نوازشریف کا مستقبل ختم ہو چکا یا نہیں ؟ چوہدری نثار کا حیران کن جواب سامنے آگیا

نوازشریف کا مستقبل ختم ہو چکا یا نہیں ؟ چوہدری نثار کا حیران کن جواب سامنے آگیا
کیپشن: فوٹو سوشل میڈیا

اسلام آباد: سابق وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہاہے کہ "نوازشریف سے تعلق ختم ہوچکا ، خود کومسلم لیگ ن سے الگ سمجھتاہوں"، صوبائی اسمبلی کاحلف لیکر الیکشن کی شفافیت پر مہر ثبت نہیں کرناچاہتا۔ ایک سوال کے  جواب میں  کہ " کیا میاں نواز شریف کا کوئی سیاسی مستقبل ہے یاختم ہوچکا ہے؟" تو چودھری نثار کا کہنا تھا کہ یہ میری فیلڈ نہیں ہے بلکہ یہ شیخ رشید کی فیلڈ ہے۔

 نجی ٹی وی کو دیئے گئے ایک  انٹرویو میں چودھری نثار  کا کہنا تھا کہ بات تب ہی کرنی بنتی ہے جب اس کا کوئی مقصد ہو، ان تین ماہ میں طبی وجوہات کی بنا ئ پر ملک سے باہر رہا اور کچھ اور ایشوز تھے جس کی وجہ سے میں بات نہ کرسکا ، اس وقت پاکستان میں بات کرنے کیلئے رہا بھی کیاہے ؟ میڈیا اور پارلیمنٹ میں ایک طوفان بدتمیزی ہے جس میں بات کرکے مزید اضافہ نہیں کرناچاہتا۔ الیکشن میں شکست کے حوالے سے سوال پر چودھر ی نثار نے کہا کہ میں مسلم لیگ ن کے بغیر چار الیکشن جیتا ہوں اور جہاں تک اس الیکشن کا تعلق ہے اس پر ایک کہانی اور افسانہ لکھا جاسکتاہے ، میر ادل اس پر بات کرنے کوکرتاہے لیکن اتنا ابہام ہے کہ اس پر با ت کیا کروں؟

میر ے دونوں قومی اسمبلی کے حلقوں میں ایک لاکھ 33ہزار ووٹ مجھے ملے اور صوبائی اسمبلی میں مجھے 53ہزار ووٹ ملے جو کسی بھی حلقے میں سب سے زیادہ حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد ہے ، میرے مخالف دونوں سیٹوں پر ن لیگ کے امیدوار کھڑ ے ہوئے اور دونوں کی ضمانتیں ضبط ہوئیں، عوام کا نمائندہ ہونا ایک اعزاز ہے چاہئے وہ قومی اسمبلی کا نمائندہ ہویا صوبائی اسمبلی کا ہو۔ میں صوبائی اسمبلی کاحلف اس لئے نہیں لے رہا کہ اگر میں نے یہ حلف لیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں قومی اسمبلی کے الیکشن کی شفافیت پرمہر ثبت کررہا ہوں ، اب سچ اورجھوٹ میں تمیز ہی ختم ہوگئی ہے ، اس لئے بندہ کیا اپنا وقت ضائع کرے؟ انہوں نے کہا میں اپنے صوبائی اسمبلی کے حلقہ میں 36ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیتاہوں اور اگر تحریک انصاف کی ہوا اوپر چل رہی تھی تو یہ نیچے کیوں نہیں آئی ، لوگ جہاں قومی اسمبلی کیلئے ووٹ دیتے ہیں وہاں صوبائی اسمبلی کیلئے بھی ووٹ دیتے ہیں ، اتنا زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ میرے علاقے میں سو بندے بھی ایسے نکال دیں کہ جو یہ کہیں کہ ہم نے صوبائی اسمبلی میں تو چودھری نثار کو ووٹ دیا لیکن قومی اسمبلی کیلئے نہیں دیا تو میں الیکشن کوشفاف تسلیم کرلوں گا۔

مسلم لیگ ن کی رفاقت کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ میرا تعلق میاں نواز شریف سے مکمل طور پر ختم ہوچکاہے اور میں اب خود کومسلم لیگ ن سے الگ سمجھتا ہوں، جب سے علیحدگی ہوئی ہے میں نے نوازشریف کو کوئی پیغام بھیجاہے اور نہ ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اورنہ کوئی رابطہ ہواہے ، یہ باتیں محض پھیلائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے اپنے آپشن بہت محدود کرلئے ہیں ، اب میرے مشورے کوماننے کا فائدہ کیاہے جب چڑیاں چک گئیں کھیت ، انہوں نے کہا کہ میں نے نیک دلی سے مشورہ دیا تھا ، نوازشریف پر صرف خاندان کی نہیں بلکہ سارے ملک کی ذمہ داری تھی ، اب نواز شریف کی خاموشی کی مجھے سمجھ نہیں آتی ، اگر اس خاموشی سے نواز شریف کوکچھ مل گیا تو کہا جائے گا کہ ڈیل ہوگئی ہے ، نوازشریف پر کیسز اور ان کے خاندان کے حوالے سے میں کوئی بات نہیں کروں گا۔

چودھری نثار نے کہا کہ مسلم لیگ ن کو میری بہت سے باتوں سے شائد آئندہ کیلئے سبق مل جائے اور پس منظر بیان کرنے سے شائد وہ چیزیں سامنے آجائیں جو ملک اور جمہوریت کیلئے بہتر ہیں، یہ خالص سیاسی پس منظر ہے جس کی وجہ سے میرے اور نوازشریف کے درمیان خلائ پیداہوا جوپھر بڑھتا گیا۔ میں نے نوازشریف سے کبھی کوئی پارٹی عہدہ نہیں مانگا ، میں اس بات پر فخر کرتا تھا کہ جومیرے دل میں ہوتا تھا وہ نوازشریف کے سامنے کہتا تھا اور اس بات کوہمیشہ عزت و احترام سے سنا گیا ، کبھی عمل کیاگیا ا ور کبھی عمل نہیں کیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ میں نے پانامہ کیس کے حوالے سے محتاط زبان کے استعمال کا مشورہ دیا اور کہا کہ آپ چپ نہ رہیں لیکن عدلیہ کوٹارگٹ کرنے کی بجائے کہیں کہ میں اس کا مقابلہ کروں گا اورانصاف عدلیہ سے مانگوں گا اور اسی طرح اگر آپ کسی بریگیڈیئر اور کسی فوجی افسر سے نالاں ہے تو اس کا بوجھ فوج پر نہ ڈالیں اور بلاوجہ دشمنی مول نہیں لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے نوازشریف سے ناراضگی کا اظہار کیا تو اس وقت اور لوگ بھی بیٹھے تھے اور میں ان کوبتا کر گیا تھا کہ میں جارہاہوں ، اس کا مقصد یہ تھا کہ جو فیصلہ آگیا ہے وہ آگیا اور اب مسلم لیگ ن بطور ایک پارٹی نشانہ نہ بنے اور ہم عدالتی جنگ لڑتے ہوئے اوراچھے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے الیکشن کی طرف چلے جائیں ، یہ صرف میرا نقطہ نظر نہیں تھا بلکہ صرف راجہ ظفرالحق کے سوا آٹھ نو سینئر سیاسی رہنماﺅں کا بھی خیال یہی تھا ، شاہد خاقان عباسی نے بھی کہا تھا کہ سب ملکرنواز شریف سے بات کرلیتے ہیں جس پر سب کی جانب سے نوازشریف کے پاس جانے کافیصلہ ہوا جن میں شہبازشریف بھی شامل تھے، نوازشریف سے رائے ونڈ میں ملاقات کیلئے وقت مانگا گیا وہاں ان سے بہت اچھی ملاقات ہوئی لیکن وہاں پر ایک انقلابی جواس موقع پر موجود تھا وہ اس گروپ کا حصہ نہیں تھا لیکن میاں نوازشریف نے اس کووہاں بٹھایا ہوا تھا۔

چودھری نثار نے کہا کہ اب میر ا شہبازشریف سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہے ،میں سمجھتا ہوں کے بطور ایک ذمہ دا ر ایک ریڈ لائن ہے کہ حکومتی خرچ سے کیا کرناہے اور ذاتی خرچ سے کیا کرناہے؟یہ میں نوازشریف اور شہبازشریف کو مشورہ دیا کرتا تھا کہ بڑے جہاز پر نہ جایا کریں اور غیر ملکی دورے کم کریں ، یہ کرپشن میں نہیں آتا لیکن میں چونکہ شائد زیادہ محتاط ہوں اس لئے یہ کہتا تھا۔ اس پر نوازشریف کہا کرتے تھے کہ بڑے جہازپر جانے سے ملک کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن شہبازشریف میرے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے بہت سے لوگوں کومجھ ڈرناچاہئے خواہ ہو نوازشریف ہیں یا ادارے ہیں ، ان کوفائدہ یہ ہے کہ میں راز کی بات باہر نہیں نکالتا ، میں بہت سے رازوں کا امین ہوں اگر میں وہ راز فاش کردوں تو ایک تماشہ لگ جائے گا ، میڈیا پر میرے ٹکر تو چل جائیں گے لیکن ملک کونقصان ہوگا ، انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت بہت نازک حالات سے گزر رہاہے ، اب غلطی کی گنجائش بالکل نہیں ہے ، کھائی بہت نزدیک ہے ، میر ی جانب سے کچھ کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہم نے یہ ملک دوٹکڑے کردیا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑا تومیرے کچھ کہنے سے کیا ہوجائے گا ؟

انہوں نے کہا کہ عمران خان آئے نہیں بلکہ لائے گئے ہیں اور اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا ، الیکشن سے چند ہفتے قبل میری عمران خان سے ملاقات میرے ایک دوست کے گھر میں ہوئی تھی ، وہ چاہتے تھے کہ میں تحریک انصاف میں شامل ہوجاﺅں لیکن میں نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن ہونے کے بعد بھی میرے ساتھ حکومتی ایوانوں سے رابطہ کیاگیالیکن میں نے ملنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان میرے سکول کے زمانے سے دوست ہیں اور مجھے پتہ تھا کہ جوماحول پیدا ہورہا ہے یہ وزیر اعظم بن جائیں گے، عمران خان مجھے باربار کہتے تھے کہ میں تحریک انصاف میںشامل ہوجاﺅں اورمجھے بہت اچھے الفاظ میں عمران خان نے شامل ہونے کا کہا تھا ، میں تحریک انصاف میں اس لئے شامل نہیں ہوا کہ اگر میں تحریک انصاف میں گیا اور پھرحکومت میں شامل ہوگیا تو ایک سٹیج پر بیٹھا ہونگا اور میاں نوازشریف اور ان کے خاندان کے بارے میں ایسے باتیں کی جائیں گی جواب کی جاتی ہیں توپھر میں کیسا لگوں گا ؟

انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے بھی مجھے عمران خان کیخلاف پریس کانفرنس کرنے کا کہا تھا اور اس حوالے سے مجھے فواد حسن فواد نے فون بھی کیا لیکن میں نے کہا کہ میاں صاحب ہمارے بزرگ کہہ کر گئے ہیں جس شخص کے ساتھ تیس چالیس سال کا تعلق ہو اس کے ساتھ تعلقات بگاڑنے میں بھی تیس چالیس سال لگاﺅ، میرا عمران خان کے ساتھ تیس چالیس سال کا سکول کے زمانے سے تعلق ہے اس لئے میں عمران خان کے خلاف ذاتی طور پریس کانفرنس نہیں کرسکتا جس پر نوازشریف میری تائید کی۔

این آر او کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ میں تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے کچھ نہیں کہناچاہتا ، اس حکومت کووقت ملنا چاہئے ، ایک بات اس حکومت کو بھی سمجھنی چاہئے اور اداروں کوبھی سمجھنی چاہئے کہ ملک اس وقت بہت نازک دور سے گزر رہاہے ، پاکستان کو بین الاقوامی طور پر ایک بند گلی میں دھکیلنے کیلئے ایک منظر نامہ بنایا گیا ہے ، اس سے بچنے کیلئے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے ، احتساب صرف اپوزیشن کا نہیں ہوناچاہئے ، پارٹی میں کوئی ہوتا جو عمران خان سے کہتا کہ احتساب کرنا حکومت اور وزیر اعظم کا کام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتساب شفاف اس وقت ہوسکتاہے جب نیب کو ایک خودمختار ادارہ بنایا جائے ، احتساب چوروں کا کریں ، سیاسی مخالفین کا نہ کریں اور عمران خان احتساب کا عمل اپنے گھر سے شروع کریں۔

انہوں نے کہا کہ نیب جب کوئی آدمی پکڑتاہے تو حکومت کی پوری ٹیم کہتی ہے کہ ہم نے پکڑوایاہے اور وزیر اعظم کہتے ہیں کہ میں کسی کونہیں چھوڑوں گا، اگر کیسز آپ نے نہیں بنوائے تو عمران خان کو کہناچاہئے کہ پہلے میرے لوگ جن کے خلاف کیسز ہیں وہ عہدوں سے استعفے دیں اور خود کو کلیئر کروا کے دوبارہ آئیں، اس سے بہت اچھا تاثر پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عمران خان سے کہا تھا کہ جب دوسروں کےخلاف فیصلہ ہوا تو آپ نے شادیانے بجائے لیکن آپ کے ایک بندے کے خلاف فیصلہ ہوا تو وہ آپ کے ساتھ ہے۔انہوں نے کہا کہ علیمہ خان کے معاملے پر جے آئی ٹی نہیں بننی چاہئے ، وہ پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں اور وہ اپنے گھر والی ہیں ، ان پربھی وہی قوانین لاگوہونے چاہئے جو ایک عام پاکستانی پر لاگوہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات پر افسوس ہوتاہے کہ نوازشریف نے خود لکھ کر سپریم کورٹ کودیا تھا کہ آپ میرا کیس سنیں جس پر میں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ پر اتنا بوجھ نہ ڈالیں لیکن وہ خود معاملے کو سپریم کورٹ میں لیکر گئے اور اب فیصلے کوقبول کریں ،انہوں نے کہا کہ اب میاں نوازشریف خاموش ہیں تو وہ ان دوتین لوگوں کوبلا کر پوچھیں جوکہا کرتے تھے کہ میاں صاحب چڑھائی کردیں، ان دوتین لوگوں کی خوش آمدنے مسلم لیگ ن کو وہاں پہنچا دیا جہاں نوازشریف آج بندگلی میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کوشش کرتا رہا کہ مسئلہ کا کوئی سیاسی حل نکلے۔ میں عمران خان کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کو ایک بیٹنگ وکٹ ملی ہے جس پر سیدھا کھیلنا ہے ، اتنابہترین ماحول مسلم لیگ ق کو ملا تھا اور اس سے بھی بہتر ماحول عمران خان کوملا ہے لیکن وہ اچھی ٹیم بنائیں ان کے پاس بہت اچھے لوگ موجود ہیں، ان کو ڈنڈے سے نہیں بلکہ افہام وتفہیم سے حکومت کرناہوگی۔

اس حوالے سے سوال پر کہ کیا میاں نواز شریف کا کوئی سیاسی مستقبل ہے یاختم ہوچکا ہے؟ تو چودھری نثار کا کہنا تھا کہ یہ میری فیلڈ نہیں ہے بلکہ یہ شیخ رشید کی فیلڈ ہے۔