پنجاب میں گورنر راج کانفاذ اور آئین

پنجاب میں گورنر راج کانفاذ اور آئین

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ انکی وزارت نے پنجاب میں گورنر راج کی سمری پر کام شروع کر دیا ہے جبکہ اتحادی جماعتوں سے مشورہ کے بعد پنجاب میں قرار داد  کے ذریعے اورصدرمملکت کے بغیرگورنر راج نافذ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ آرٹیکل 234 کے تحت قومی اسمبلی اور سینیٹ سے قرار داد منظور کرائی جائے گی جس سے پنجاب میں گورنر راج کی راہ ہموار ہو جائے گی۔آئین کے تحت وفاقی حکومت 2 ماہ تک گورنر راج نافذ کر سکتی ہے،2 ماہ بعد گورنرراج میں مزید 2 ماہ کی توسیع ہوسکتی ہے یوں آئین کے تحت 6 ماہ تک گورنر راج نافذ کر سکتی ہے اور گورنر کے پاس وزیر اعلیٰ کے تمام اختیارات حاصل ہوں گے۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدگورنر راج کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی نے گورنر راج کی غلطی کی تو بیوقوفی ہوگی اور یہ گھنٹوں بھی نہیں چل پائے گا۔گورنر راج دراصل کسی صوبے کا نظام حکومت براہ راست وفاقی حکومت کے سپرد کرنے کا نام ہے،صوبائی گورنر وفاقی حکومت کے نمائندے ہوتے ہیں جنہیں وزیراعظم کی ہدایت پر صدر مملکت براہ راست تعینات کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 32، 33 اور 34 میں گورنر راج کے حوالے سے وضاحت کی گئی ہے۔جبکہ آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت ملک کے اندر کوئی آئینی بحران یا آئینی ڈیڈ لاک پیدا ہو جائے تو ایسی صورت میں گورنرراج نافذ کیا جا سکتا ہے۔لیکن آرٹیکل 232اور 112 کے تحت صدر کی منظوری ضروری ہے۔ گورنر راج کے دوران بنیادی انسانی حقوق بھی معطل کر دیئے جاتے ہیں اورصوبائی اسمبلی کے اختیارات قومی اسمبلی اور سینیٹ کو تفویض کر دیئے جاتے ہیں۔کسی صوبے میں ایمرجنسی کی صورت میں بھی گورنر راج نافذ کیا جاسکتا ہے مگر اٹھارہویں ترمیم کے تحت گورنر راج کے نفاذ کو صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کردیا گیا ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کیلئے آسان نہیں کہ کسی صوبے میں مخالف جماعت کی حکومت کا اثر ختم کرنے کیلئے گورنر راج نافذ کرے۔آئین کی شق232کے مطابق اگرملک کی سلامتی اگر جنگ یا کسی اندرونی اور بیرونی خدشے کے پیش نظر خطرے میں ہو اوراسکاسامناصوبائی حکومت نہ کرسکتی ہو تو صدرمملکت ایمرجنسی نافذ کر کے گورنر راج لگا سکتے ہیں، تاہم اگرمتعلقہ اسمبلی اس کی سادہ اکثریت سے قرارداد کے ذریعے منظوری دے، اگر منظوری نہ ملے تو پھر دس دن کے اندر اس کی قومی اسمبلی اورسینیٹ دونوں سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔ گویا اس شق کے بعد پنجاب میں گورنر راج لگانا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق کی اکثریت ہے جواس کے خلاف ہے۔اگر وفاقی حکومت خود ہنگامی حالت نافذ کرتا ہے تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے توثیق کیلئے پیش کرنے کا پابند ہوگا۔موجودہ صورتحال میں قومی اسمبلی اورسینیٹ میں اس کی منظوری یقینی نہ ہے۔ماضی میں پاکستان کے کئی صوبوں میں گورنر راج نافذ کیے گئے، صوبہ سندھ میں آج تک تین گورنر راج لگ چکے ہیں۔ 25 فروری 2009 کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سفارش پر آئین کے آرٹیکل 237 کے تحت صدر آصف علی زرداری نے شہباز شریف کی حکومت کے خلاف دو ماہ کیلئے گورنر راج نافذ کیا تھا۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی تاہم مسلم لیگ ن کے لانگ مارچ اور ججز کی بحالی کے بعد گورنر راج ختم کردیا گیا تھا۔اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کاموقف تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعلیٰ کے عہدے سے شہباز شریف کی نااہلی کے بعد پیدا ہونے والے بحران سے بچنے کیلئے صدر نے گورنر راج نافذ کرکے اختیارات گورنرپنجاب سلمان تاثیر کو سونپے تھے۔اس کے بعد جنوری 2013 میں بھی کوئٹہ میں خودکش اور کار بم دھماکے میں 90 سے زائد افراد کی ہلاکت کے پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے صوبے میں گورنر راج نافذ کردیا تھا۔سابق گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین نے بھی بطور گورنر پنجاب 1993 کی سیاسی کشیدگی کے دوران بہت اہم کردار ادا کیا تھا اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے صوبے میں کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں کو صدر غلام اسحق خان کے ساتھ مل کر انتظامی اقدامات کے ذریعے ناکام بنایا تھا، انہیں بے نظیر بھٹو نے 1994 میں اپنی حکومت آنے کے بعد دوبارہ بھی گورنر بنایا تھا۔پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف گورنر راج کے نفاذ کے بعد آئین میں ترمیم کی گئی تھی اور آرٹیکل 232 کے تحت اس امر کو یقینی بنایا گیا تھا کہ صوبائی حکومت کی مرضی کے بغیر گورنر راج نافد نہ ہو۔ 70 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے تو پنجاب میں پولیس نے ہڑتال کردی تھی جسے ناکام بنانے کیلئے گورنر مصطفی کھر کو خصوصی اختیارات دیے گئے اورپولیس کی ہڑتال ناکام بنانے کیلئے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ذریعے تھانوں اور ٹریفک کا انتظام چلانا شروع کردیا تھا اور بعد میں فیڈرل سکیورٹی فورس بھی تشکیل دی گئی جس کے ذریعے وفاق صوبوں میں براہ راست انتظامی امور میں مداخلت کرسکتا تھا۔
آئین کے دو آرٹیکلز 232 اور234  وفاقی حکومت اورصدر مملکت واختیار دیتے ہیںا سی صوبے میں حالات کی خرابی کے پیش نظر وہاں انتظام خود سنبھال لیں یا اس صوبے کے گورنر کے حوالے کر دیں،ایسی صورتحال کو ایمرجنسی یا گورنر راج کہا جاتا ہے۔پاکستان کے آرٹیکل 232  اطلاق جنگ، اندرونی خلفشار وغیرہ کی وجہ سے ایمرجنسی کا اعلان کی صورت میں ہوتا ہے، جبکہ آرٹیکل234کسی صوبے میں آئینی مشینری کی ناکامی کی صورت میں صدر کو ایمرجنسی یا گورنر راج سے متعلق اعلامیہ جاری کرنے کا اختیار تفویض کرتا ہے۔ یقیناموجودہ صورتحال میں پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کا مشورہ آئین پاکستان کی روح کے خلاف ہے۔کیونکہ آرٹیکل 234 کے تحت پنجاب میں ایمرجنسی یا گورنر راج کی کوئی وجہ موجود نہیں وہاں تمام آئینی ادارے آئین کے مطابق کام کر رہے ہیں۔صوبہ میں عدلیہ،مقننہ اور انتظامیہ احسن طریقے سے کام کر رہے ہیں۔جبکہ پنجاب میں آرٹیکل 234 ے تحت گورنر راج یا ایمرجنسی لگانے کا بھی قطعاً کوئی جواز یا وجہ موجود نہیں۔آرٹیکل 234 کے تحت کسی صوبے میں صدر مملکت کی جانب سے نافذکی جانے والی ایمرجنسی کا حکم نامہ دو ماہ کے اندر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جانے کا پابند ہو گا، اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں دو مہینے بعد خود ہی ختم سمجھا جائے گا۔ اس آرٹیکل کے تحت کسی صوبے میں ایمرجنسی یا گورنر راج کے نفاذ سے وہاںکی ہائی کورٹ کے اختیارات کو بھی ختم نہیںکیا جا سکتا۔ آرٹیکل 232 کے تحت گورنر راج یا ایمرجنسی لگانے کیلئے صوبے میں جنگ یااندرونی خلفشارکی موجودگی ضروری ہے،جواس وقت پنجاب میں قطعا ًموجود نہیں ہے۔وفاقی حکومت کے مطابق صوبہ امن و امان کی صورتحال بھی ماضی کی نسبت اس وقت بہتر ہے، لہٰذاآرٹیکل 232 کے تحت بھی گورنر راج کے نفاذ کا امکان نظر نہیں آ رہا،ایسے میں وہاں گورنر راج کے نفاذ کا جواز پیش نہیںکیا جا سکتا۔ سب سے اہم یہ کہ آرٹیکل 232اور 112 کے تحت صدر کی منظوری کے بغیر نہیں لگ سکتا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف کو ایسے مشوروں سے محتاط رہنا چاہیے کیونکہ گورنر راج کا نفاذ ملک کو مزید انتشار اور قوم کو کمزور کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔ یقینا پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ سے ملک میں جاری سیاسی اور جمہوری عمل بری طرح متاثر ہو گا۔

مصنف کے بارے میں