سی رسّا کشی بھی ہوئی اور خبروں کے مطابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید وجہ بنے۔ حالاں کہ تقریباً تین برس تک سول حکومت اور فوج کے ادارے کے درمیان بہت ہم آہنگی تھی۔ اگر موازنہ کیا جائے تو میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری تو عسکری ادارے کے خلاف کھل کر میدان میں آگئے تھے اور براہ راست آرمی چیف پر کڑی تنقید کرتے تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی جلسوں میں عسکری ادارے کو نشانہ بناتے تھے۔ اس لحاظ سے عمران خان اور فوج میں اتنی بڑی محاذ آرائی نہیں ہوئی تھی، مگر شاید فوج نے ایک واقعے کو ہی نوشتہ دیوار سمجھ لیا ہو۔ ورنہ اس بات کا کریڈٹ تو آرمی چیف کو جاتا ہے کہ عمران حکومت کے ابتدا میں معیشت کی جو خراب حالت تھی اس کے لیے جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمران خان کا بہت ساتھ دیا تھا اور امریکا، چین، سعودی عرب اور دیگر ممالک میں عمران کے ساتھ گئے تھے اور اس سے صورت حال بہتر بھی ہوئی تھی۔ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کی سب سے بڑی کم زوری یہ تھی کہ بہت سخت گیر اور غیر لچک دار ہیں۔ انہوں نے کئی محاذ ایک ساتھ کھول لیے۔ اپنی پارٹی کے اندر مختلف گروپس کو ایک ساتھ ملا کر نہیں رکھ سکے، جس کی وجہ سے ایک بڑا گروپ ان کا مخالف ہوگیا۔ ملک کی کسی دوسری بڑی جماعت خاص طور سے مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سے گفت و شنید تک کے لیے بھی کبھی تیار نہیں ہوئے۔ پارلیمنٹ میں قائدِ حزب اختلاف کی حیثیت آئینی ہوتی ہے۔ وزیراعظم اور قائدِ حزب اختلاف باہمی مشوروں سے ہی نیب اور الیکشن کمیشن کے سربراہوں کو چنتے ہیں۔ مگر عمران خان، شہباز شریف سے ہاتھ ملانے تک کے روادار نہیں تھے۔
اب جو نئی حکومت آئی ہے، خود اس کی حالت اس سے بھی نازک ہے، جب عمران خان برسراقتدار آئے تھے۔ عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے عمران خان کا گراف بہت تیزی سے گر رہا تھا اور یہی قیاس آرائی تھی کہ آئندہ انتخاب میں وہ اتنی نشستیں بھی نہیں لے پائیں گے جتنی پچھلی بار لی تھیں۔ اگر پی ڈی ایم ایک برس اور انتظار کرلیتی تو وہ حکومت ضرور حاصل کرلیتے۔ اب اگر فوری الیکشن ہوتے ہیں تو عمران خان کو بھاری اکثریت بھی مل سکتی ہے۔ اگر وقت پر ہوئے تب موجودہ حکومت کی کارکردگی شدید متاثر ہونے کے خدشات زیادہ ہیں۔ ایسی صورت میں بھی عمران خان مظلومیت کی بنیاد پر مقبول ہوتے جائیں گے۔ مسلم لیگ اور دیگر اتحادی جماعتوں میں اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف اور مریم نواز چاہتے ہیں کہ فوری الیکشن کرائے جائیں، جب کہ شہباز شریف اتحادیوں کے مشورے پر حکومت میں رہنا چاہتے ہیں۔ ان کو کنفیوزڈ کرنے میں بڑا ہاتھ آصف علی زرداری کا ہے۔ اگر فوری انتخابات ہوتے ہیں تو پیپلزپارٹی اس بار بھی سندھ تک محدود ہوجائے گی۔ پنجاب میں پی ٹی آئی اور زیادہ تر ن لیگ کونشستیں مل سکتی ہیں۔ اس لیے زرداری چاہتے ہیں کہ ڈیڑھ سال مزید ن لیگ کے ساتھ مل کر سندھ کے ساتھ ساتھ وفاق میں بھی حکمرانی کے مزے لوٹیں۔ ماضی قریب اور موجودہ صورت حال میں زرداری صاحب کی پارٹی کو وفاق سمیت کسی صوبے کی حکومتی شراکت داری کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ اس حکومت میں وزارتِ خارجہ اور اسپیکر شپ سمیت کئی وزارتیں وفاق میں ملی ہوئی ہیں۔ پھر بلاول کو حکومت میں رہ کر بھرپور ٹریننگ بھی مل رہی ہے۔
آخر میں ایک اہم بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ آج کل پاکستان کی سیاست میں ایک دوسرے سے اختلافات نہیں بلکہ دشمنیاں جنم لے رہی ہیں۔ اخلاقی گراوٹ اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ عورت مرد کا امتیاز مٹ چکا ہے۔ مرد تو مرد خواتین بھی غلیظ زبان استعمال کررہی ہیں۔ اپوزیشن تو اس وقت ایک ہے یعنی تحریکِ انصاف، مگر حکومت (ن) لیگ، فضل الرحمٰن کی جمعیت اور زرداری کی پارٹی۔ وزیراعظم آپریشنل دو لگ رہے ہیں۔ شہباز شریف اور مریم اور چیف وزیراعظم نواز شریف۔ وزرائے خزانہ، مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار۔ وزرائے خارجہ بلاول، حنا ربانی کھر اور غیر اعلانیہ طارق فاطمی۔
حالات اس ڈگر پر جارہے ہیں کہ ایک وقت آسکتا ہے کہ عوام چیخ چیخ کر فوج سے فریاد کرے کہ ملک بچاؤ۔

مصنف کے بارے میں