سیلاب کی تباہی

سیلاب کی تباہی

 مملکت خداداد اس وقت قابل رحم ہے ہر جانب تباہی بربادی بے حسی بے بسی بلکہ یوں کہیں کہ اللہ کا عذاب نازل ہوا ہے۔ بستیوں کی بستیاں اجڑ گئی ہیں گاو¿ں کے گاو¿ں زمین بوس ہوگئے ہیں ، جس طرف نظر دوڑا لگتا ہے یہاں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے لوگوں کے گھر ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ اس پر ستم ظریفی یہ لوگ بے یارومددگار بغیر کسی چھت کے اللہ کے آسرے پر کھلے آسمان تلے گزر بسر کر رہے ہیں۔ یہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنی جان کی امان پائی لیکن افسوس امداد منتظر ہیں اور نہ ان کے پاس سر چھپانے کو چھت ہے کھانے کو روٹی۔ جو لوگ خوش قسمت نہ تھے وہ جان سے جا چکے جو بچ گئے ان کے پیارے سیلاب بہا لے گیا ۔ پاکستان صرف سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر نہیں ہوا بلکہ سیاسی طور پر بھی بھونچال کی زد میں ہے۔ سیاسی پنڈت ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہے، ان کو مستحکم معیشت، خوشحال پاکستان اور پرامن فضا شاید موافق نہیں آتی اس لیے بجائے اس کے کہ سب یکجا ہو کر پاکستان کو ڈوبنے سے بچائیں وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں اور ان کو اس کیچڑ میں لت پت ڈوبتا ہوا سندھ بلوچستان اور پنجاب دکھائی نہیں دیتا۔ سیلاب میں گھر ڈوب گئے ہیں لوگ کڑاہی، ٹینکی، پھٹوں کی مدد سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں مدد لے رہے ہیں ، یہاں تک کہ کل ایک دل دہلا دینے والی ویڈیو نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیئے جس میں کہ ایک شخص جو وفات پا چکا ہے اس کی لاش کو چارپائی پر رکھ کر پھر اس چارپائی کو چارکرسیوں سے باندھ کر جنازگاہ لے جایا گیا یہ وہ منظر ہے جو لوگوں کی نیندیں اڑا دے مگر حیرت ہے ان پر جن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔سیلاب پیدا ہونے کی دو اہم وجوہات جو سامنے آئی ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ گلیشئیرز کا پگھلنا اور دوسرا آرکٹک سمندری برف کے پگھلنے سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے، کیونکہ اس سے سمندری پانی کی سطح پھیل جاتی ہے اور سمندری درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے جو شدید بارشوں اور طوفانوں کا سبب بنتا ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کے پروفیسر فلک شاد میمن نے ریسرچ پیپر میں یہ لکھا ہے کہ سینکڑوں سالوں میں ساحلی سندھ کے ساتھ سطح سمندر میں ایک ملی میٹر کا نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ پانی ساحل کی طرف سے شہر کی جانب بڑھ رہا ہے۔ موسمیاتی ماہرین نے اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گزشتہ پچاس سالوں میں بحیرہ عرب میں بڑھتی ہوئی پانی کی تعداد کی وجہ سے طوفانوں نے کراچی بدین اور ٹھٹھہ جیسی شہری آبادیوں کا رخ کیا ہے جس کے نتائج بہت بھیانک ہیں۔بلوچستان میں حالات انتہائی خوفناک ہیں کیونکہ یہاں پر بارشوں کا 60 سالہ ریکارڈ خضدار ،مستونگ ، قلعہ سیف اللہ،ژوب, بولان اور کیچ میں ٹوٹ چکا ہے۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہے 26 ہزار سے زائد مکانات جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں جبکہ افغانستان سے آنے والے سیلابی ریلوں نے بھی حالات کو بد ترین بنا دیا ہے۔ پاکستان میں آنے والا یہ سیلاب ایک عذاب کی طرح نازل ہوا جس میں دو سو پچیس سے زائد افراد بازی ہار چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تھمنے کو نہیں ہے۔ نامعلوم لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ ایسا لگتا ہے کہ زمین لاشیں اگل رہی ہے یہاں تک کہ قبرستان بھی پانی میں ڈوب چکے ہیں۔ وہ گھر جس نے محبت سے بنایا تھا، وہ باغ جنہیں سیراب کیا تھا آج درد کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ اس صوبے میں 710 کلومیٹر طویل شاہراہ ہیں جزوی یا مکمل طور پر پانی کی نذر ہوگئی ہیں 18 پل تباہ ہو گئے ہیں اور بلوچستان کا خیبر پختونخوا اور پنجاب سے زمینی رابطہ بھی نہیں رہا۔پنجاب کے جنوبی علاقوں سے آنے والے مناظر بھی حیرت میں گم کر دیتے ہیں کوہ سلیمان سے آنے والی ریلوے نے زندگی مشکل بنا دی ہے راجن پور کا 80 فیصد ڈوب چکا ہے، ڈیرہ غازی خان میں نالہ ڈور کا مشرقی بند ٹوٹنے سے درجنوں بستیاں بہہ گئی ہیں یہاں پر ڈیڑھ سو سے زائد افراد داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں۔ اس سیلاب نے ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ کر دی ہیں جبکہ گندم کی ساڑھے تین لاکھ سے زائد بوریاں اب ہوگئی ہیں ۔سندھ کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں ہے مون سون کی بارشوں میں یہاں پر بھی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ دادو ،جامشورو ،ٹنڈوالہ یار، نوابشاہ، ٹھٹھہ ،بدین اور حیدرآباد سمیت 23 اضلاع کے حالات ہیں اور اس صورتحال تقریباً 13 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا ہے. یہاں پر 220 سے زائد شہری اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ جو بچ گئے ہیں ان تک امداد کا پہنچنا مشکل اس لئے بھی ہو گیا ہے کیونکہ یہاں بھی جہاں تک نظر دوڑاﺅ پانی ہی پانی ہے اور ٹرینوں کا راستہ بھی پانی کے نیچے کہیں کھو سا گیا ہے۔ سندھ میں بارشوں کا ایک نیا سپل داخل ہو گیا ہے اور اب کی بار لاکھوں افراد عارضی کیمپس میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ کیمپس ان بارشوں اور سیلاب کو سہنے کی سکت نہیں رکھتے۔ یعنی دانوں کو سب کچھ بھلا کر ان لوگوں کی مدد کو پہنچنا ہو گا ۔ اس میں انتظامیہ کو کردار بخوبی نبھا نہ ہوگا۔ یہ کہنا آسان ہے متاثرین کی مدد کے لئے ہم کوشاں ہیں مگر یہ اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ اب کی بار قول و فعل سے زیادہ ان لوگوں کو دعاں کی ضرورت ہے جو انکی تقدیر بدل سکے۔شاعر نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ
کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو

مصنف کے بارے میں