آپریشن کلین اپ شروع؟

آپریشن کلین اپ شروع؟

مسلم لیگ نواز کی رہنما اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز 28 جنوری کو پاکستان پہنچ چکی ہیں۔ اس سے پہلے اہم اجلاس ہوئے جس میں دوسروں کے علاوہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، خود مریم اور نواز شریف بھی شریک تھے۔ اجلاسوں کے بعد نواز شریف، مریم، رانا ثنا اللہ نے اخباری نمائندوں سے جس لہجے میں گفتگو کی اس سے بہت کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے مریم کے شوہر کیپٹن صفدر نے جذباتی انداز میں گفتگو کی۔ لندن سے ملنے والی باوثوق اطلاعات کے تحت نواز شریف نے بہت اہم فیصلے کر لئیے ہیں۔ خبروں کے مطابق تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ اور اب یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے بہت اہم رہنما فواد چوہدری کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کر لیا گیا ہے اور عین ممکن ہے عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مزید رہنماؤں کی گرفتاری بھی ہو سکتی ہے۔ جس منصوبہ بندی کی توقع ہے اس کے مطابق عمران خان کو نہ صرف گرفتار بلکہ نا اہل بھی کیا جا سکتا ہے۔ نواز شریف اس کے بعد وطن آجائیں گے۔ جیل جانے کی بجائے گھر میں بھی نظر بند کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے لئے ان کی علالت کو بھی وجہ بنایا جا سکتا ہے۔ پھر عدالت کے ذریعے انہیں کلئیر کروایا جائے گا اور پھر وہ انتخابات کے لئیے مہم چلانا شروع کر دیں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ بھی آجائے اور رمضان سے پہلے یا بعد انتخابات کروا دئیے جائیں۔ ابھی ہونے والی گرفتاریوں پر کیا عوامی رد عمل ہوگا اس کے بارے میں بھی دو ایک دنوں میں اندازہ ہو جائے گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نئی مردم شماری پر کام شروع ہو گیا ہے جو مارچ تک مکمل ہو جائے گا۔ اس کے بعد عام انتخابات کے التوا کا کوئی بہانہ بھی نہیں رہے گا۔ اگر ایسا ہوا تو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ساتھ کروانے کے لئے 
صوبائی نگراں حکومتیں ایک دو ماہ کا التوا بھی کر سکتی ہیں اور عدالت سے یہ ریلیف لیا جا سکے گا۔ 
اگر عمران خان کی متوقع گرفتاری یا نا اہلی پر کوئی سخت عوامی رد عمل نہیں آیا تو موجودہ حکومت اپنی سہولت سے قدم اٹھائے گی۔ انتخابات کو ملتوی بھی کیا جا سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں مسلم لیگ ن کو سیاسی فائدہ ہوگا۔ ان دنوں پاکستان میں سیاست نہیں ہو رہی بلکہ دشمنیاں ہو رہی ہیں۔ ہر گروپ آئین کا سہارا تو لیتا ہے مگر غیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔ کسی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا آئینی قدم ہے مگر یہ تو دیکھئے کہ اس کو کامیاب بنانے کے لئیے اسٹیبلشمنٹ نے دو جماعتوں یعنی بی اے پی اور ایم کیو ایم کی راتوں رات وفاداری تبدیل کروائی۔ یہی کھیل 2018 کے انتخابات کے حوالے سے جاری ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے الیکٹیبلز کو عمران خان سے منسلک کروایا گیا۔ 
اب آئیے پنجاب میں نگراں حکومت کی جانب۔ جس بھونڈے انداز میں گورنر سندھ کی تقرری کی گئی ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ دونوں جماعتوں نے نگراں وزیر اعلی کے لئے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا یعنی ایسے نام دئیے گئے جنہیں کسی طور پر غیر جانبدار نہیں کہا جا سکتا۔ مسلم لیگ ن کو یہ معلوم تھا کہ الیکشن کمیشن سے تحریک انصاف کی مخاصمت چل رہی ہے اس لئے کمیشن کا جھکاؤ ن کی طرف ہو گا۔ پاکستا ن کی سیاست یا صحافت سے تعلق رکھنے والا کون ایک ایسا فرد ہے جسے یہ نہیں معلوم کہ محسن رضا نقوی کا جھکاؤ زرداری اور ن لیگ کی جانب ہے۔ حال ہی میں وہ دبئی کے سفر میں قمر جاوید باجوہ کے ہمراہ بھی دیکھے گئے۔ عاصم منیر کے حالیہ عمرہ کے دوران آرمی چیف کے ہمراہ طیارے میں ان سے گفت وشنید کر رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے افسران کے تبادلے شروع شروع کر دیے ہیں حالانکہ الیکشن کمیشن نے انتباہ کیا ہے کہ نگراں حکومت کا یہ کام نہیں ہے۔۔ محسن نقوی کے تقرر میں کوئی غیر آئینی قدم نہیں اٹھا یا گیا کیونکہ یہی طریقہ درج ہے کہ اگر وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر متفق نہ ہوں اور پارلیمانی بورڈ بھی فیصلہ نہ کر سکے تو الیکشن کمیشن ان ہی چار نا موں میں سے ایک کا انتخاب کرے گا۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر جانبدار نام دینے چاہئے تھے۔ اگر پی ڈی ایم کو راستہ صاف مل جاتا ہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ عمران خان کی حکمت عملیاں ناکام ہوتی رہیں۔ سب سے پہلے تو انہوں نے حکومت سے نکلنے کے بعد وقت سے پہلے لانگ مارچ کا اعلان کیا اور تاریخ دینے میں کافی وقت لگایا۔ نتیجے کے طور پر وفاقی حکومت کو اتنا وقت مل گیا کہ وہ انْکو روکنے کی تیاری کر لے اور یہ بحالت مجبوری عدالت میں چلے گئے۔ دنیا کی کون سی عدالت ایسی ہوگی جو کسی سیاسی جماعت کو اجازت دے گی کہ جائیے توڑ پھوڑ کیجئے؟ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ صوبائی حکومتوں کو تحلیل کرنے میں بھی تاخیر کی۔ وفاق نے اس کا فائدہ اٹھا یا۔ اب جبکہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہو گئی ن لیگ نے قومی اسمبلی کے تحریک انصاف کے اراکین کے استعفے قبول کرنے شروع کردئیے۔ عمران خان کو قومی اسمبلی سے استعفیٰ نہیں دینا چاہئے تھا۔ اب ان کے پاس ترپ کا کوئی پتہ نہیں بچا سوائے اس کے کہ عوامی طاقت استعمال کیا جائے۔ عوام مہنگائی اور بیروزگاری سے شائد اتنے تنگ آتے جا رہے ہیں کہ مظاہروں میں شرکت کرنا ان کے لئے ممکن نہیں۔ 
ایسا لگ رہا ہے کہ موجودہ حکومت کو کسی اور چیز کی فکر نہیں جیسے معیشت، بے روزگاری اور دیگر انتظامات وغیرہ۔ اس کی ساری جد و جہد عمران خان کو نیچا گرانے، نا اہل کرانے اور گرفتار کرنے میں صرف ہو رہی ہے۔ دوسری طرف عمران خان سوائے نواز، زرداری اور فضل الرحمان کو چور ڈاکو کہنے کہ کچھ اور نہیں کر رہے۔ اس لحاظ سے پاکستان سیاسی اعتبار سے پہلوان کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے۔  
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ موجودہ حکومت نے عمران خان کے خلاف آپریشن شروع کر دیا ہے اور میاں نواز شریف کے وطن آنے میں زیادہ دیر نہیں۔