بے رحم احتساب ہی حل ہے !

بے رحم احتساب ہی حل ہے !

ایک ایسی میز کا تصور کیجئے جس کی چا روں چولیں بُرے سے ہل رہی ہوں، اور اس میز کو بار بار اِدھر اُدھر بلا وجہ گھسیٹا جائے تو اس پہ دھری نازک اشیا کے صحیح و سالم رہنے کی کیا کوئی گارنٹی دے سکے گا؟ تو وطنِ عزیز کی اس وقت یہی حالت ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملک اب بھی درست ہو سکتا ہے؟ بالکل ہو سکتا ہے، بلکہ یہ کہ کراچی سے لے کر گلگت تک سب تیر کی طرح ٹھیک بھی ہوں گے۔ بیرونی دشمن کے اندرونی ایجنٹس سے جو، آج ہم بلیک میل ہو رہے ہیں، معاشی وار جو کہ ہمارے دشمن کے ہاتھ میں ہے، انٹرنیشنل سطح پر بلیک میل بھی نہیں ہو سکیں گے۔ یہ ساری افراتفری، الزامات، یہ بھی انسان کو پاگل کر دیتے ہیں۔ پورا ملک سکون کے راستے پر ہو گا اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی میں آگے بڑھے گا، جدید ایجادات میں بھی ملک ترقی کرے گا، جدید لیبارٹریاں بھی ہوں گی اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے کی سزا سرعام ہر شہر کے چوک لٹکا دیا جائے گا۔ ہر قاتل، کرپٹ، غدار، فرقہ واریت، قوم پرستی، لسانیت پھیلانے والے، میڈیا اینکر، صحافی، چیف جسٹس، ہو یا چھوٹا جج ہو یا بڑا جج، پولیس کا چیف ہو یا عام سپاہی، پانی بجلی گیس ڈیپارٹمنٹ میں رشوت لینے والا ہو یا دیگر سڑکیں بنانے والا ٹھیکیدار ، سیاستدان ہو یا دیگر وطن عزیز کو نقصان دینے والا کوئی سا بھی ڈیپارٹمنٹ یا شخصیت، سخت سے سخت سزائیں ہوں، وہ بھی ہر شہر کے چوک پر سرعام۔ چائنا، کوریا، سعودی عرب طرز پر، پورے پاکستان میں اور لسانیت زبان کی بنیاد پر صوبے ختم کر کے پورا پاکستان ون یونٹ بنے۔ پورے پاکستان میں ایک ہی تعلیمی نصاب جس میں جدید طرز کی تعلیم اور اسلامی تعلیم دونوں ایک ساتھ ایک ہی نصاب میں شامل ہوں، ایک جیسی یونیفارم ہو۔ تمام مصنوعات الیکٹرونک، ادویات، لکڑی، پلاسٹک دیگر تمام کھانے پینے کی چیزیں۔ دیگر روزمرہ اشیاء، سرف، صابن، شیمپو اسی اقسام کی 2000 مصنوعات ہیں جو کہ بیرونی ممالک سے آتی ہیں، اور یہاں بھی بن رہی ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں سیاستدان مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اب آپ کو مثال دیتا ہوں چائے کی پتی، گھی، صابن شیمپو۔ اب یہ گھی کمپنی پاکستان میں بنا رہی ہے، یہ اگر حکومت کے کنٹرول میں ہوں اور طریقہ کار سے بنایا جائے، اعلیٰ کوالٹی کا بیس روپے کلو لوگوں تک پہنچ پڑے گی۔ اسی طرح یہ کمپنیاں بظاہر تو پاکستان میں ہیں، یہاں کے مالکان بھی پاکستانی ہیں، لیکن ان کے ریٹ انتہائی ظالمانہ ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی قانون کی گرفت نہیں۔ اسی طرح مشہورِ زمانہ ملٹی نیشنل کمپنیاں جن کا زیادہ تر تعلق اسرائیل سے ہے اور وہ تمام صابن، سرف، شیمپو و دیگر چیزیں، انرجی ڈرنک و دیگر چیزیں بناتی ہیں، وہ خام میٹریل 
بھی پاکستانی استعمال کرتی ہیں اور زمین بھی اور لیبر بھی پاکستان کی، اب یہ تمام چیزیں پاکستان 
میں بنائی جا سکتی ہیں اور انتہائی سستی۔ اس کا یہ فائدہ ہو گا کہ یہ کمپنیاں ڈالر کی شکل میں یہاں کا پیسہ باہر لے جاتی ہیں، وہ پیسہ بھی بچے گا، اسی طرح قانون سخت ہو گا کوئی ذخیرہ اندوزی نہیں کر سکے گا، کوئی ملاوٹ نہیں کر سکے گا، کوئی دو نمبری نہیں کر سکے گا، سب بہترین نظام ہوجائے گا۔
سیاسی پارٹیاں، جمہوریت، اس نظام پر پابندی ہوگی۔ قوم پرستی، لسانیت اور فرقہ واریت پھیلانے والے پر سخت ترین پابندی ہو گی، خلاف ورزی کرنے والے کو بھی سخت سزا دی جائے گی۔ ایران کوریا دیگر کئی ممالک پر عالمی پابندیاں لگنے کے بعد وہ تمام مصنوعات آج وہ ممالک اپنی سرزمین پر بنا رہے ہیں، ملکی ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں، بلکہ فروخت کر کے دیگر ممالک کو بہت بڑا سرمایہ بھی کما رہے ہیں۔ جب تک آدمی سہارے پر رہتا ہے کامیاب نہیں ہوسکتا،ہمیں دوسروں کے سہارے سے باہر نکلنا پڑے گا، خود کفالت کی طرف آنا پڑے گا، بلیک میلنگ ختم کرنا ہو گی۔ عالمی معاشی نظام کی وجہ سے پوری دنیا میں مہنگائی ہو رہی ہے، اس سے کوئی انکار نہیں، اور فرض کریں یہ بھی ایک ہتھیار کے طور پر عالمی طاقتیں استعمال کر رہی ہیں، اگر یہ مزید آگے سلسلہ جاری رہتا ہے، تو سوچئے کہ مہنگائی کا کیا عالم ہوگا؟؟؟ یہاں جنگل کا قانون بن چکا ہے، یہاں سیاست اور اپوزیشن مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں، کسی بھی چیز کے مہنگے ہونے پر، کیا تماشا بنا ہوا ہے؟؟؟ مسئلہ یہ ہے کہ قوم اگر متحد ہو اور حوصلہ دینے والا کوئی ہو تو مہنگائی کا مقابلہ بلکہ بڑے سے بڑے چیلنج کا بھی مقابلہ کیا جاتا ہے، لیکن یہاں میڈیا سیاستدان زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں افراتفری مچا رکھی ہے۔ کم ازکم چاول چینی آٹا سبزیاں دیگر مصنوعات اشیاء کھانے پینے کی جو کہ ہمارے ملک میں وافر مقدار میں موجود ہیں، کم از کم یہ تو غریب کی دہلیز پر ہوں گی؟؟؟ کم ازکم گھی اور دیگر چیزیں ملک میں بن رہی ہوں گی، بیروزگاری بھی ختم ہوگی ، روزگار ہوگا۔ آج ایسے حالات میں کوئی قوم کو تسلی نہیں دے رہا بلکہ مزید تکلیف دینے والی باتیں کی جاتی ہیں۔ یہاں کچھ لوگ اعتراض اٹھاتے ہیں، قوم ٹھیک نہیں ہے کوئی بھی نظام نافذ کرو گے فائدہ نہیں ہوگا۔ مگر یہی لو گ جب سعودی عرب، یورپ جاتے ہیں تو قانون کے ایسے پابند بن جاتے ہیںکہ ان سے بڑا قانون کو فالو کرنے والا کوئی نہیں، تو پھر یہاں کیا ہوجاتا ہے؟ لیکن جب پاکستان آتے ہیں کیونکہ یہاں قانون کی گرفت نہیں سب کو پتہ ہے پھر وہی کرائم جرائم ہر آدمی آزاد ہو جاتا ہے؟ کیونکہ سزائیں نہیں ہیں، جمہوریت کی پشت پناہی مجرموں کو، اور مجرم و نااہل سسٹم میں گھسے ہوئے ہیں۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، کرپشن، قاتل، ڈاکوؤں، چور،جب سب کو پتہ ہوگا کہ قانون کی گرفت سخت ہے اور مجھے اسلامی روایت کے مطابق سزا دی جائے گی، وہ بھی تمام لائیو ٹی وی چینلوں کے سامنے ہر شہر کے چوک پر سرعام،تو سخت سے سخت قوانین کی وجہ اور سزاؤں کے ڈر سے یہاں بھی امن آجائے گا، خوشحالی ہوگی، اور اسکے لیے نظام کی ضرورت ہوئی نا؟؟؟ جب قاتل و غدار کی گردن پانچ فٹ دور لٹکا دی جائے گی اور ہر گھنٹے بعد لائیو ٹی وی میڈیا پر دکھایا جائے گا، کہ ملک کو نقصان دینے والوں کا انجام یہ ہے، تو کون جرم کرے گا؟؟؟ پھر کوئی دودھ میں زہریلا کیمیکل ملاوٹ نہیں ملائے گا کوئی دو نمبر ادویات کی فروخت نہیں کرے گا، پھر کوئی کسی کو دھوکا نہیں دے گا، پورا ملک تیر کی طرح سیدھا ہو گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ یہی ہمارا حل ہے۔ اور اب  ملک کا نظام تبدیل کرنا ناگزیر ہو چکا ہے، خدانخواستہ اگر مزید موجودہ نظام جو کہ چل رہا ہے اگر رہتا ہے تو بہت بڑی تباہی ہم دیکھ رہے ہیں، ہر صورت نظام تبدیل کرنا یہ ہمارے وطن کی بقا ہماری بقا میں ہیں۔ ہمیں عہدے اور ناموس کی لالچ نہیں چاہیے۔ یہ کوئی بھی کر لے یہ فارمولا ہمارے، آپ کے اللہ پاک نے، میرے آپ کے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا ہے۔ یہی ہماری بقا ہے اور یہی ہماری عزت ہے، اسی میں ہماری ترقی چھپی ہے، اسی میں غریب امیر پورے پاکستان کی بھلائی ہے، اور بے رحم سخت احتساب ہماری مجبوری بن چکی ہے۔ 

مصنف کے بارے میں