”میرے رقیب۔ خدا حافظ“

Muhammad Awais Ghauri, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

زندگی مانو سڑک ہے، ایسی سڑک جس پر چلتے چلتے ہم اکثر کسی دوراہے پر اپنے پیار کرنے والوں سے الگ ہو جاتے ہیں، ایسے ہی اک دوراہے پر تمہارے ساتھ میری ملاقات ہوئی، ہم ایک تکون میں بندھ گئے۔ تم، میں اور وہ۔ تمہارے ساتھ معاشرے کی بہت سے طاقتیں جڑی ہوئی تھی، خاندانی نظام تمہارا حامی تھا اور ایسے ہی کسی دوراہے پر ایک وقت ایسا ہوا آیا جب تم دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور زندگی کی راہ پر کسی دوسری شاہراہ پر گامزن ہو گئے۔
ایک ترکی کہاوت ہے کہ کانٹوں کے بغیر کوئی پھول نہیں ہوتے اور رقیب کے بغیر کوئی محبت نہیں ہوتی۔ ہوتا کیا ہے کہ جب زندگی کی اسی شاہراہ پر آپ کی اچٹتی سی نظر کسی پر پڑتی ہے تو آپ کے دل میں اک عجیب سا احساس ہوتا ہے۔ سائنس کی توجیہات اور لاشعور کی گتھیاں اس بارے میں الگ الگ بات کرتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ کچھ خاص لوگوں کو دیکھ کر آپ کے دماغ میں ڈوپامین، آکسی ٹونک، اینڈرنیل اور ویسوپریشن جیسے کیمیکل ایکٹو ہو جاتے ہیں، یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ انسان آپ کیلئے خاص ہے، ان محسوسات کو دنیا پیار کے نام سے جانتی ہے۔ دماغ سے خارج ہونے والے یہ محسوسات کام تو دماغ کے اندر کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کا براہ راست تعلق دل کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ کسی کو دیکھ کر دل کو کچھ ہونا شاید اسی کو کہتے ہیں۔ کوئی کسی کے دل میں کیسے رہتا ہے، یہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے لیکن یہ نگوڑے ڈوپامین اور اس کے بہن بھائی براہ راست دل کو سگنل دیتے ہیں کہ تیار ہو جاؤ وہ آگیا ہے، وہی جس کا انتظار تھا، وہی جس کیلئے کوئی خاص احساسات پیدا ہوئے ہیں۔ بلڈ لیول بڑھ جاتا ہے، نرو گروتھ فیکٹر کام کرتے لگتا ہے اور دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔
شاید ایسا ہی ہوا ہو گا لیکن تھا بہت شدید۔ اس ڈوپامین اور آکسی ٹونک کی چکر میں زندگی کی شاہراہ پر دور تک چلنے کے منصوبے بنائے، وہی جو ہوتا ہے وہ سب ہوا اور پھر آپ جناب تشریف لائے۔ میں مانتا ہوں کہ اس آکسی ٹونک اور اینڈرنیل نے تمہیں بھی شاید اتنا ہی تنگ کیا ہو، تمہیں بھی ایسے ہی محسوس ہوا ہو گا اور پھر تمہارے ساتھ تو رشتے داری کا ساتھ بھی تھا، تمہارے پاس تو فرسٹ کزن کیلئے پہلا لائسنس تھا اور پھر تمہیں اپنے قریب شور کی کوئی آواز سنائی نہ دی۔ آواز آتی بھی کیسے تین جگہ پر ڈوپا مین اور اس کی برادری نے شور مچایا ہوا تھا، کان پڑی ہوئی آواز کہاں سے سنائی دیتی، پھر دنیاوی لالچ، خوبصورتی کے فریب، لاحاصل کی جدوجہد اور سائنس کی فریب کاریاں، سب آن ملیں اور آپ ہاتھ پکڑ کر یہ جا وہ جا۔
مگر ایسے معاملات میں ہوتا بہت خطرناک معاملہ ہے، دیکھا جائے تو معاملہ ہوتا بہت سیدھا سا ہے۔ ایک لڑکا کسی لڑکی سے ملا اور شادی ہو گئی، ہنسی خوشی زندگی گزاری، بچے پیدا کئے اور مر گئے مگر جب آپ ٹرائی اینگل بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں کامیاب ہو کر اپنی ضد بھی پوری کر لیتے ہیں تو سکون آپ کو بھی نہیں آنا ہوتا، انسان کو کوئلہ پکڑ کر دیوار پر رقیب کے نام لکھنا پڑتے ہیں، رینج مار کر رقیب کے نام کی ٹونٹی  جڑ سے اکھاڑ دینا پڑتی ہے مگر حاصل وصول ہوتا کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ ڈوپامین تو کسی اور کیلئے ایکٹو ہوتا تھا، سو زندگی بیزار ہو جاتی ہے، معاملے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور پھر مایوسی کے گلینڈز اپنا کام کرنے لگتے ہیں۔ پہلے دو زندگیاں ایک جان ہوتی ہیں اور پھر تین زندگیاں اور کئی جانیں بن جاتی ہیں۔ 
نیورو سائیکالوجی کی بات کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس پیار کی کمی سے آپ کو سٹریس اور ڈپریشن ہو جاتا ہے، ڈپریشن اور سٹریس آپ کے امیونٹی سسٹم کو کمزور کر دیتا ہے اور پھر جب آپ پر عالمی وبا کا حملہ ہوتا ہے تو درحقیقت آپ تندرست و توانا ہوتے ہیں اور مگر زندگی کی چکی اور دماغ کی خلشوں میں  اتنا پس چکے ہوتے ہیں کہ آپ کے اندر وہ ہمت ہی باقی نہیں رہتی جو ایسی موذی امراض سے لڑنے کیلئے آپ کو طاقت فراہم کرتی ہے۔
اس میں ایک اور فیکٹر بھی بہت اہم ہوتا ہے وہ ہوتا ہے ضمیر کا۔ ضمیر معلوم نہیں کس چڑیا کا نام ہوتا ہے لیکن جب آپ کوئی فاؤل پلے کرتے ہیں تو ضمیر نام کا ایک کیڑا آپ کے اندر کلبلانے لگتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ آپ ایسی زندگی گزاریں جس میں کوئی زور زبردستی نہ ہو، کوئی بلیک میلنگ نہ ہو، کسی کا ساتھ زبردستی حاصل نہ کیا گیا ہو ااور کسی طرح سے اینگل میں گھس کر اسے ٹرائی اینگل بنانے کی کوشش کی نہ کی گئی ہو۔
یہ سب باتیں شائد اب کسی کام  رہی نہیں کیونکہ تم میری باتیں سن ہی نہیں رہے۔ تم شاید ساری عمر جس انسان سے نفرت کرتے رہو  وہ تمہارا رقیب ہی ہوتا ہے۔ لیکن رقیب سے محبوب کی وجہ سے ایک دلی تعلق بھی بن جاتا ہے۔ جہاں دل کے نہاں خانوں سے آہ نکلتی ہے وہیں لبوں پر سے اس کیلئے دعا بھی نکلتی ہے کہ سکھی زندگی گزارو کیونکہ میرے رقیب تمہارے ساتھ میرے محبوب کی زندگی بھی جڑی ہے۔ظہور نظر نے کہا تھا 
وہ جسے سارے زمانے نے کہا میرا رقیب 
میں نے اس کو ہم سفر جانا کہ تو اس کی بھی تھی 
مجھے تمہاری موت کی خبر ملی ہے، زندگی کا پیٹرن تباہ ہو چکا ہے، جوانی کی رتیں خزاں کا استقبال کرنے کو تیار ہیں، بالوں میں چاندی اتر چکی ہے، زندگی کا بہترین وقت کٹ چکا ہے مگر تمہاری موت نے مجھے بہت آزردہ کر دیا، تم نے نفرت اور رقابت کی آگ میں جلتے ہوئے زندگی بسر کی، تمہیں سب کچھ میسر ہو چکا تھا مگر شاید درحقیقت سب کچھ حاصل نہ کر پائے۔ معاملہ سارا دماغ کے لوچے ڈوپا مین اور اس کی برادری کا ہوتا ہے۔ میرے رقیب تمہیں اور کیا کہوں۔ خدا حافظ