انقلابوں کی جنگ میں کون فاتح

Atta ur Rehman, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

بیسویں صدی عیسوی انقلابوں کی دنیا تھی…… 1917-18 میں جنگ عظیم اوّل کا اختتام سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹ جانے پر ہوا…… برطانیہ عظمیٰ نے سمندروں کی ملکہ بن کر سپر طاقت کی حیثیت سے خطہ ارض کے پیشتر حصوں پر سامراجی راج جما لیا…… اس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا…… امریکہ نے بھی اس کے ممکنہ جانشین کے طور پر انگڑائیاں لینی شروع کر دیں …… دوسری جانب 1917 میں ہی روس میں اشتراکی انقلاب برپا ہو گیا…… دنیا بھر کے مزدوروں کو سرخ سویرا طلوع ہونے کا مژدہ سنایا گیا…… مزدور راج اور سرخ انقلاب کے نعرے لگنا شروع ہوئے…… 1945 میں جہاں دوسری جنگ عظیم کی تمام تباہ کاریوں کے ساتھ برطانیہ کی ایک مرتبہ پھر فتح کا اعلان ہوا وہیں امریکہ نے آگے بڑھ کر اس کے قائم کردہ عالمی راج کی باگیں سنبھال لیں …… مقابلے میں سوشلسٹ انقلاب کے حامل روس نے سوویت یونین کا روپ دھار کر امریکی سامراج کو للکار رہا تھا…… اس کے سرمایہ دارانہ نظام کے لئے بڑا چیلنج بن گیا…… دنیا دو کیمپوں میں بٹ گئی…… ایک سرد جنگ تھی جو لڑی جا رہی تھی…… دنیا بھر کے مزدوروں اور غریب عوام کے لئے سوویت یونین کے پیش کردہ اشتراکی نظام میں بڑی رغبت پائی جاتی تھی…… فکری سطح پر مارکسزم لینن ازم کا غلغلہ تھا…… تقریباً ہر ملک کے اندر کمیونسٹ پارٹی وجود میں آ گئی…… ہر جگہ دانشوروں کے ایک بڑے طبقے نے اشتراکی یا کمیونسٹ انقلاب کا دلدادہ بن کر اپنے اپنے ملک کی زبان و بیان میں غربت کے مارے ہوئے اور نچلے متوسط طبقوں کے لوگوں کو ایک نئی اور خوشحال دنیا کے خواب دکھانا شروع کر دیئے…… ادب تخلیق ہوا…… شاعری کی گئی…… تقریباً ہر ملک کی فضا انقلابی نعروں سے گونج اٹھی…… خاص کر تیسری دنیا کے سیاستدانوں نے سوشلسٹ مساوات کو اپنی اپنی پارٹیوں کے منشور کا حصہ بنایا…… جہاں جہاں سختی کی گئی وہاں مقامی کمیونسٹ زیرزمین چلے گئے…… اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں …… مزدور بڑی بڑی ریلیاں نکال رہے تھے…… کسان کانفرنسیں ہو رہی تھیں …… ٹریڈ یونین ازم نے بڑی بڑی صنعتی ایمپائرز کو ہلا کر رکھ دیا…… سرمایہ دار مالکان مزدور رہنماؤں سے تھر تھر کانپتے تھے…… 1949 میں چین کے ماؤزے تنگ کے کمیونسٹ انقلاب نے عالمی سطح پر اشتراکی طاقت کے رعب اور دبدبے کو نئی قوت اور اشتراکی کارکنوں کو نیا تحرّک دیا…… ہر ملک کی کمیونسٹ پارٹی اپنی حکومتوں کے لئے بڑا چیلنج بن کر اٹھ کھڑی ہوئی…… بڑے بڑے جابر حکمرانوں کو خوف لاحق رہتا تھا کمیونسٹ انقلاب انہیں آن نہ دبوچے…… دنیا دو کیمپوں میں تبدیل ہو گئی تھیں …… امریکی بلاک…… اس کی چھتری تلے سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ حکومتیں پنپ رہی تھیں اپنے بچاؤ کی خاطر…… امریکہ سے فوجی اور اقتصادی امداد حاصل کرتی تھیں …… اس کے باوجود خوفزدہ رہتی تھیں …… دوسری جانب کمیونسٹ بلاک تھا…… سوویت یونین کہ  امریکہ کے مقابلے میں دنیا کی دوسری بڑی طاقت تھا…… عالمی سطح پر پھیلی کمیونسٹ پارٹیوں کا سرپرست اور سوشلسٹ نظام کی حامی حکومتوں کی پشت پناہی کرتا تھا…… انہیں مالی وسائل اور اسلحہ وغیرہ فراہم کرتا تھا…… عوامی جمہوریہ چین ہر جگہ اپنے ہم خیال کمیونسٹوں کے ذریعے اپنا وجود منانے میں پیش پیش تھا…… ہر سو کمیونسٹ نظام کے نعرے گونجتے تھے…… ملک ملک کے اندر سرخ پرچم لہراتے تھے…… یوں محسوس ہوتا تھا جلد وہ وقت آنے والا ہے جب سرمایہ دارانہ نظام کو پوری عوامی نفرت کے ساتھ لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا…… اس کی حامی حکومتوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینک کر دوبارہ اٹھنے کے قابل نہیں رہنے دیا جائے گا…… سرخ انقلاب یا مزدور راج عام آدمی اور محنت کش غریبوں کے لئے خوشحالی کا پیامبر بن کر دنیا بھر میں چھا جائے گا…… کم از کم یہ وہ خواب تھا جو تقریباً ہر ملک کے اندر کمیونسٹ انقلاب کے حامی سیاستدان مزدور رہنما، ادیب اور شاعر اپنے لوگوں کو دکھاتے اور بتاتے جلد اس کی تعبیر سامنے آنے والی ہے……
پاکستان میں بھی اس کے قیام کے فوراً بعد کمیونسٹوں نے اپنی سرگرمیاں تیز تر کر دیں …… ادب اور شاعری کے محاذ پر چھائے ہوئے تھے…… صحافت کے میدان کو اپنی جولانگا بنایا…… ٹریڈ یونینوں پر قابض ہوتے چلے گئے…… طلبہ تنظیموں میں نفوذ حاصل کرنا شروع کر دیا…… پھر راولپنڈی سازش کیس طشت از بام ہوا تو معلوم ہوا کہ فوجی انقلاب کی تیاریاں بھی ہو رہی تھیں …… تب کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی…… سکہ بند کمیونسٹ زیرزمین چلے گئے…… مگر عام سوشلسٹ دانشوروں اور کارکنوں نے مختلف پارٹیوں اور محاذوں پر اپنی جگہ بنائی…… اس ماحول میں مولانا مودودی کے لٹریچر، جماعت اسلامی کے کارکنوں اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں اور دینی دانش کے حامل دوسرے لوگوں نے کمیونسٹ انقلابی نعروں اور سرخ سویرا کا خواب دکھانے والوں کے مقابلے میں اسلامی اور سبز انقلاب کی علمبرداری کی…… خوب مقابلہ ہوا……  تاآنکہ 1970 کے انتخابات سر پر آ گئے…… بھٹو مرحوم نے جاگیردار ہونے کے باوجود اسلامی سوشلزم کا مرکب اپنے سیاسی پروگرام کے طور 
پر پیش کیا اور زبردست خطابت کے زور پر انتخابی میدان میں کود پڑے…… مقابلے میں مولانا مودودی اور جماعت کے پُرجوش کارکنوں اور دیگر اسلامی عناصر کے لشکر اسلامی سوشل ازم کی ترکیب کو منافقت قرار دیتے ہوئے خالصتاً اسلامی انقلاب کے داعی بن کر ملک کو سوشل ازم کا قبرستان بنانے پر تل گئے خواب محاذ آرائی ہوئی…… انتخابات کا جو بھی نتیجہ آیا لیکن پاکستان کی سرزمین پر اسلام اور سوشل ازم پوری قوت کے ساتھ آمنے سامنے کھڑے تھے…… 1977 کے انتخابات اور نظام مصطفی کی تحریک میں سوشل ازم کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کے جذبے کو خوب ابھارا گیا…… کمیونسٹ اور سوشلسٹ دانشور و کارکن بھی ہار ماننے والے نہیں تھے…… انہوں نے پیپلز پارٹی سمیت کئی سیکولر جماعتوں کے اندر پناہ لے رکھی تھی…… 1979 میں ہمارے گردوپیش میں دو اہم اور عہد ساز واقعات رونما ہوئے…… پہلا ایران میں آیت اللہ خمینی کا اسلامی انقلاب تھا اس نے اپنے ملک میں امریکی اثرات کی بیخ کنی کی اور شیعہ مسلک کے مطابق ملک کے اندر اسلامی نظام کو رائج کرنے کی ٹھان لی…… قم اور مشہد کے علماء آیت اللہ خمینی کی قیادت میں اس زبردست انقلاب کا ہراول دستہ تھے…… مگر پاکستان کے کمیونسٹ دانشوروں نے برملا خوش فہمی کا اظہار کیا کہ انقلاب ایران اپنی روح کے لحاظ سے اشتراکی ہے…… علماء وقتی طور پر قیادت کر رہے ہیں …… جلد پس منظر میں چلے جائیں گے اور تودہ پارٹی (ایران کی کمیونسٹ جماعت) ملک پر غالب آ جائے گی لیکن ایسا ہرگز نہ ہوا…… ایرانی علماء نے اسلامی انقلاب کے نام پر اپنے جھنڈے مضبوطی سے قائم کر لئے…… اب تک انقلاب کے نام پر اپنی حکمرانی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں …… دوسرا واقعہ اسی سال یعنی 1979 میں پاکستان کی شمال مغرب کی سرحد پر واقع ملک افغانستان میں ہوا…… وہاں 25 اور 26 دسمبر کی شب کو سوویت فوج نے اپنے ٹینکوں کی مدد سے چڑھائی کر دی…… پہلے بھی سوویت دوست عناصر کی حکومت تھی لیکن اب ببرک کارمل نامی خالصتاً کمیونسٹ کو کابل کے تخت پر لا بٹھایا…… اور اعلان کیا گیا کہ ملک افغاناں میں سرخ انقلاب کا سورج طلوع ہو گیا ہے…… پاکستان کی کمیونسٹ حلقوں میں اس پیشرفت کا بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا گیا اور برملا کہا گیا کہ سوویت ہاتھی کا اگلا قدم ہماری سرزمین پر ہو گا…… یہاں بھی کمیونسٹ راج کے پھریرے لہرانا شروع ہو جائیں گے…… مگر جو کچھ ہوا وہ پاکستانی سوشلسٹ دانشور اور کارکن کیا سوویت یونین سمیت پوری دنیا کے کمیونسٹ بلاک کی توقعات کے برعکس تھا…… افغان قوم اٹھ کھڑی ہوئی…… اس نے آٹھ سالہ بے مثال تحریک مزاحمت کے نتیجے میں سوویت افواجِ قاہرہ کا منہ پھیر کر رکھ دیا…… وہ ملکِ افغاناں چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور ہوئے…… اس کے ساتھ ہی کمیونزم اور اس کے تمام تر برانڈز کا فکری طلسم ٹوٹ کر رہ گیا…… خود سوویت سپر طاقت کے حصے بخرے ہو گئے…… یہ بیسویں صدی کے اختتام پر تاریخ عالم کا بہت بڑا واقعہ تھا…… جہاں اس صدی کے آغاز پر 1917 میں کمیونسٹ انقلاب نے دنیا کو اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیا تھا…… وہیں اس کے خاتمے سے قبل 1991-92 میں اس طرح کے انقلاب کے تمام تر تصورات اپنی سپر طاقت کے ساتھ ریزہ ریزہ ہو کر رہ گئے…… پاکستان میں اسلامی انقلاب کے داعیان نے اسے اپنی عظیم نظریاتی اور عملی فتح قرار دے دیا……کہا انہوں نے کمیونزم اور کمیونسٹ طاقت دونوں کو مار بھگایا ہے…… دوسری جانب امریکہ اسے اپنی بڑی فتح قرار دے رہا تھا……
کمیونسٹوں نے اتنی بڑی سپر طاقت کا سہارا ٹوٹ جانے کے بعد لبرل ازم کا چولا پہن لیا اور امریکہ اور مغربی یورپ کی این جی اوز میں بھاری مشاہروں پر ملازمتیں حاصل کر لیں …… تاہم افغانوں نے ہار نہ مانی اب ان کا مقابلہ خطہ ارض کی واحد سپر طاقت امریکہ سے تھا…… مسلسل 20 سال تک اس کی بڑی اور بے پناہ قوت والی ہوائی فواج کا مقابلہ کرتے رہے…… اس دوران عالمی سطح پر اس نظریے اور خیال کو بہت تقویت دی گئی کہ انقلابوں کا دور ختم ہو گیا ہے…… صرف کمیونزم کی موت واقع نہیں ہوئی اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے جتنے نظریات سامنے آئے…… وہ مذہبی نظریہ تھا یا کسی اور سماجی فلسفے کا عکاس سب دم توڑ گئے ہیں …… اب منڈی کی معیشت کا راج ہو گا…… امریکی سپر طاقت کے آگے کوئی ٹھہر نہیں پائے گا…… اگر کوئی نظریہ باقی رہ گیا ہے تو وہ لبرل ازم ہے جس کے کئی رنگ اور انداز ہیں …… یہ بات کسی کے  وہم و خیال میں بھی نہ تھی کہ امریکی سپر طاقت کو بھی شکست سے دوچار کیا جا سکتا ہے…… خاص طور پر جب اس کے سامنے مقابلے کی کوئی طاقت کھڑی نہ ہو…… جیسا کبھی سوویت یونین تھا…… اس نے اس کو بھی باقی نہ رہنے دیا کسی اور کی کیا مجال…… مگر گزشتہ 15 اگست سے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اور پوری دنیا ورطہئ حیرت میں مبتلا ہے کہ افغان قوم کی طالبان نام کی اسلامی قوت نے اپنی 20 سالہ گوریلا مزاحمتی جنگ کے نتیجے میں امریکیوں کے بھی چھکے چھڑا کر رکھ دیے ہیں …… ان کی افواج بھی سوویت یونین کی طرح سرزمین افغان چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو گئی ہے…… طالبان جن کے یہاں دیوبندی فکر کو غلبہ حاصل ہے سوویت دور کے کمیونزم اور آج کے امریکی لبرل ازم دونوں کے مقابلے میں اسلامی انقلاب کے علمبردار بن کر اپنی سرزمین وطن پر چھا گئے ہیں اور اس کی حکمرانی اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں …… یعنی یہ جو کہا جا رہا تھا کہ تمام نظام ابدی نیند سو گئے ہیں یا کتابوں کے اندر بند ہو کر رہ گئے ہیں ان کے نعرے بے معنی ہو گئے ہیں …… صرف امریکی لبرل ازم باقی رہ گیا ہے جو کسی خاص نظام نہیں ایک طرزِ فکر اور طرزِ زندگی کا نام ہے جس کے کئی رنگ اور کئی پہلو ہیں مگر طالبان نے ایک مرتبہ پھر افغانستان میں غالب آ کر ثابت کر دیا ہے کہ کمیونزم تو یقینا اپنی موت مر چکا ہے مگر اسلام آج بھی ایک زندہ و تابندہ قوت ہے جس کی بنیاد پر حکومت بنائی جا سکتی ہے…… ملک اور ریاستیں چلائی جا سکتی ہیں …… تاہم اتنی بڑی نظریاتی اور عملی کامیابی نے جس کی ابھی شروعات ہیں طالبان اور ان کے پُرجوش حامیوں کو ایک بڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے…… انہیں ہر طریقے سے کامیاب ہو کر دکھانا ہے جبکہ دنیا بھی ان پر اپنی نظریں گاڑھے ہوئے ہے…… اس وقت طالبان کو اسلامی شرعی نظام کی عکاسی کرتی ہوئی ملک کی تمام آبادی کے نمائندوں پر مشتمل ایک متفق علیہ حکومت قائم کرنی ہے جو آسان کام نہیں پھر سماجی انصاف کی راہیں کشادہ اور ہموار کرنی ہیں جس کے بغیر ان کا وقار بنے گا نہ عوام اور دنیا کی نظروں میں پذیرائی ملے گی…… اس سب پر مستزاد انہیں سود سے پاک ایسا معاشی نظام وجود میں لانا ہے جو ایک جانب اسلامی نظام معیشت کے جملہ تقاضے پورے کرتے ہوئے دنیا پر اس کی دھاک بٹھا دے اور دوسری طرف اس کی افغانستان جیسے پسماندہ ملک کے غریب عوام تک آسودہ اور خوشحال زندگی کے دروازے کھول دے…… جو ظاہر ہے ایک دن یا دوچار ماہ اور اتنے ہی برسوں میں ہونے والا کام نہیں …… اسے کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے کئی برس درکار ہوں گے…… راستے میں بے شمار رکاوٹیں آئیں گی…… ان سب کو بڑے تدبر، حکمت اور اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی کے ساتھ دور کرنا ایسی ذمہ داری ہے جو آج کے افغانوں پر ان کے دین و ایمان اور عوام دونوں کی جانب سے ڈال دی گئی ہے…… دیکھئے اس سے کہاں تک عہدہ برآ ہوتے ہیں …… اس کے بعد ہی مسلمان کہہ سکیں گے کہ تاریخ کے موجودہ موڑ پر نظاموں کی آویزش اور انقلابوں کی جنگ میں اسلام غالب آ گیا ہے……