تحریک عدم اعتماد، ترپ کا پتا، الٹی گنتی شروع

تحریک عدم اعتماد، ترپ کا پتا، الٹی گنتی شروع

کھیل شروع ہوگیا۔ اپوزیشن کے بقول ختم ہوگیا لیکن وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کہتے ہیں کہ کھیل اپوزیشن نے شروع کیا تھا ہم ختم کریں گے۔ آخری اوور ہے یا سپر اوور الٹی گنتی شروع ہوگئی۔ قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں جہاں اکثریت جھوٹوں کی ہے سچ بولنے کا مقابلہ شروع ہوگا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید کی دھمکیوں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ حکومتی پارٹی نے تحریک عدم اعتماد کے موقع پر ’’تاریخی جلسے‘‘ کا اعلان کر کے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔اپوزیشن نے بھی جواب میں ملک بھر سے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دے دی۔ سیانے رخصت ہوگئے یا چپ سادھ کر بیٹھ گئے کسی نے بھی حکومتی ذمہ داروں کو مشورہ نہیں دیا کہ تحریک عدم اعتماد پارلیمنٹ میں پیش ہونی ہے۔ جلسوں میں نہیں، جلسے جلوس انتخابی مہم کا حصہ ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کا نہیں، اس موقع پر خدانخواستہ ٹھائیں ٹھائیں ہوگئی تو کون ذمہ دار ہوگا۔ خواہ مخواہ جگ ہنسائی کا سامان کیا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے پچاس پچاس ہزار روپے جرمانہ عائد کیے جانے کے باوجود وزیر اعظم مسلسل جلسے کر رہے ہیں۔ اس عرصہ میں حکومتی ارکان پر محنت کرتے تو صورت حال مختلف ہوتی۔ چھوڑیے، صاحب عقل و فہم ہیں ان کے تو وزیر مشیر بھی بزعم خود ’’سیانے‘‘ بلکہ عقل کل ہیں۔ بندہ اپنے مشیروں اور اردگرد کے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔ بس دوستوں کے انتخاب میں احتیاط برتنی چاہیے۔ یہ بحث بعد از وقت ہے۔ بہت دیر ہوچکی، اپنے بدظن، اتحادی برگشتہ، رفقا مایوس، عوام پریشان بلکہ اپنے فیصلوں پر خاصے پشیمان ہیں فی الحال اسلام آباد مرکز نگاہ، حکومت بادی النظر میں بوکھلاہٹ کا شکار، اپوزیشن کے حوصلے جانے کیوں بلند ہیں۔ سپر اوور میں ترپ کاپتا کون پھینکے گا؟ بد قسمتی ہے کہ سیاست کو کھیل اور جوئے بازی کی شکل دے دی گئی ہے۔ سیاست ہو رہی ہے، ون ڈے میچ ہے یا تاش کی بازی، جو جیتا وہی مقدر کا سکندر۔ تحریک عدم اعتماد انوکھی بات نہیں حکومت اور اپوزیشن میں دس پندرہ اتحادیوں کا فرق ہے۔ اپنے بندے ساتھ کھڑے ہوں تو کاہے کی فکر لیکن باتوں اور حرکات و سکنات سے لگتا ہے کہ ساڑھے تین سال میں حکومتی ارکان میںمایوسیاں پیدا ہوئی ہیں۔ 32 یا 33 ارکان کو اغوا کر کے سندھ ہائوس نہیں لایا گیا۔ خود آئے ہیں اتحادی، حکومتی ارکان’’ تیرے وعدوں پہ اعتبار کیا، اور قیامت کا انتظار کیا‘‘۔ کے گلے شکوے کرتے ہوئے اپوزیشن کی صفوں میں آ بیٹھے ہیں۔ کس کی کمزوری ہے؟ ق لیگ، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی 
کے 16 ووٹ، تینوں حکومت کے اتحادی، ان ہی کے دم قدم سے ایوان اقتدار میں پھول کھلے ہوئے تھے لیکن تمام اتحادی متذبذب ’’لاالی ھولاء ولا الی ھولاء‘‘ ادھر نہ ادھرہوا میں معلق، قرآن نے یہ علامت منافقین کی بتائی۔ رابطوں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ کامل علی آغا نے کہا وزیر اعظم نے بہت دیر کردی۔ فیصلے کیوں نہیں کرتے۔ کس کا انتظار ہے؟ وزیر اعظم کے ترپ کے پتے سے فکر مند رفقا اور متذبذب وزراء بھی لا علم ہیں شاید ’’پانچ پیاروں‘‘ کو ان پتوں کا علم ہو۔ روشن ضمیر اور مردہ ضمیر کے طعنے دیے گئے یہ طعن و تشنیع 2018ء میں کیوں نہیں کی گئی تھی جب ن لیگ کے ارکان گروہ در گروہ اور جتھوں کی شکل میں پی ٹی آئی کی فوج ظفر موج میں شامل ہو رہے تھے، ارکان کے ضمیر اس وقت مردہ تھے یا اب ان میں غیرت و حمیت کے بلب روشن ہو گئے ہیں۔ ساڑھے تین سال پہلے کیا عقل و فہم کی لائٹ آف ہوگئی تھی؟ فیوز لگانے میں طویل عرصہ لگ گیا۔ جن ارکان نے میڈیا پر آکر ’’بغاوت‘‘ کا اعلان کیا ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ضمیر کبھی مردہ نہیں ہوا۔ اجلاسوں میں باقاعدہ اپنے مسائل پیش کرتے رہے لیکن ان پر توجہ نہیں دی گئی۔ سابق حکومتوں کے پارلیمانی اجلاسوں میں کھل کر اپنی بات کہتے تھے وزیر اعظم سنتے اور آرڈر جاری کرتے اب تو صم بکم کی کیفیت ہے۔ بقول شخصے۔ ’’کبھی میں پارٹی لیڈر کو ٹوک دیتا تھا، میرا ضمیر تھا زندہ یہ بات ہے تب کی‘‘ اقتدار کی دھوپ ڈھلنے لگی تو ہمیں مردہ ضمیر قرار دے دیا گیا۔ اب ’’سیاسی خوشنما منظر بدلتے جا رہے ہیں۔ تمہارے عہد کے مہتاب ڈھلتے جا رہے ہیں‘‘ ایسے وقت میں سوچنا چاہے کہ ’’سفر میںکچھ نہ کچھ تو بھول ایسی ہوگئی ہے، جو پیچھے تھے وہی آگے نکلتے جا رہے ہیں‘‘ کہانی الجھ گئی ہے۔ بے چہرہ لوگوں کو قریب کرنے کے نتائج تو بھگتنا ہوں گے۔ سرپرائز کیا دیں گے؟ بعض ٹیموں کے کپتان ہارنے پر وکٹ اکھاڑ کر لے جاتے ہیں۔ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے ایسا ہوا تو بد ترین المیہ ہوگا۔ تحریک عدم اعتماد کی جنگ تیز ہوگئی، ہار جیت کا فیصلہ چند دنوں کی بات، فیصلہ ہوچکے تو آگے چلیں، کچھ کہنا قبل از وقت، آئین کا آرٹیکل 63 اے ون واضح ہے ارکان کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ حکومت نے عین موقع پر سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کردیا لارجر بینچ کے فاضل رکن جسٹس مظہر عالم نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ابھی کسی نے انحراف نہیں کیا۔ آپ ریفرنس لے آئے ہیں اٹارنی جنرل کا جواب تھا کہ ریفرنس کا مقصد جرم کو روکنا ہے، بنیادی سوال اپنی جگہ برقرار کہ 155 سرکاری ارکان میں سے 24 یا 30 نے تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ ڈال دیے تومخالفین کا تعین کیسے ہوگا۔ سپیکر کس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ معزز چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہنا ہے یا نہیں۔ آئین میں پارٹی سے منسلک رہنا بھی ضروری قرار نہیں دیا گیا اتنی واضح صورتحال میں تاخیری حربے کیوں؟ وزیر داخلہ روزانہ ووٹنگ کا شیڈول تبدیل کر رہے ہیں۔ لکیر کے فقیر ہیں خود نہیں کرسکتے کوئی تو ہے جو گھما پھرا رہا ہے، چند دن پہلے کہا گیا کہ 28 مارچ کے بجائے یکم یا دو اپریل کو ووٹنگ ہوگی۔ 26 مارچ کو ارشاد فرمایا ووٹنگ 3 یا 4 اپریل تک ہوسکتی ہے۔ یعنی رمضان المبارک میں جھوٹوں سچوں کا نتھارا ہوگا۔ بقول شاعر ’’گلدستے پر یکجہتی لکھ رکھا ہے، گلدستے کے اندر کیا ہے سچ بولو‘‘ سارے کارڈ سامنے آگئے ہیں نمبر گیم پوری نہیں ہو پا رہی ۔اس لیے تاخیری حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ تاریخ پر تاریخ، جانے کا ایک دن مقرر ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی، سب کچھ بھول کر ’’چوہوں‘‘ کے شکار میں لگ گئے سیاست ہے یا ٹام اینڈ جیری کا کھیل ؟کیا بہتر نہیں ہوگا کہ محترم چیف جسٹس کے ریمارکس اور ہدایات کے مطابق اسمبلی کی جنگ اسمبلی میں لڑی جائے‘‘۔ صائب مشورہ ہے بندہ جیت جائے تو تحمل سے جیت کا جشن منالے ہارجائے تو خندہ پیشانی سے ہار تسلیم کرلے۔ بیرونی ممالک میں کوئی لیڈر زندگی کے آخری سانس تک کی ضمانت لے کر اقتدار میں نہیں آتا۔سال چھ ماہ بعد چہرے بدل جاتے ہیں لیکن نظام سلطنت اور ریاستی امور چلتے رہتے ہیں۔ یہی جمہوریت کی روح ہے حکمران اپنی انا، مصلحت اور اقتدار کو زندگی موت کا مسئلہ نہیں بناتے۔ سانپ سیڑھی کے اس کھیل میں نیچے گرنے کی وجوہات پر غور کرلیا جائے وزیروں مشیروں کے میک اپ زدہ چہروں پر اطمینان اور خوشی کے آثار حقیقی نہیں ہوا کرتے۔ سپر اوور سے پہلے فی الحال اپوزیشن کا ہاتھ بھاری لگ رہا ہے۔ ’’بڑی رونقیں ہیں بلاول کے ڈیرے‘‘ دوسری طرف بیانات پر گزارہ ،گالم گلوچ پر انحصار، اعداد و شمار کی جنگ میں جو تازہ ترین صورتحال بتائی جا رہی ہے اس کے مطابق اپوزیشن کے پاس 212 اور حکومت کے پلڑے میں  126 ارکان ہیں تعداد الٹ پلٹ بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن سیاسی تنائو نے ملکی سیاست کو اہم موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔  15 دن سے سرکاری کام رکے ہوئے ہیں۔ تقرری کی سمریاں ڈیڑھ ماہ سے کابینہ ڈویژن میں پڑی ہیں۔ ایسا کیسے چلے گا؟

مصنف کے بارے میں